غار ِحرا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو غیر متوقع طور جبرئیل علیہ السلام کی جلوہ نما ئی اور اللہ کی جانب سے سورہ ٔ علق کی پانچ آیاتِ قرآنی کا عطیہ تاریخ ایک انقلاب آفرین باب رقم کر گیا ۔ قبل ازیں آپؐ کو روح الامین ؑسے کوئی شناسائی تھی نہ منصب ِنبوت سے آشنا ئی، نہ اپنے اوپر خدائے مہربان کی خصوصی عنایات والتفات کے مطالب و معانی جانتے تھے ۔ گوشہ ٔ تنہائی میں معزز فرشتے کی جانب سے پانچ آیاتِ قرآنی از دل ریزد بر دل خیزد کے مصداق آپ ؐ کے لوحِ قلب پر مرتسم ہوئیں ۔ اقراء کا خدائی فرمان جاہلیت و لاعلمیت ، تشکیک و لاادریت کے خلاف اعلان ِ بغاوت تھا، یہ ہمہ گیر انقلاب اسلامی کا دستورالعمل تھا، یہ علم وفہم کی شاہ کلید تھی، یہ آگہی وعرفان کی سدابہار قندیل تھی، یہ افراد واقوام کی جملہ صلاحیتوں کو تعمیروترقی کی طرف موڑنے کا اشارہ تھا ،یہ شیطانی شکنجوںسے انسان کی آزادی کا پرچم تھا، یہ آقائے نامدار ؐ کے مبارک ہاتھوں علم ِوحی کی پرچم کشائی تھی، یہ عطیۂ الہٰیہ نبوت کا دیباچہ اور رسالت کا خلاصہ اور اسلام کے نور سرمدی کا افتتاحیہ تھا ۔ روایات میں آیا ہے کہ جبرئیل ؑ نے موقع کی مناسبت سے خلوت گاہِ رسول ؐ میں دو مزید کام سرانجام دئے: اول خیرالانام صلعم کواستنجاء اور وضو کے آداب سکھا ئے کہ آپ ؐ ظاہری طہارت کے اسلوب سے آشکارا ہوئے، دوم نما زادا کر نے کے طور طریقے دکھاکر آں جناب ؐ کو باطنی طہارت سے آشنا کیا۔ اسلامی علوم وافکار کا مغز انسان کی ظاہری طہارت اورباطنی تزکیہ ہے جس کی ابتدائی شکل نمازہے ۔ اس گوشہ ٔتنہائی میں جبرئیل ؑ امام بنے اور اُن کے پیچھے مقتدائے زمانہ امام الانبیاء ؐ مقتدی بن کر قیام ، رکوع،سجود اور قومہ کی تقلید کرتے رہے۔
غارِحرا میں پہلی وحی کے بعد حکمت خداوندی کے تحت فترت الوحی ( وحی کا رُک جانا) کا دور شروع ہوا۔ آپ ؐ پر تنزیل وحی موقوف ہوئی ۔ اس کے ردعمل میں آپؐ بشری تقاضوں کے تحت حزن وملال اور فکر وغم میں غوطہ زن ہوئے ۔ علمائے دین فرماتے ہیں وحی کا سلسلہ کچھ دیر روکنے میںاللہ کی یہ مصلحت تھی کہ آں حضرت ؐ کو وحی کی اولین قسط کے موقع پر جو خوف ودہشت لاحق ہوا ،وہ کافور ہو، آپ ؐ آمد ِوحی کے اشتیاق میں سراپا انتظار بنے رہیں ، وحی ٔ الہیٰ کی گراں باری برداشت کر نے کی قوت واستعداد آپ ؐ میں روبہ ترقی ہو جائے ۔ انقطاع ِوحی کی مدت کے بارے میں علماء مختلف الاراء ہیں۔کوئی اسے تین سال اور بعضے ڈھائی سال بتا تے ہیں ،البتہ ابن جُریح ۱۲ ،کَلبی۱۵، ابن عباسؓ ۲۵ اور سُدی اور مقاتل ۴۰ روز کی مدت بتاتے ہیں ۔ ابن سعد حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ وحی موقوف ہونے کا معاملہ چند دن سے زیادہ متجاوز نہ تھا۔نزول ِ وحی کا یہ مختصر سا وقفہ آپ ؐ پر نہایت شاق گزرا۔ ظاہر ہے کہ کائنات کے خالق ومالک سے کلام وسلام قائم ہونا نبی ٔ رحمت ؐ کے لئے دنیا کے تمام اعزازات، نعمات اور لذات سے فائق ترین انعام تھا،ا س لئے آپ ؐ کی قلبی خواہش تھی کہ لقاء اللہ کاسلسلہ کوئی تاخیر حائل نہ رہے ، یہ بلا خلل اور بلافصل چلتارہے ۔ اللہ اس تلاش وجستجو کی آنچ بڑھا نا چا ہتا تھا اور یہ وقفہ آپ ؐ پر کس قدر گراں گزرا،اس کی ایک جھلک صحیح البخاری’’کتاب التعبیر‘‘میں درج ہے، فرمایا:وحی کا آنا رُک گیا،یہاں تک کہ آن حضرت ؐ کو جیسا کہ ہم کو اطلاع ہوئی ہے ،اس کا غم ہوا۔ آپ ؐ کئی مر تبہ کاشانۂ نبوت سے روانہ ہوئے کہ اپنے آپ ؐ کو پہاڑ کی چوٹیوں سے گرادیں لیکن جب کبھی آپ ؐ پہاڑ پر چڑھتے تھے تاکہ اپنے آپ ؐ کو گرادیں تو جبرئیل ؑ ظاہر ہوتے تھے اور کہتے تھے : اے محمدؐ!آپ سچ مچ اللہ کے رسول ہیں ۔ یہ سن کر آپ ؐ کا قلب مبارک سکون پذیر ہوجاتاتھااور آپ ؐپلٹ جاتے تھے، پھر جب وحی کی رُکاوٹ طویل ہوگئی توآپ ؐ پھر ایسا ہی کر تے کہ پہاڑ چوٹی پہ چڑھتے تھے،عین اس وقت بھی جبرئیل ؑ ظاہر ہوا کرتے اور آپ ؐ سے یہی فرماتے تھے ۔
بہر کیف وحی کی صورت میں رُبانی مخاطبہ اپنے ساتھ لاثانی ولافانی روحانی حظ، وجد آفرین حلاوت ، محبت و اپنائیت کے کیف وسرور اس قدر لایا کہ آپ ؐ جیسی صابر و شاکر شخصیت اس میں وقفہ آنے پر نیم جان ہوئی ۔ اس واقعہ سے حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کا وقت ِمقررہ سے پہلے ہی کوہ ِ طور پہ اللہ کے حضور حاضری دینے کی بے قراری قابل فہم بنتی ہے۔ بجائے اس کے کہ اللہ اپنے محبوب پیغمبر ؐ کی ان بے تابا نہ اداؤں کے پیش نظر جبرئیل ؑ کو نیا پیغام دے کر آپ ؐ پر نازل فرماتا ، یہ وقفہ طول کھینچتاگیا کہ عالم اضطراب میں آں حضورؐ ماہی ٔ بے آب کی طرح اتناتڑپتے رہے کہ اپنی مبارک زندگی کو دھرتی پرایک بوجھ سمجھنے لگے ۔ نوبت یہ پہنچی کہ جو حیات النبیؐ عالم ِانسانیت کو خود کشی اور مایوسی کے دلدل سے نکال باہر کرنے کے لئے صدیوں ترتیب پاتی رہی، وہ نزولِ وحی کی عارضی بندش پر اندوہ و دلگیری میں اپناصبر وثبات کھو گئی۔ آپ ؐ کو یہ گمان بھی گزرنے لگا کہیں آپ سے کوئی خطا یا بھول چوک تو نہ ہوئی کہ العیاذ باللہ خالق کائنات آپ سے ناراض ہوکر عدم التفات برت رہا ہے۔ سورہ ا لضحیٰ اس گھمبیر صورت حال کی تصویر کشی یوں کر تی ہے : قسم ہے روزِ روشن کی اورر ات کی جب کہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہوجائے(اے نبیؐ ) آپ کے رب نے آپ کو ہر گز نہیں چھوڑااور نہ وہ ( آپ ) سے ناراض ہوا۔ اور یقیناً آپ کے لئے بعد کادور پہلے دورسے بہتر ہے اور عنقریب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے ( سورہ الضحٰی) یہ حرفِ تسلی ہے آپ ؐ کے لئے عالم الغیب والشہادۃ خداوندکریم کی بارگاہ سے کہ میرے محبوب! غم نہ کھائیں، فکر نہ کریں، خداوند ِقدوس آپؐ کے ساتھ دن اور رات کی مانند سایہ کئے ہوا ہے ا ور آپ ؐ کا مستقبل حال سے روشن ہے ۔ یہ آیات صراحت کر تی ہے کہ جس طرح دن کے اُجالا اور رات کی تاریکی سے یہ مفہوم اخذ نہیں کیا جانا چاہیے کہ اللہ دن کی روشنی سے خوشی یا رات کے اندھیرے سے ناخوشی ظاہر کرتا ہے بلکہ رات دن کا اُلٹ پھیر اللہ کے آفاقی منصوبے کا جزو لاینفک ہے،بعینہٖ وحی کا نزول یااس کے نزول میں وقفہ اُسی کی منشاء ومصلحت پر دلالت کر تاہے۔ اس سے کوئی اور مطلب نچوڑ نے کی قطعی ضرورت نہیں ۔ بعض مفسرین ان آیات کے ڈانڈے ایک دوسرے واقعہ سے ملاتے ہیں۔ (واللہ اعلم )
فترت ِوحی کی ان دل گداز کیفیات سے گزرتے ہوئے آپ ؐ کا جینا دشوار ہو امگر ا بھی جان لیوا کشمکش ومجادلہ آرائی کاوہ سماں تو بپا ہونے دیجئے جب چراغ ِ مصطفوی ؐ اور شرارِ بولبہی باہم دگر دست وگریبان ہوں گے ۔ آپ عنقریب دیکھیں گے کہ اقراء کی ندائے رُبانی پر جہالت وناخواندگی کے وفاشعار بندے اتنا تلملا اٹھیں گے کہ محمدعربیؐ کی جانب سے اعلان ِ نبوت کی پہلی گونج پر وہی معاشرہ یک بہ یک آپ ؐ کے خلاف سرتا پا آگ بگولہ ہے جو آپ ؐ کی ا مانت وصداقت کی قسمیں کھاتا ، جو آپ ؐ کی بلند کرداری کا چرچا کرتا، جو ہمیشہ آپ ؐ کی منصف مزاجی کی تعریفوں میں ر طب اللسان رہتا۔ یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اسی بگڑے معاشرے کے بطن سے چنیدہ ہیرے اُچھل کر اسلام کی جھولی میں آئیں گے ، یہ مٹھی بھر لوگ بے سروسامانی کی حالت میں جاہلیت سے دودوہاتھ ہی نہ ہوں گے بلکہ طاغوت کے آتشیں سمندر کا رُخ پھیرنے کے لئے کمر ہمت بھی باندھیں گے ۔ یوں مکہ میں حق و باطل کا ایک فیصلہ کن معرکہ اقراء کے زیر سایہ بپا ہوگا۔ ذراسوچئے یہ اصولی کشاکش ،نظریاتی جنگ اور عقیدہ و عمل کا محاربہ کن خطوط پرچھڑ گئی؟ چشم ِفلک دیکھ رہی ہے کہ جہالت اور علم کے مابین یہ جنگ دو متضاد دھاروں کی نمائندگی کرتی ہے ۔ قلیل التعداداہل حق کہتے ہیں اقراء ہماری شہ رگ ہے ، تو حید ہماری روح ہے ، رسالت ہماری جان ہے ، صداقت ہماری شان ہے ،بت پرستی ، جہالت، توہم پرستی، باپ دادا کی تقلید سے اظہارِ برأ ت ہمارا ایمان ہے ۔ کثیر التعداد اہل ِباطل کہتے ہیں کہ ہمیں کا ہے کو کسی نامعلوم آسمانی ہدایت کے سامنے سر تسلیم خم کر نے کو کہا جارہا جب کہ ہم گمراہی و سرکشی کی وجہ سے زمین پر پھل پھول رہے ہیں؟ ہمارا نبوت اور وحی سے کیا لینا دینا جب کہ ہمارے نفس کی خدائیت کا طنطنہ ہے ؟ ہمیں اقراء پر کان دھرنے کی کیا ضرورت جب کہ ناخواندگی ، اَندھ وشواس، توہمات اور نفس پرستانہ رسومات وبدعات کے زیر سایہ ہم خوب مزے کر رہے ہیں ؟ ہمیں توحید سے کیا سروکار جب کہ لات ومنات ، ہبل و عزیٰ کی نگاہِ کرم کے طفیل ہماری مشکل کشائی اور حاجت روائی دھوم سے ہو رہی ہے ؟ ہم اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید چھوڑ کر بھلا اس شخص( مطلب پیغمبر امیؐ، فداہ امی وابی) کی اتباع کیوں کریں جو کوئی فرشتہ نہیں ہم جیسا بشر ہے ، بازاروں میں چلت پھرت کر تا ہے ، کھاتا پیتا ہے ،گھر گرہستی چلاتا ہے، یہ لعل وجواہر کا کوئی خزانہ اپنے پاس رکھتا ہے ؟ پیغمبری جب مافوق البشر ہستی کے شایان ِشان ہو تو ہم (خاکم بدہن )کسی شاعر، کاہن ، مجنون ، ساحر پر ایمان کیوں لائیں ؟ کفار ومشرکین انہی مغالطوں اور معاندتوں کا کوڑا کرکٹ دل ودماغ میں جمع کر کے پوری قوت کے ساتھ حق کی مخالفت اور جاہلیت کی حمایت کا حق اداکر ر ہے ہیں ۔ اسی مستقل کشیدگی اور تناؤ کے پس منظرمیں اسلام کا سفر وحی ٔ الہٰی کے نور، محمد رسول اللہ ؐ کی قیادت اور صحابہ کبار رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے لازوال ایمان ،ا یثار اوراخلاص کے ساتھ سوئے منزل رواںدواں ہے۔وحی ٔ الہیٰ کے خلاف یہ اشکالات اور عناد اُسی دورِ جاہلیت کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ جدید دور میںبھی ابلیسی لشکردجال ِزماں کی سربراہی میں حق کے خلاف اپنی زور آزمائیاں ، ریشہ دوانیاں ، رسہ کشیاں، مخاصمتیںاور مزاحمتیں انہی خطوط پر چلا رہاہے۔ ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی طبل ِ جنگ کی تھاپ یہی ہے کہ فرش ِزمین عرش معلی کی ہدایات ِ وحی کا قطعی محتاج نہیںاور باطل وطاغوت عصری اصطلاحات میں کہہ ر ہے ہیں کہ ہم اہل ِزمین خود اپنے خدا ہیں ،ہمیں آسمانی ہدایت نہیں چاہیے ، بے خدا سوچ کے صدقے ہم بُرے بھلے کی تمیز سے بخوبی واقف ہیں،ہمارے اِ زم ہمارے معبود ہیں ، ہماری خواہشات ِ نفس کی پوجاکے لئے ہر ایوان اور ہر قانون وقف ہے ، ہمارا عالمی نظام پرودگار ِ جہاں ہے، ہم لوٹ مار اور ماردھاڑ کے توسل سے شان کے ساتھ جی رہے ہوں تو کسی آسمانی شریعت کسی انبیائی ہدایت پر لبیک کہنے کی کیا مجبوری ہے ؟اصل یہ ہے کہ ہزاروں سال سے انسان اس مخمصے سے باہر نکل ہی نہ آیا کہ جب پید ائش کے وقت نو زائیدہ بچے کی جبلت اسے کہتی ہے جاؤ ماں کی چھاتی میں تمہارے لئے امرت ہے ، مچھلی آنکھ کھولتے ہی جبلت کی رہنمائی میں پانی میں تیرتی ہے، پرندوں کے بچے انڈے سے باہر آتے ہی اپنے پر پھڑ پھڑ انے لگتے ہیں ، تو ایک ذی شعور انسان کو کسی اور ذریعہ ٔ ہدایت کی کیا ضرورت؟ کا ش یہ گمراہانِ سست عناصر جانتے کہ فی ا لحقیقت یہ قانونِ قدرت ہے جو جبلت کی شکل میں ہر جاندار کے لئے اپنا فریضہ انجام دیتا رہتا ہے ۔ انسان اور حیوان کے لئے اس قانون کے اپنے اپنے تقاضے ہیں مگر اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے انسان کو جبلت سے آگے وجدان ،عقل اورحواس سے بھی رہنمائیاں ملتی رہتی ہیں، پھر بھی انسانی زندگی کی گتھیاں سلجھانے اور پیچیدگیوں کاازالہ کرانے میں خالق ومالک اللہ نے ہدایت ِوحی کی شکل میں اپنی رہنمائی کا اہم ترین دروازہ انسان کی بھلائی و پراپر جائی کے لئے کھول رکھاہے۔ یہ رہنمائی ہر قسم کی کوتاہیوں ، محدوویتوں اور نقائص سے پاک ومنزہ ہے ، اس کی جلّو میں افراد اوراقوام کی زندگیاں حیوانیت کے خول سے نکل کر ملکوتیت پر سرفراز ہوتی ہیں ۔ نبوت ورسالت کا نورانی باب اسی ہدایت کی فیض رسانیوں کے لئے کھولا گیا۔ اس اہم ترین کام کو سر انجام دینے کے لئے صرف انبیاء ومرسلینؑ کا معصوم عن الخطاء گروہ کی اتباع لازم وملزوم ہے ۔اللہ کی ہمہ وقت نگرانی میں انبیاء ؑکی پاک زندگیاں روزِ روشن کی مانند صاف وشفاف ر ہیں ، زمانے کی آلائشوں سے اور وقت کے افراط وتفریظ سے کاملاً پاک و مطہر ۔ ان پاک نفوس کا کردار کتنا بے داغ ہوتا ہے اس کی ایک جھلک سورہ ٔ یوسف کا یہ مرقع دکھاتا ہے۔ حضرت یوسف ؑ عزیز مصر کے گھریلو خادم ہیں۔ عزیرمصر کی بیگم آپ ؐ کو دعوتِ گناہ دیتی ہے مگر یہ پُر شباب پیغمبر زادہ صریحاً انکار کرتا ہے ۔اس رسوائے زمانہ واقعہ کا چرچااعلیٰ مصری سوسائٹی میں ہونے سے بیگم جی کی بدنامی ہوتی ہے۔ اپنے گناہ کے دفاع میں عزیز مصر کی گمراہ بیگم ایک تکیہ دار مجلس ضیافت کر کے مصر ی امراء ،روساء اور اونچے عہدیداروں کی بیگمات کے سامنے حضرت یوسف صدیق علیہ السلام کو لاتی ہے ۔ یہ نام نہادہائی سوسائٹی خواتین شرافت ونجابت کے اس پیکر اعظم کو اپنے درمیان پاکر بے ساختہ کہہ اٹھتی ہیں : حاشاء للہ، یہ شخص انسان نہیں کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔ حق یہ ہے کہ تما م انبیاء ؑ فرش ِ زمین پر ملکوتی ہستیاں تھیں ۔ اس سلسلے میں یہ تاریخی واقعہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ۶ ہجری میںبادشاہانِ جہاں کے نام دعوت ِاسلامی کے پیغامات ارسال کئے۔ وقت کی رومی سلطنت بادشاہ ہر قل کے نام یہ والانامہ حضرت وحیہ کلبیؓ لئے شاہی دربار میں پہنچے۔بادشاہ نے بعثت محمدیؐ کی حقیقت حال جاننے کے لئے سرکاری عملہ سے دریافت کیا کہ اگر کوئی حجازی قافلہ اس کی قلمرو میں موجود ہے تو اسے پیش دربار کیا جائے تاکہ آزادانہ طور اس ہستی( محمد عربی) ؐ کے بارے میں پوچھ تاچھ کرکے سفیر اسلام کے دعوے کو پر کھا جائے ۔ اتفاق سے اسلام کے اُس وقت کے سب سے بڑے حریف ورقیب ابوسفیان دارالسلطنت میں موجود تھے ، انہیں شاہی دربار میں طلب کر کے نبی ٔ اکرم ؐ کے کردا ر سے متعلق ہرقل نے بھرے دربار میں کچھ سوالات کئے۔ابوسفیان نے دائرہ اسلام سے باہر ہونے کے باوجود آپ ؐ کی راست گوئی ، امانت داری ، پاک بازی کی بلا چوں چرا گواہی دی ۔ہرقل نے آپ ؐ پر اپنااطمینان یہ کہہ کر ظاہر کردیا کہ جو ہستی انسا نوں پر جھوٹ کہنے کو کبھی آمادہ نہ ہوئی وہ کبھی خدا پر جھوٹ نہیں بول سکتی۔
( بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں، اِن شاء ا للہ)