سرینگر// ریاستی اسمبلی میں گرم گفتاری،تلخ کلامی اور طعنہ زنی کے بیچ اس وقت عجیب و غریب مگر دلچسپ ماحول پیدا ہوا جب نیشنل کانفرنس کے دو لیڈروں نے دیہی ترقی کے وزیر ایڈوکیٹ عبدالحق خان کو اخوانی بندوق برداراور البرق کا جنگجو جتلایا۔ سروڑی اور جاویدمصطفی میر کے درمیان الزاما ت و جوابی الزامات کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے جبکہ انجینئر رشید نے بھی تیزابی الفاظ کا استعمال کیا اور سجاد لون بھی برہم ہوئے۔ ریاست میں’’ جی ایس ٹی‘‘ کے اطلاق پر بحث کیلئے بلائے گئے خصوصی اسمبلی سیشن میں پہلے روز ہی ایوان اسمبلی میں آپسی تکرار اور ایک دوسرے پر وار کیا گیا۔ حزب اختلاف کے ممبران نے شہری ہلاکتوں کے خلاف پہلے ایوان اسمبلی کے باہری گیٹ اور بعد میں سیاہ پٹیاں لگا کر ایوان میں دھرنا دیا۔ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے ممبران اسمبلی اپنی نشستوں سے کھڑے ہوئے اور احتجاج کرنے لگے۔نیشنل کانفرنس ،کانگریس اوردیگراپوزیشن ممبرا ن نے خصوصی اجلاس کی کارروائی کابگل بجتے ہی ماتھے پرسیاہ پٹیاں باندھ کر ایوان کے اندر’’اسرائیلی وآرایس ایس ایجنڈانہیں چلے گا،ریاستی دہشت گردی بندکرئو‘‘جیسے نعرے بلندکرتے ہوئے مخلوط سرکارسے شہری ہلاکتوں،طلاب کیخلاف پیلٹ گن کے استعمال ،زیادتیوں اورہراسانیوں کے واقعات کاجواب طلب کیا۔انہوں نے ہاتھوں میں پُلے کارڈس اُٹھارکھے تھے جن پرریاستی دہشت گردی بندکرئو،معصومین کی ہلاکتیں بندکرئو، طلاب کیخلاف پیلٹ گن کااستعمال بندکرئو،گھرگھرگائو ںگائوں توڑپھوڑ اورہراسانیاں بندکرئواورخون خرابہ بندکرئو جیسے نعرے ضبط تحریر میں لائے گئے تھے ۔سابق اسپیکرمحمداکبرلون ،عبدالمجیدلارمی ،محمدشفیع اوڑی ،علی محمدساگر،جی ایم سروری ،انجینئررشید،دیویندرسنگھ رانا اور دیگر اپوزیشن ممبران نے مخلوط سرکارہائے ہائے کے نعرے بلندکرتے ہوئے اس سرکارکوشیم سرکاربتایاجبکہ انہوں نے اسپیکرکی مداخلت کونظراندازکرتے ہوئے شورشرابہ جاری رکھا۔انہوں نے اسپیکرسے مخاطب ہوکرکہاکہ جب تک ہمارے خدشات ،تحفظات اورمطالبات پرایوان میں بحث نہیں کی جائیگی تب تک ہم کارروائی نہیں چلنے دیں گے ۔ سپیکر نے ماتمی قرار دادپیش کی،جس کے دوران گزشتہ اسمبلی سیشن کے بعد فوت ہوئے ممبران اسمبلی اور پارلیمان کے علاوہ اہم شخصیات کو خراج عقیدت ادا کیا گیا۔ اسمبلی میں اس وقت عجیب و غریب صورتحال پیدا ہوئی جب چاہ ایوان میں دھرنے پر بیٹھے نیشنل کانفرنس کے ممبر اسمبلی عبدالمجید لارمی نے گزشتہ دن کولگام ہلاکتوں پر احتجاج کرتے ہوئے سپیکر کو میمورنڈم پیش کرنے کی کوشش کی۔اس موقعہ پر ایڈوکیٹ عبدالحق خان نے عبدالمجید لارمی کو اپنی نشست پر بیٹھنے کیلئے کہا۔عبدالمجید لارمی برہم ہوئے اور انہوں نے دیہی ترقی کے وزیر سے کہا کہ وہ گزشتہ اڈھائی گھنٹہ سے احتجاج کر رہے ہیں،کسی نے بھی انکی طرف توجہ نہیں دی اور اب جب اسپیکر نے انہیں کچھ کہنے کیلئے بولا تو آپ مداخلت کر رہے ہیں۔لارمی نے کہا ’’ آپ نائب وزیر اعلیٰ بننے کی کوشش نہ کریں،آپ ایک اخوانی ہو اور میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں‘‘۔ اس موقعہ پر ایڈوکیٹ حق خان نے کہا کہ میں کھبی عسکریت پسند نہیں تھا اور اگر یہ ثابت ہوجائے تو میں مستعفی ہونے کیلئے تیار ہوں۔دونوں کے درمیان ابھی بحث جاری ہی تھی کہ سابق اسپیکر اسمبلی ایڈوکیٹ محمد اکبر لون بھی نشست سے اٹھے اور دیہی ترقی کے وزیر سے کہا ’’ میں یہ ثابت کرسکتا ہو کہ حق خان البرق کے ایک اعلیٰ کمانڈر تھے،اور اس نے میری رہائش گاہ پر ظہرانہ بھی کیا‘‘۔انہوں نے ایڈوکیٹ حق خان سے کہا کہ وہ انہیں غلط ثابت کریں جبکہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایک وقت وہ الجہاد بھی چلایا کرتے تھے۔ کانگریس کے عثمان مجید بھی بحث میں شامل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ چونکہ میں ایک ملی ٹنٹ تھا،اس لئے جانتا ہوں کہ ایڈوکیٹ حق خان بھی ایک جنگجو تھا۔ پی ڈی پی کے جاوید میر نے بحث میںحصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہم سب جنگجو تھے اور اب مین اسٹریم میںہیں۔ ایڈوکیٹ لون نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ کیوں نہ ریاستی پولیس کے سربراہ کو تحقیقات کیلئے کہا جائے تاکہ،دودھ الگ اور پانی الگ ہوجائے گا۔ اس سے قبل کانگریس کے جی ایم سروڑی اور جاوید میر کے درمیان اس وقت ان بن ہوئی جب سروڑی نے کہا کہ ملک میں بی جے پی نے فرقہ پرستی کو ہوا دی جبکہ پی ڈی پی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ قرآن نہ ماننے والی جماعت کے ساتھ انہوں نے ہاتھ ملایا‘‘۔اس موقعہ پر جاوید مصطفیٰ میر برہم ہوئے اور انہوں نے سروڑی پر برستے ہوئے کہا کہ ملک میں تمام برائیوں کی جڑ کانگریس ہے، بابری مسجد شہید کرنے واالوں کو بھی کانگریس نے پناہ دی۔انہوں نے سروڑی سے مخاطب ہو کر سوالیہ انداز میں کہا،افضل گورو کو کس نے پھانسی دی۔مقبول بٹ کو کس نے تختہ دار پر چڑھایا،کانگریس سب سے بڑی مجرم ہے۔سروڑی نے جاویدمصطفی پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے والد بھی کانگریس میں تھے تاہم جاوید میر نے کہا کہ کانگریس کی پالیسوں کو دیکھ کر ہی وہ اس جماعت سے الگ ہوئے تھے۔ ریاستی اسمبلی میں اس وقت ایک مرتبہ پھر عجیب و غریب کیفیت پیدا ہوئی جب ماتمی قرار داد پر تمام ارکان اسمبلی نے2منٹ کی خاموشی اختیار کی،تاہم انجینئر رشید نے میجر گگوئی کے خلاف قرارداد منظور کرنے کی دہائی دیتے ہوئے چلایا’’ آپ کی خاموشی سے کیا ہوگا، کسی کی روح کو تسکین نہیں ہوگی،میجر گگوئی پر لب کشائی کیوں نہیں‘‘۔قرار داد کو منظور کیا جائے،جس کے ساتھ ہی انہوں نے وزیر اعلیٰ کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ یہ ڈرامہ بند کیا جائے۔انہوں نے رائے شماری کا نعرہ بلند کرتے ہوئے کہا کہ اٹانومی ہمیں نہیں چاہے،بلکہ ریاست میں رائے شماری کی جائے۔ ماتمی قرار داد پر پیپلز کانفرنس کے ایڈوکیٹ بشیر احمد ڈار نے نیشنل کانفرنس پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ جب مرکزی سرکار نے حزب المجاہدین سے بات کی،تو اس جماعت نے انہیں بے نقاب کیا۔اس پر نیشنل کانفرنس کے ممبران اور بشیر احمدڈار کے درمیان جب تو تو میں میں ہوئی تو سماجی بہبود کے وزیر سجاد غنی لون نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ صحیح نہیں کہ اس بات کا فیصلہ لیا گیا تھا کہ اس بات چیت کو میڈیا سے دور رکھا جائے،تاہم آپ نے پریس کو وہاں بھجوا کر ان کمانڈروں کو بے نقاب کروایا۔