جموں//گزشتہ 2برس سے جموں خطہ میں شراب کی فروخت کے خلاف ایک مہم سے چل نکلی ہے ۔ چونکہ یہ مہم ریاست کے اقلیتی فرقہ کی جانب سے چلائی جا رہی ہے اس لئے نہ تو اس کے خلاف کوئی آواز اٹھی بلکہ کئی سیاسی و سماجی تنظیموں کی طرف سے اسے حمایت مل رہی ہے، یہاں تک کہ ضلع راجوری سے حکمران بی جے پی کے ایک شعلہ بیان ممبر اسمبلی ، جو اکثریتی فرقہ کی مخالفت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، شراب پر پابندی کے کٹر حامی بن کر سامنے آئے ہیں ۔ البتہ اگر یہی مہم اکثریتی طبقہ کی طرف سے چلائی جاتی تو اسے ریاست میں نظام مصطفی کے نفاذ کا ایک حصہ قرار دے کر اس کی بھر پور مخالفت کی گئی ہوتی اور اس کی مخالفت میں جگہ جگہ شراب کی دکانیں اور مے خانے کھول دئیے جاتے ۔ بہر حال جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہ صرف حوصلہ افزا ہے بلکہ اسے آگے بڑھانے کے لئے سماج کے تمام طبقوں کو آگے آنے کی ترغیب ملتی ہے ۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب ضلع ادہم پو رمیں منتھل کے مقام پر شراب کی دکان کھولے جانے کے خلاف خواتین سامنے آئیں۔خطہ پیر پنچال کے مینڈھر میں لوگوں نے شراب کی فروخت کے خلاف زور دار احتجاج کیا تو اس کے بعد ماہ مارچ میں جموں کے روپ نگر کی رہائشی کالونی میں شراب کی دکان کھولے جانے کے خلاف لوگوں نے مظاہرے کئے جس کی قیادت حکمران بھاجپا کی یوتھ اکائی BJYMکر رہی تھی ۔ حال ہی میں یہ معاملہ طول پکڑ گیا ہے ۔حال ہی میں جموں خطہ میں متعددمقامات پر مسلسل مظاہرے ہوئے جس دوران احتجاج کرنے والی خواتین نے شراب کی دکانوں کو جلانے کی کوشش بھی کی۔23مارچ کو ضلع سانبہ کے چک منگو گائوں میں تو 14مئی کو آر ایس پورہ میں شراب کی فروخت کے خلاف زور دار پروٹسٹ ہوا۔خطہ چناب میںبٹوت کشتواڑ روڈ پر کنڈیری نالہ کے مقام پر ایک قدیم شراب کی دکان پر خواتین نے ہلہ بول کر سینکڑوں فروٹیاں اور بوتلیں توڑ دیں تو حال ہی میں 27مئی کو باغ باہو کے متصل واقعہ شراب کی دکان کو آگ لگا دی گئی ۔ام الخبائث کے مضر اثرات اور اس کے انجام سے ہر کوئی واقف ہے ۔ جب جموں سرینگر شاہراہ سے کٹرہ میں قائم ویشنو دیوی یونیورسٹی کو جانے والی سڑک پر شراب کا ایک ٹھیکہ کھولا گیا، اس کی مخالفت میں خواتین کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی جسے طاقت کا بھاری استعمال کر کے دبا دیا گیا۔ یہ عین وہی وقت تھا جب سرینگر کے این آئی ٹی میں غیر ریاستی طلاب پر پولیس لاٹھی چارج کی گونج سرینگر سے لے کر دہلی تک سنائی دے رہی تھی لیکن منتھل کے قریب شراب کی دکان کے خلاف آواز بلند کرنے والے مظاہرین ،جن میں بیشتر خواتین تھیں، پر طاقت کے بیہمانہ استعمال کے خلاف کسی نے آواز اٹھانے کی زحمت گوارہ نہ کی۔ یہاں سے تحریک ملنے کے بعد یہ سلسلہ دراز ہو تا گیا اور شراب کی دکانیں کھولنے کے خلاف احتجاج ہونا شروع ہو گئے۔