واہ رے اچھے دن!

Kashmir Uzma News Desk
15 Min Read
 مورخہ 3مئی 2017بروز ہفتہ مرکزی وزیر مالیات ارون جیٹلی کی قیادت میں منعقدہ جی ایس ٹی کونسل میں اشیا ء و خدمات ٹیکس(جی ایس ٹی) کی فہرست کو حتمی شکل دیدی گئی ،جس کے مطا بق روزمرہ کی کئی اہم اشیا ء کی قیمتیں سستی ہوجائیں گی ،خاص طور پر کھانے پینے جیسی ضروری چیزوں کو اس ٹیکس سلیب سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔حالانکہ ارون جیٹلی سمیت جی ایس ٹی کونسل اور بی جے پی کی مرکزی سرکار کا یہ دعویٰ سراسر فریب ،دغابازی اور کھلا فراڈ ہے کہ اناج کے قسم کی چند چیزوں کو جی ایس ٹی سے الگ رکھنے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوگا۔اکانومکس یعنی اقتصادیات کا ادنیٰ طالب علم بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں تخفیف یا اضافہ کا تعلق راست طور پر نقل و حمل کی سہولیات سے ہوا کرتا ہے۔جس طرح سے جیٹلی اوران کی غریب دشمن کونسل نے یہ سلیب مرتب کیا ہے اس کے مطابق تمام اشیاء پرمجموعی طور سے28فیصد ٹیکس واجب الادا ہو گا۔اب ذرا غریبوں کو کاٹھ کا الو سمجھنے والے ارون جیٹلی سے کوئی پوچھے کہ جب گاڑی ،گھوڑے ،مشین اور پٹرولیم مصنوعات اس ٹیکس میں نمایاں طور پر شامل ہیںپھر یہ فریب کیوں دیا جارہا ہے کہ اشیائے خورد و نوش کو جی ایس ٹی سلیب سے دور رکھا گیا ہے۔یہ منطق ہے،یا سیاست ،عوام کو بے وقوف بنانے کا فارمولہ ہے یا ٹھگنے کا منتر یا کارپوریٹ خاندانوں ناز بردار اور انہیں راست فائدہ پہنچانے کی ناپاک سازش ،آج نہیں تو کل اس کی حقیقت بھی دنیاکے سامنے آہی جائے گی ۔مگر اتنی بات تو طے ہے یکم جولائی 2017کو جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد مہنگائی کااژدہا جب منہ پھاڑے گا تو اسے قابو کرنا مودی سرکار کے بس کی بات نہیں رہ سکے گی اور دھرم کے نام پر ٹھگے جاچکے عوام کے پیٹ پرجب مہنگائی کی لات پڑے گی تو اس کے بعد بھگوا بریگیڈ مجبور و بے بس عوام کے سامنے اسٹیج پربندروں کی طرح اچھلنے کا حوصلہ نہیں جٹا سکیں گے۔   
ذہن نشین رہے کہ سری نگر میں کونسل کے حتمی فیصلے کے بعد جی ایس ٹی کے تحت یکم جولائی سے سونا مہنگا ہوجائے گا۔ البتہ 1000 روپئے تک کا لباس سستا رہے گا۔ بسکٹ اور فٹ ویر بھی سستے ہوجائیں گے۔مگر 500 روپے کے جوتے پر مہنگائی کا ایک اورجوتاآپ کو برداشت کرنا ہوگا۔
یہ تو رہا سرکار کا پنا دعویٰ جس کے تحت اس نے کہا ہے کہ ہم نے جی ایس ٹی کا سلیب تیار کرتے ہوئے غریب اور عام ہندوستانیوں کے روز مرہ استعمال میں آنے والی چیزوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا ہے مگرآپ جب حتمی شکل میں پیش کئے گئے جی ایس ٹی کے مسودہ کو دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ مرکزی حکومت نے حسب روایت عام آدمی کوایک بار پھر فریب کے خوبصورت جال میں الجھانے کی بھرپور اور منظم پالیسی مرتب کی ہے۔اس سلسلے میں اپنی جانب سے کچھ بھی کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،جی ایس ٹی کونسل کی جانب سے پیش کردہ مسودہ کے متن پر ایک نظر ڈال لیجئے!۔ آپ خود سمجھ جائیں گے کہ جی ایس ٹی میںکئی ایسی چیزوں پر ٹیکس مقرر کئے گئے ہیں، جن کا تعلق امیر،غریب ،متوسط طبقہ اور عام ہندوستانیوں کی روز مرہ کی زندگی سے راست طور پر وابستہ ہے۔جیسے گارمنٹس ،صابن خوردنی تیل ،کچے کپڑوں کے دھاگے وغیرہ وغیرہ ۔
مختصر یہ کہ وزیرمالیات مسٹر ارون جیٹلی کے زیر قیادت منعقدہ جی ایس ٹی کونسل کے اجلاس میں ٹیکس پیکیج کاجواعلان ہوا ہے اس فیصلہ کے مطابق برانڈڈ فوڈ اشیاء پر 5 فیصد ،تیندوو پتے پر 18 فیصد اور بیڑی پر سب سے زیادہ شرح ٹیکس28 فیصد عائد ہوگی ، جب کہ بسکٹوں پر 18 فیصدٹیکس کی شرح عائد ہوگی۔ 500روپے کی کی قیمت والے جوتے چپلوں پر 5 فیصد جی ایس ٹی دیناہوگا۔ پارچہ جات کے زمرہ میں سلک ، جوٹ ، فائبر کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔ جب کہ کاٹن اور نیچرل فائبر اور تمام اقسام کے دھاگوں پر 5 فیصد جی ایس ٹی نافذہوگا۔ وزیرمالیات ارون جیٹلی نے کہاہے کہ جوتے چپل اور ٹکسٹائلز دونوں پر بڑی رعایت دی گئی ہے۔ٹیکس سلیب کے مطابق سونے کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ کونسل نے سونے اور سونے کے زیورات پر 3 فیصد ٹیکس عائد کیا ہے ۔ اب ذرا مندرجہ بالا سطور میں درج کردہ متعدد اشیاء پرمقرر کردہ ٹیکس پر ایک سرسری نظر ڈالئے اور خود فیصلہ کیجئے !کہ حکومت نے جس بسکٹ پر18فیصد ٹیکس نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے،کیا اس کا تعلق صرف ملک کے متوسط اور امراء طبقہ سے ہی ہے ،یا کسان  ،مزدور اور عام لوگ بھی اس کا استعما ل کرتے ہیں۔جی ایس ٹی کا مسودہ تیار کرتے ہوئے نہایت چالا کی سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ حکومت نے جی ایس ٹی سلیب میں ملک کے عام طبقہ کا خاص خیال رکھا ہے۔مگر ریڈی میڈ کپڑوں یعنی گارمنٹس پر جی ایس ٹی کا نفاذ اس عیارانہ سیاست کی ایک ایک پرتیں کھول رہا ہے ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدھے طور پر تو نہیں مگرسرکے پیچھے سے ہاتھ گھماکر عام ہندوستانیوں کومہنگائی کے جہنم میں جھونکنے کا پورا منصوبہ تیار کیا جاچکا ہے۔اس سوال کا جواب وزیر مالیات ارون جیٹلی اور ان کی کونسل کے ذمہ داران کودینا چاہئے، جن کی پوری زندگی سرکاری پیسے پر عیش وعشرت کے ساتھ گذررہی ہے ۔وہ بتائیں کہ آج کے وقت میں سول ٹیلروں نے کپڑے کی سلائی کے ریٹ کپڑے کی قیمت سے بھی زیادہ کردیے ہیں۔ ایسے میں گارمنٹس پر بھاری بھرکم ٹیکس نافذ کرکے انہوں نے عام ہندوستانیوں،غریبوں، مزدورو ں اور کسانوں کے ساتھ کہاں پر رحمدلی دکھائی ہے، آج تک غریب آدمی کو 500میں سلے سلائے ل(ریڈی میڈ) لباس مل جایا کرتے تھے ،مگر جب اس آسانی پر شب خون ماردیا جا ئے تو عام 500روپے کے کچے کپڑے اور 600سو روپے سلائی کیلئے کیسے جٹاسکے گا۔کیا 10لاکھ کا سوٹ پہننے والے وزیر اعظم نریندر مودی یا وزیر مالیات ارون جیٹلی کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ آج کے وقت میں سلانے سے زیادہ کفایتی لباس ریڈ ی میں دستیاب ہیں جس سے حاشیہ پرپھینکا جاچکا ہندوستانی کسی طرح اپنے تن ڈھانکنے کیلئے جوڑے کاانتظام کرلیتا ہے،مگر یکم جولائی کے بعد سے جی ایس ٹی کے بہانے ارون جیٹلی نے ملک عام باشندوں کو ننگا رہنے کی راہ ہموار کردی ہے،جیٹلی کا دعویٰ ہے کہ تازی ترین جی ایس ٹی کے مسودہ میں ٹیکسٹائلزکو شامل نہیں کیا گیا ہے مگریقین سراسر جھوٹ ہے جس کا ثبوت اسی فہرست میں موجود ہے جنہیں جی ایس ٹی کے تحت لایا گیا ہے۔ میر ے ذاتی تجزیہ کے مطابق گارمنٹس پر جی ایس ٹی نافذکرنے کا واضح اشارہ اسی مسودہ کے اندر موجود ہے۔اب یہ فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ مہنگی سلائی کے اس دور میں ریڈی میڈ ملبوسات کاسب سے زیادہ استعمال کون کرتا ہے ،اس کا جواب عوام خودہی تلاش کریں اورگارمنٹس پر مجوزہ جی ایس ٹی کے ذریعہ مرکزی حکومت نے کس کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے ، اس پر غور کرنا بھی عوام کاہی کام ہے۔اب آجائیے! ذرابغیر سلے کپڑوں پر ایک نظر ڈالتے ہیںجن میںکاٹن اور دیگرا قسام کے زیادہ تر وہی پارچہ جات ہیں جن کا استعمال بیشتر سیا سی لیڈران کیا کرتے ہیں، اسے ٹیکس فری رکھ کر کسے راست فائدہ پہنچانے کا نظم کیا گیا ہے اس سوال جواب بھی مسٹرجیٹلی کو ہی دینا چاہئے۔ کونسل کے اعلان کے مطابق کاٹن اور نیچرل فائبر اور تمام اقسام کے دھاگوں پر 5 فیصد جی ایس ٹی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا جن دھاگوں سے پاورلوم کمپنیاںکپڑے تیار کرتی ہیں وہ جی ایس ٹی کے5فیصد عوام سے نہیں وصول کریں گے۔ پھر آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ وزارت مالیات نے کچے کپڑوں کو جی ایس ٹی سے جدا رکھا ہے۔ یعنی کپڑوں پر حکومت کی مجوزہ مہنگائی کی مار نہیں پڑے گی۔دوسری جانب جی ایس ٹی کے اسی مسودہ کے اندر ملک کے قدرے ترقی یافتہ،سرمایہ دار اور سیاسی جماعتوں کے چھوٹے بڑے سبھی نیتاؤں کیلئے خوش خبری بھی ہے۔ جی ایس ٹی کونسل نے اعلان کیا ہے کہ اس نے سلک ، جوٹ(عرف عام میں کھادی)  جیسے ملبوسات یا پارچہ جات کوٹیکس سے مستثنیٰ رکھا ہے۔یہ بات بھی محتاج وضاحت نہیں ہے کہ حوصلہ شکن حدتک مہنگے ریشمی اور کھادی کپڑے عموماً کون لوگ پہنتے ہیں ۔صورت حال یہ ہے کہ کھادی اور ریشمی کپڑے پہلے سے ہی اتنے مہنگے ہیں کہ غریب ،مزدور اور متوسط طبقہ تو اسے خریدنے یا پہننے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔کھادی کا انڈر ویئر جتنا مہنگاہوتا ہے ،اتنے میں ملک کا عام آدمی اور مزدور وکسان طبقہ اپنے بچے کیلئے سر سے پیر تک تن ڈھکنے کا پورا انتظام کرلیتا ہے۔ رہے ریشمی کپڑے تو آج کسی بھی کھادی بھنڈار میںچلے جائیں اگرہزار، دو ہزار روپے میٹر سے کم میں ریشمی کپڑے دستیاب ہوں تو آپ یہ کہنے میں یقینا حق بجانب ہوں گے کہ ریشمی اور کھادی کپڑے امیر غریب سب کیلئے دستیاب ہیں ۔مگر واقعی میں ایسا نہیں ہے۔ایسے میں اگر وزارت مالیات نے کھادی ،جوٹ یا ریشمی کپڑوں کوجی ایس ٹی سے مستثنیٰ رکھا ہے تو اس سے وہ کس طبقہ کو راست طورپر فائدہ پہنچانے کا ارادہ رکھنا چا ہتی ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ19 مئی کوہی جی ایس ٹی کے تحت تمام اشیاء اور خدمات کیلئے ٹیکس کی شرحوں کا تعین کرلیا گیا تھا۔ اب اس پر مختلف گوشوں کے خیالات بھی سامنے آ رہے ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جی ایس ٹی، ٹیکس ڈھانچہ کوشفاف اورمؤثر بنانے کی سمت یہ ایک بڑا قدم ہے۔ اس کے ذریعہ کسی بھی شئے یا خدمت کیلئے ایک ہی ٹیکس سلیب کا تعین کیا جارہا ہے۔ اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ یہ شئے یا ٹیکس کس ریاست سے نکلتی ہے یا اس کا استعمال کس ریاست میں ہوتا ہے۔ سبھی مقامات پر اس کیلئے ٹیکس کی شرح کو یکساں رکھا گیا ہے، لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ ہم نے ابھی اس کو پوری طرح سے پرکھا نہیں ہے ۔لہذا بروقت دیکھنے اور عملی تجربہ کر نے سے پہلے کچھ کہنامشکل ہے کہ مودی جی کے اچھے دن لانے کے وعدے پر بھروسہ کرکے مہنگائی کی چکی میں پس رہے عوام جیٹلی کی باتوں اور جی ایس ٹی کے تازہ مسودہ پر آسانی سے یقین کرلیں گے ،جس میں کہا رہا ہے کہ جی ایس ٹی پورے ملک کے عوام کے مفاد میں ہے۔خیال رہے کہ فریب خوردہ قومیں کبھی بھی اپنے حکمرانوں پر بھروسہ نہیں کرتیں۔قابل ذکر ہے کہ ہندوستان میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے پانچ بنیادی شرحوں پر اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے 5 فیصد، 12 فیصد،18 فیصد اور 28 فیصد کی شرحوں پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے علاوہ مرکزی اور یاستی حکومتوں کی جانب سے ان اشیا ء کی بھی ایک فہرست تیار کرلی گئی ہے جن پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا۔یہاں مرکزی وزارت مالیات کے ایک دیگر پینترے سے بھی فریب کی بو آ رہی ہے، جس کے مطابق بعض امور میں سرچارچ کا بھی تعین کیا گیا ہے جو تین فیصد سے 290 فیصد تک ہوسکتا ہے۔اب اگر کسی شئے میں 12فیصد جی ایس ٹی کے ساتھ سرچارج کے نام پر آپ سے 290فیصد تک وصولی کی جائے تو حیران مت ہوئیے گا،اس لئے کہ سرچارج کاپانسہ جی ایس ٹی مسودہ میں پہلے ہی چل دیا گیا ہے۔لہذا عوام کواپنے اندرہی بیداری لاکر مہنگائی بڑھانے والی طاقتوں کیخلاف کوئی حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی،جب ہی ملک کو مہنگائی کے حالیہ عذاب سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔ورنہ اجمالی طور صورت حال یہی ہے کہ موجودہ اور سسٹم چلانے والے نظام کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔
09911587378
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *