رب العالمین مالک ارض و سماوات نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو ایک دین یعنی دین اللہ یا اسلام سے سرفراز کرکے ایک ہی جھنڈے تلے جمع کرکے ایک دوسرے کا بھائی مقرر کیا ہے تاکہ تکلیف اگر تیونس میںپہنچے تو درد گلگتؔ میں محسوس ہو اور زخم اگر یمنؔ میں لگے تو کسک تبتؔ میں محسوس کی جانی چاہئے ۔یہی وجہ ہے کہ اغیار جس میں بڑے طاقت ور ملک جیسے امریکہؔ ،برطانیہؔ ،فرانسؔ ،آسٹریلیا ؔ، سپین ؔ،روس ؔ او ر اسرائیلؔوغیرہ شامل ہیں ،ہمیشہ اس یونیورسل برادری اور مسلمانوں کے رشتۂ اُخوت سے خائف رہتے ہیں ۔اُن کو مٹانے ، تباہ کرنے اور اُن میں آپسی پھوٹ رکھنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں ۔یہ ممالک اپنی ملکی بجٹ کا وافر حصہ اسی سازشی مایا جال کو روبہ عمل لانے کے لئے خرچ کرتے رہتے ہیں۔
پرنٹ اور میڈیا پر کنٹرول رکھنا یا اُسے کریدنا ،مسلمانوں کو دہشت گرد کے روپ میں پیش کرکے بدنام کرنا اور اُ ن کی عزت مٹی میں ملانا ،مسلمان ممالک کے قدرتی وسائل پر بزور طاقت قبضہ کرنا یا اُسے ’’ٹکے سیر بھاجی‘‘کے طریقے سے خریدنا ،مکرو فریب چلاکر مسلمانوں کے پیسے سے اپنے کارخانے اور مختلف قسم کے پروجیکٹ چلانا ،اسلحہ جات بناکر پھر مسلمانوں کو ہی بیچنا ،مسلمانوں کے دینی ،تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو سبوتاژ کرکے مسلمانوں کی جڑوں کو کمزور کرنا اور مسلمانوں کے انفرادی و اجتماعی قتل و غارت گری کرکے انہیںخوف زدہ کرنا ،انسانی تنظیموں کا اپنے مسائل اور ہتھکنڈے بروئے کار لاکر اور اُن میں اپنا جاسوسی نیٹ ورک پہنچاکر اُن کا قلع قمع کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
اس بھائی چارے کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے پیغمبر اولین و آخرین صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے لئے کچھ حق مقرر کر رکھے ہیں اور مزید برآں تحفہ تحائف (جس میں کھانے پینے کی چیزیں بھی شامل ہیں)کے تبادلے کی تلقین فرمائی ہے تاکہ آپسی رشتے استوار رہیں۔اس ضمن میں یہاں تک بھی تلقین کی گئی ہے کہ اگر ایک بھائی بیک آوٹ بھی کرے ،اپنے حق سے دست بردار بھی ہوجائے مگر دوسرے بھائی کو اپنا حق ادا کرتے رہنا چاہئے ۔اپنی جانب سے رشتے یا بھائی بندی سے ہٹ جانے پر بہت سخت وعید آئی ہے ۔
ایسے ہی ایک بھائی چارے کی محفل ایک بار مدینتہ النبی ؐ میںسجی تھی اور بذات خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم محفل کے زیب و زینت تھے ۔محفل کے چاروں طرف لازمی طور فرشتے پر ے باندھے کھڑے ہوں گے ،کیونکہ وہ کوئی ایسی ویسی محفل نہیں تھی بلکہ اُس میں اُس وقت کے اور قیامت تک کے عظیم ترین مقتدر شخصیات جلوہ افروز تھیں ۔ہر آنکھ جلوۂ محبوب کون ومکان کی زیارت سے فیض یاب ہورہی تھی اور ہر کان دُرفش ِرسالتمآب ؐکی گوہر بیانی کا منتظر تھا ۔محفل میںخلفائے راشدینؓ کے علاوہ چند اصحاب ِرسولؐ رضی اللہ عنہم بھی شرکت فرما تھے ۔اسی دوران حضور صلعم نے اپنی مخصوص اور مترنم آواز میں گوہر فشانی فرمائی :
’’مجھے دنیا میں تین چیزیں محبوب ہیں۔‘‘حاضرین نے بڑے والہانہ اشتیاق سے بیان فرمانے کی استدعا کی۔فرمایا:’’ایک خوشبو ،دوئم عورتیں (عظمت و احترام کی رُو سے )اور تیسری میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔‘‘شرکائے محفل والہ و شیدا اور مسرو ر مخمور ہوگئے ۔دُر فشانی کی گونج کافی دیر تک کانوں میں گونجتی رہی اور ازاں بعد شریک اکابرین میں سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ’’حضرت آپ نے سچ فرمایا ،مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں۔‘‘پوچھا گیا ،ارشاد فرمایئے۔فرمایا: ’’ آپؐ کے چہرۂ مبارک کا دیکھنا ،اپنے مال کو آپ ؐپر خرچ کرنا ، اور یہ کہ میری بیٹی آپ ؐ کے نکاح میںہے ۔‘‘
محفل واہ واہ۔ سبحان اللہ کی آوازوں سے گونج اُٹھی اور اُس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :سچ فرمایا آپ نے میرے محترم و معلم بھائی ۔مجھے بھی تین چیزیںمحبوب ہیں۔ایک اچھے کاموں کا حکم کرنا،دوم بُری باتوں سے روکنا اور سوم پُرانا کپڑا پہننا ۔‘‘
یہ کلام بھی شُرکا ئے محفل نے اپنے دل و دماغ کے قرطاس پر نوٹ کرلیا اور اُس کے بعد نظریں خود بخود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب مرکوز ہوگئیں ۔لوگ اُن سے کچھ سننے کے لئے بے تاب نظر آرہے تھے، تو حضرت موصوف ؓنے بھی اپنے لب لعلین وا کرکے ارشاد فرمایا:سچ کہا آپ نے بھی ،مجھے بھی تین چیزیں بے حد پسند ہیں۔’’بھوکوں کو کھانا کھلانا ،ننگوں کو کپڑا پہنانا اور قرآن پاک کی تلاوت کرنا ۔‘‘
حاضرین محفل کے چہروں سے مسرت کے سُوتے پھوٹ رہے تھے ،لازماً اُن کے کان چوتھے صاحب فہم و فراست کی جانب متوجہ ہوگئے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :سچ کہا آپ نے میرے بھائی ۔مجھے بھی تین چیزیں پسند ہیں : ’’مہمان کی خدمت کرنا ،گرمی میں روزہ رکھنا اور دشمن ِاسلام پر تلوار چلانا ۔‘‘فضا میں اُن مطہر و متبرک فرمودات کی گونج ابھی باقی ہی تھی کہ اتنے میں جبرائیل علیہ السلام تشریف آور ہوئے اور فرمایا کہ’’مجھے حق تعالیٰ نے بھیجا ہے اور میرا پیغام یہ ہے کہ اگر میں دنیا والوں میں سے ہوتا تو مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہوتیں۔‘‘سبھی ہمہ تن تن گوش ہوگئے تو حضرت موصوفؓ نے فرمایا :’’اول بھولے بھٹکوں کو راستہ بتلانا ، غریب عبادت کرنے والوں سے محبت کرنا اور عیال دار مفلسوں کی مدد کرنا ۔‘‘ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اللہ جل شانہ کو اپنے بندوں کی خاص طور سے تین چیزیں پسند ہیں۔
حاضرین نے بیک آواز کہا ۔’’سبحان اللہ۔بیان فرمایئے ۔‘‘فرمایا : ’’ اللہ کی راہ میں طاقت خرچ کرنا (مال سے ہو یا جان سے )،گناہ پر ندامت کی وجہ سے رونا اور فاقہ پر صبر کرنا ۔‘‘اگر تھوڑی سی کوشش کرکے ہم بھی مذکور شدہ فرمودات پر عمل پیرا ہوجائیں تو میں نہیںسمجھتا کہ دست ِتطاول ہم پر تادیر قائم رہنے کا کوئی چانس ہے بلکہ یہ بات یقینی ہے کہ ظالم کے سلاسل خود بخود پگھل کر پانی ہوجائیں گے ۔ بقول فاروقؔ جائیسی ؎
اپنی قدرت سے وہ چاہے تو بس اک لمحہ میں
فیل والوں کو ابابیل سے پسپا کردے
……………………..
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995