وائے اسیران کشمیر!

Kashmir Uzma News Desk
17 Min Read
چندبرس قبل قبل حقوق انسانی کی ایک عالمی انجمن نے وادی ٔ کشمیر کو لاقانونیت کے قانون کے زیرسایہ ایک خوبصورت قید خانہ سے بجاطور مشابہت دی ۔۔۔ ایک ایساقیدخانہ جس کے طول و عرض میں پھیلے بڑے بڑے قبرستان ،پہاڑی سلسلے، ندی نالے ،خوبصورت وادیاں،رت بدلنے والے موسم ،سرسبزمیدان ، بہتے دریا اور ظلم کی تاریکیوں میں ڈوبی انسانی بستیاں ہیں جواس امیدپرزندہ ہیں کہ آج نہیں توکل ظلم وتشدد کی رُت بدلنے والی ہے۔یہ ایک ایسا قید خانہ ہے جس کی سیاسی باگ وڈور حقو ق انسانی مسلسل پامال کر نے ، سیاسی قیدیوں کی سزا ئیں سخت تر بنا نے اور نئے نظربندوں سے جیلیں بھرنے کیلئے  ہرپانچ سال بعد نئی دلی کی ایک نئی طفیلی جماعت کو سونپی جاتی ہے۔اس قیدخانے کی عجب کہانی یہ ہے کہ جب یہاں انتظامیہ بدل جاتی ہے تو اس قید خانے میں تعذیب کاایک نیاسلسلہ برپا ہوتاہے۔اس قیدی میں کئی پورے کے پور اجڑچکے ہیں، کئی آنکھیں بے نور اور کئی گودیں بے رونق ہوچکی ہیںمگر زندان خانوںکی رونقوں میں مسلسل اضافہ ہوتارہاہے ۔
اگرچہ گوانتاناموبے کیوبا کی سرزمین صوبہ گوانتانمو کی خلیج گوانتانمو میں واقعہ امریکی بحری اڈے پر واقع اس بدترین تعذیب خانے کانام ہے کہ جو 2001 میں امریکہ کی طرف سے افغانستان پر جارحیت کے بعدقائم کیاگیااوردنیاپھر سے مسلمانوں کولالاکے یہاں بدترین تعذیب کانشانہ بنایا جاتارہا۔لیکن جموں و کشمیرکی سرزمین اوربھارت بھرمیں ایسی لاتعدادقیدخانے قائم ہیں کہ جن کاطریقہ تعذیب عین گوانتاناموبے کے طرز ستم پراستوارہے۔جموں ریجن کی ہیرانگراورامپھالہ جیل سے لے کربدنام زمانہ دہلی کی تہاڑ جیل میں اذیت سے دوچارایسے لاتعدادکشمیری نوجوان مقیدہیںکہ جنکے خلاف بے بنیادالزامات اورجھوٹے مقدمات درج ہیں ۔ جموںوکشمیراوربھارت میںقائم ایسی جیلوں میں مقبوضہ کشمیرکے نوجوانوں کوبرس ہابرس زیرتعذیب رکھاجاتاہے اورعشرے گذرجانے کے بعد دلائل اوربراہین کی بنیادپربھارتی عدالتیں اس نتیجے پرپہنچتی ہیں کہ جن کشمیری نوجوانوں کوبرس ہابرس گوانتاناموبے کی طرزکی بھارتی جیلوں میں رکھاگیاان پرلگائے گئے الزامات ایسے بے بنیاداورجھوٹ ہیں کہ پراسیکیوٹرکی طرف سے جوقطعی طورپرثابت نہیں کئے جاسکے اوراس طرح تعذیب سے گزارنے والے کشمیری نوجوان دراصل بے قصورہیں۔گوانتاناموبے کی طرزپربھارتی قید خانوں کی روح فرساتاریخ کایہ محض ایک اقتباس ہے۔کسی نے کیاخوب کہاہے کہ ’’بے جرمی سے دشت میں ہزار ٹکڑے ہوئے ‘‘بے جرمی کی پاداش میں لگے زخم ایسے گہرے ہوتے ہیں کہ جن کی بخیہ گری ممکن ہی نہیں۔بے تقصیروں کوقیدمیں بندکرنے کے ظلم وجبرسے یہ بات الم نشرح ہوجاتی ہے کہ قیدی بنائے جانے والے کے لئے یہ ہرگزضروری نہیں کہ وہ جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد ہی اس شرف سے بہرہ مند ہو بلکہ شیطانی نفس میں پائے جانے والے تعصب اورپھر تعصبانہ بنیاد پرکسی خود ساختہ اور مصنوعی فوقیت و برتری پرست گروہ کی تخلیق کردہ انا کی بنا پر کسی دوسرے رنگ، نسل یا ذات سے تعلق اورتعارف وشناخت رکھنے پر اس کا نصیب زندان کی اونچی دیواروں کو تکنا ہی بن جاتا ہے ۔کشمیری نوجوان ایسے ہی شیطانی تعصب کی سولی چڑھادیئے گئے ہیں، چاہے عشرے بھی گذرجائیں ان کی زندگی کا شباب گوانتاناموبے کی طرزپربھارتی قید خانوں کی نذرجائیں اوران کی زندگی کے قیمتی ایام بس یوں گذرجائیں کہ وہ جیلوں اورتعذیب خانوں کی سربہ فلک فصیلوں کی ا ونچائیوں کو تکتے رہیں،جیسے ان کے کوئی خواب ہیں اور نہ خواہشات۔ المیہ یہ کہ انہیںزندگی جینے کے لئے ا پنے زریں خواب اوردلکش خواہشات کی پوٹلی کو قبرجیسے بھارتی عقوبت خانوں میں پٹخ دینے پرمجبورکیاجارہاہے۔ ان کی زندگی اجڑگئی ۔ کشمیری نوجوانوں کوطویل عرصے تک مقیدرکھے جانے کے بعدجب وہ صداقت وسچائی کی بنیادپرکیس جیت جاتے ہیں اورانہیں رہائی مل جاتی ہے پرافسوس ان کی عمرکااہم حصہ ’’نوجوانی کے قیمتی ایام ‘‘ کافورہوئے ہوتے ہیں۔
 نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ حال ہی میں جیل سے چھوٹ جانے والے کشمیری اسکالرگلزاراحمدوانی کی گرفتاری کے وقت عمر28سال تھی اورآج جب اسے بھارتی عقوبت خانوں سے رہائی ملی تو وہ43برس کے ہیں۔ رواؓ ںبرس فروری کے مہینے میں محمد رفیق شاہ ،، محمد حسین فاضلی اورطارق احمد14,14سال جب کہ انجینئرفاروق احمدخان جوگرفتاری کے وقت پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میکنیکل ڈیویژن میں جونیئر انجینئر تھے،19سال جیل میں رہنے کے بعد بھارتی عدالتوں میں اپنے اوپرلگائے جانے والے الزامات کوبے بنیاداورجھوٹ ثابت کرنے میں کامیابی ہوئے جوان کی بریت کاباعث بنامگرجب انہیں اسیران بنادیاگیاتھاتوانکی عمریں پچیس سال کے آس پاس تھیں اورجب بے جرمی کی سزاکاٹ کروہ  جیلوں سے باہر آئے پرافسوس وہ چالیس سے تجاوزکرچکے ہیں ۔یہ تنہاصرف ان چندنوجوانوںکی المناک رودادنہیں ہے بلکہ کشمیری نوجوانوں کی بالعموم یہی داستان غم والم ہے کہ انہیںاسی طرح بے بنیاد الزامات اورجھوٹے مقدمات کی پاداش میں برسہا برس تک بھارتی قید خانوں میں رہناپڑتاہے اور اگربری کربھی دیئے جاتے ہیں تو رہاہوجانے سے قبل انہیں اپنی زندگی کے بہترین اورقیمتی برس عقوبت خانوں کی نذرکرنا پڑجاتے ہیں۔سری نگرہائی کورٹ بارکے صدر میاں عبدا لقیوم ،حقوق البشرکی مقامی تنظیم اور(APDP)کے صدر پرویزامروزکے دفاترمیں فائلیں اٹی پڑی ہیں کہ جن میں درج ہے کہ کشمیرکے کتنے گلزاروانی،کتنے انجینئرفاروق ،کتنے فاضلی،کتنے رفیق اورکتنے طارق ایسے ہیں کہ جوبھارت کے مخلتف عقوبت خانوں میںمسلسل بے جرمی اوربے بناہی کی سزاکاٹ رہے ہیں ۔
بربریت اورسفاکیت جاری رکھتے ہوئے وردی پوشوں نے لہورنگ کشمیرمیںرمضان بھی لہورنگ بناڈالاہے۔ یکم رمضان کی شب سے آج تک کوئی ایسادن نہیں گذراکہ جب خون مسلم سے سرزمین کشمیرلالہ زارنہ بنادی گئی ہو ۔ عادت سے مجبوراپنی سفاکانہ روش برقراررکھتے ہوئے فورسزنے یکم رمضان اتوارسے ہی وادی کشمیرکے طول وعرض میں اہل کشمیر کو تختہ مشق بنا رہی ہے جب کہ دوسری طرف جعلی اور فرضی کیسوںمیں پھنساکر کشمیری نوجوانوں کوگرفتاری عمل میں لانے کے بہانے تراش کر چادراورچاردیواری کوپامال کرتے ہوئے شبانہ چھاپوں کے دوران گھروں اور املاک کی توڑ پھوڑ کررہی ہے۔ان اوچھے ہتھکنڈوں اورمختلف الجہت کی زور و زبردستی کاواحد مقصد نفسیاتی طور پر اہل کشمیرکوہراسان کیاجاناہے تاکہ وہ ہمت ہاربیٹھیں اوراغیار کے تسلط کوقبول کرنے پرآمادہ ہوجائیں ۔حالیہ دنوں کے دوران کثیرتعدادمیں نوجوانوں کوپکڑ کرنذرِ زندان ڈالا گیااورپھرانہیںجیلوں میں انتقام گیری کا نشانہ بنایاجارہا ہے اور قیدیوں کے حوالے عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرکررکھ دی جاتی ہیں۔سچ پوچھیں اسیران کشمیرپس از زندان ،زندہ لاشیں ہیں۔ آسیہ اندرابی صاحبہ اوران کی معتمدفہمیدہ صوفی کوانتقام گیری کے سلسلے میں گذشتہ دنوں سری نگرسے گرفتارکرکے وادی کشمیرسے سینکڑوں میل پرے جموں کے امپھالہ کی گرم جیل جہاں تمازت 50ڈگری کو بھی پار کرجاتی ہے، میں دھکیل دیاگیا ۔آسیہ انداربی کئی عوارض میں مبتلا ہیں اور جیل میں ان کی حالت تشویشناک بنی ہوئی ہے۔آسیہ اندرابی صاحبہ کے علاوہ ہزاروں کشمیری کالے قوانین کے تحت پابندِ سلاسل ہیں اور ان میں سے بیشتر وادی کشمیرسے سینکڑوں میل دور جموں کی جیلوں میں رکھے گئے ہیں۔ قیدیوں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادہے۔ ان میں سے ایسے بھی ہیں کہ جن پر عائد بدنام زمانہ ظالمانہ ایکٹ کوپہلے ہی عدالتوںسے کواش ہوا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں دوسری بار اسی ظالمانہ قانون کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔ ایسے بھی ہیںکہ جن کے تمام فرضی کیسوں کی ضمانت ہوچکی ہے، البتہ انہیں پھر بھی رہا نہیں کیا جارہا ہے اور انہیں نظربندی کے نام پر حبسِ بے جا میں رکھا گیا ہے۔ جن قیدیوں کے کیس عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں، انہیں اکثر اوقات تاریخ پیشی پر حاضر نہیں کیا جاتا ہے اور اس طرح سے ان کی غیر قانونی نظربندی کو طول دیا جارہا ہے۔حدیہ ہے کہ بھارتی جیلوں میں ایسے کشمیری بزرگ بھی بے جرمی کی پاداش میں مقید ہیں، جن کی عمر 60سے 70سال ہے اور وہ پیرانہ سالی کی وجہ سے اکثر بیمار رہتے ہیں۔ قیدی بنائے جانے والوں میں ایسے بھی ہیں کہ جن کی عمریں ابھی 25برس سے زائد نہیں ۔ان قیدیوں کو حراست کے دوران انتقام گیری کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور انہیں ہر ممکن طریقے سے تنگ اور ہراساں کیا جاتا ہے۔ جیلوں میں قیدیوں کو جو غذائیں فراہم کی جاتی ہیں، وہ غیر معیاری ہوتی ہیں۔ بیمار قیدیوں کے علاج ومعالجے کے لیے بھی کوئی مناسب انتظام دستیاب نہیں ہے اور معیاری ادویات بھی میسر نہیں ہیں۔
جیل حکام یاداروغان قفس کے تفاخر اورتکبربے جا ،ان کے قہرناک کرتبوں ، کہہ مکرنیوں اور بہانہ تراشیوں سے اسیران کشمیرکوجس پیمانے پہ جسمانی اور ذہنی اذیتیںپہنچتی ہیں وہ سراسرانتقام گیری ہے۔ اس سے یہ بات منقح ہو رہی ہے کہ جان بوجھ کر اسیران کو ایک نفسیاتی اور اعصابی دبائومیں لانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس انتقام گیری سے ہی ’’رسیدم من بدریائے کہ موجش آدمی خور است ‘‘کے مصداق خاکستر کشمیر میں موجود چنگاریاں سلگانے میں دیر نہیں لگتی ۔
 نیویارک تک عالمی چوپالوں کا موضوع بن گئیں۔یادرہے کہ یک رخی سوچ کبھی ثمرآور نہیں ہوتی اور داروغان جیل میںانتہا پسندانہ نقطہ نگاہ رکھنے وا
 کشمیرکے اسیران کے حوالے سے عالمی قوانین کا کوئی پاس و لحاظ ہے اور نہ ہی کسی اخلاقی قدر کا کوئی خیال۔یہی وجہ ہے کہ اسیران سے متعلق ہمیشہ یہی اطلاعات آتی رہی ہیں کہ ریاست کے اندراوربیرون ریاست مختلف جیلوں ،کال کوٹھریوں،عقوبت خانوں اورٹارچرسلوںمیں پابندسلاسل ہزاروںاسیران کشمیرکے تئیں ظالمانہ ،اانسانیت سوزاور ناشائستہ سلوک روارکھاجارہاہے ۔اگرچہ ریاست اوربیرون ریاست جیلوں،کال کوٹھریوں، عقوبت خانوںاور ٹارچرسلوں میں پابندسلاسل کشمیری نوجوانوںمیںکسی قسم کا خوف، ہیجان، یژمردگی اور احساس کمتری نہیں لیکن انہیںبین الاقوامی ویاناکنونشن کے تحت حاصل حقوق کی عدم فراہمی کسی لحاظ سے بھی درست نہیںچہ جائیکہ ان کے ساتھ ناشائستہ اور ناروا سلوک روا رکھا جائے گرفتار ہونے کے بعد انہیں حقوق بھی حاصل ہیں اوریہ بین الاقوامی سطح کے وضع کردہ اورطے شدہ حقوق ہیںان حقوق کو پامال کرنا عالمی کنونشن کی صریحاََخلاف ورزی ہے۔ قیدیوں کے ساتھ ایسا طرز عمل اختیار کرنا جس کی عالمی قوانین کی خلاف ورزری ہورہی ہو تو ایسا کرنے سے جیل حکام خود مجرم بن جاتے ہیں اس لحاظ سے پھر انہیں بھی جیل کی کال کوٹھریوں میں قیدی بن کر ہونا چاہئے ۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جن نفوس نے خارزار میںچلنے کاتہیہ کررکھا ہوتا ہے وہ تو قید و بند اور وہاں کی صعوبتوں سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ عصر حاضر میں اس کی کثیر مثالیں ہماری سامنے بکھری پڑی ہیں۔
جنیو اکنونشنIII کے (PWO) پر زنرز آف وار1949 اور دیانا کنونشن کے تحت قیدیوں کو تقریباً80 حقوق حاصل ہیں ۔ جن میں سر فہرست یہ ہے کہ قیدی کے شخصی وقار کو مجروح نہیں کیا جائے گا اور اس کے مذہبی عقائد کی توہین نہیںکی جائے گی ۔ قیدی کو علاج کی حالت میں دوائی نہ دینا یا اس کا علاج معالجہ نہ کرنا اسے عتاب کا نشانہ  بناتے ہوئے چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کرنا ، کچھ اگلوانے کے لیے اسے پانی میں ڈبو دینا ، تفتیش کے دوران اس پر تشدد کرنا اسے بجلی کے کرنٹ دینا ، پوچھ تا چھ کے دوران اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنا اس کے حلیے میں کوئی ایسی تبدیلی کرنا جس سے اس کی صورت مضحکہ خیز بن سکتی ہے انٹرنیشنل لاء کے مطابق ہیومن رائٹس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ۔جنیوا کنونشن اور ویانا کنونشن کے مطابق غیر مسلح حالت میں کسی شخص کو رفتار کای گیا ہو تو اسے قتل نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اگر قیدی قید سے فرار ہو رہا ہو تو اس پر گولی نہیں چلائی جا سکتی ، اس کی ڈاک نہیں روکی جا سکتی ، دوران تفتیش اس کے دین  اور اس کے مذہب کی توہین نہیں کی جاسکتی ۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ایک قیدی کو بہت سارے حقوق حاصل ہیں لیکن پوری دنیا بشمول بھارت میں قیدیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے وہ صاف طور پر عالمی قوانین کی توہین ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت حقوق انسانی کی تمام تنظیںہمیشہ اسیران کشمیر کی حالت زارپراپنی تشویش کرتی رہیں جبکہ سری نگر ہائی کورٹ باربھی بارہا اس معاملے کوابھارتارہا لیکن اس کے باوجود اسیروں کی اسارت اوران کے پابہ جولانی میںدرپیش سنگین مشکلات کاازالہ ہوسکا نہ ہی ان پر حراستی تشدد میں کوئی کمی محسوس کی گئی ۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بینُ الاقوامی قوانین کے تحت ایک قیدی کو بہت سارے حقوق حاصل ہیں لیکن کشمیری اسیران  کے ساتھ جو سلوک روا رکھاجارہاہے وہ صاف طور پر عالمی قوانین کی توہین ہے۔بدنام زمانہ گوانتاناموبے اورابو غریب میں قیدیوں سے توہین آمیز سلوک اور ان پر انسانیت سوز اوردل ہلادینے والے تشدّدکے واقعات تومنظرعام پر آئے اور ان پر نقد بھی کیا گیا لیکن ریاست کے جموںریجن اوراسے پرے بھارت تک ایسے تعذیب خانے،ٹارچرسلز،انٹروگیشن سنٹرزاور جیلیںموجود ہیں جن کی اندرون کہانی کبھی منظرعام پرنہیں آئی اور جو گوانتاناموبے اور ابوغریب جیل سے ہرگزمختلف نہیں۔ اہل مغرب،اوربعض نام نہاد روشن خیال لبرل فاشسٹ اہل ِمشرق کتوںاور بلیوں کے ساتھ محبت رکھتے ہیںبلکہ انہیں اپنا فیملی ممبر بھی شمار کرتے ہیں۔ یہ دیکھ کر اللہ کے نیک اور صالح بندے ششدر رہ جاتے ہیں لیکن افسوس کہ کشمیری اسیران بدترین مخلوق کے قبیل سے تعلق رکھنے والے تصور کئے جاتے ہیں۔جن کشمیری مسلمانوں کو بھارتی عقوبت خانوں اور جیلوں کا سامنا کرناپڑاوہی ٹھیک جانتے ہیں کہ انہیں کن سخت اورصبرآزما مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔بے شمار ایسے لوگ ہیںکہ جنہیں بلاوجہ اورراہ چلتے بھارتی فوجیوں نے گرفتار کیا،انٹروگیشن سنٹرز میں پہنچایا اورپھر مشقِ ستم بنادیا گیا ان کے خلاف فرضی طور مقدمات دائر کئے گئے اور پسِ دیوارِ زندان دھکیل دیا گیا۔ وہ اپنے خلاف جھوٹے مقدمات کاسامنا کررہے ہیں۔وہ یہ کہتے ہوئے اب تھک ہار چکے ہیں کہ انہیں ان کہانیوں اورداستانوں کا علم تک نہیں ہے جوان کے ساتھ نتھی کردی گئیں اور جس کی بنیاد پر انہیں سلاخوں کے پیچھے کردیا گیا۔یہ لوگ جو جموں اوربھارت مختلف جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں اور جنہیں ہر روز لمحہ بھارتی جبر و قہر کا سامنا ہے اس بات پر حیران ہیں کہ دنیا کی نام نہاد انسانی حقوق کے چیمپئن ان کی طرف ایک نگاہ کیوں ڈال نہیں رہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اورامر واقع یہ ہے کہ جیلوں کی حالت ناقابل بیان حد تک اصلاح طلب ہے۔مختلف بہانوں کی آڑ میں قیدیوں پر بے پناہ تشدد کیا جارہا ہے اور انہیں ستایا جارہا ہے۔ یہ سلسلہ فوراً سے پیشتر روکاجانا چاہیے۔
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *