جدیدیت اور مغربی تہذیب کالی آندھی کی طرح ہر طرف چھائی ہوئی ہے اور فکری تخریب کاری کا بگل بجا رہی ہے۔ زبردست تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ مشرق سے لے کر ایشاء تک ا س نے اپنے تباہ کن اثرات سے ابلیسیت کانظام برپاکر رکھا ہے ۔ اپنے ایجنڈوں اور کارندوں کے ذریعے سے دنیا کے ہر کونے میں خدابے زار اور لادینیت پر مبنی تہذہب قائم کر رکھی ہے اور یہ مختلف ناموں سے ہر جگہ اپنے اثرات دکھا ر رہی ہے ۔کہیںاس کو’’ جدیدیت ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے تو کہیں اس کو ’’روشن خیالی‘‘جیسے نام سے پکارا جاتا ہے تو کہیں اس کو’’ تہذیب حاضر‘‘ کے نام سے یاد کیا جا تاہے ۔آخر یہ تہذیب کیا چاہتی ہے ؟اس کی غرض وغایت اور مقصد کیا ہے ؟ ا س کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ اس تہذیب کا مقصد اور منشاء یہ ہے کہ پچھلے دوسوبرس سے فطرت کے خلاف جو بغاوت شروع ہوئی ہے، اس بغاوت کو نہ صرف نئے قالب میںپیش کرناہے بلکہ اس کو منظم اور وسعت دے کر آگے بڑھانابھی ہے لیکن مغربی تہذیب اور جدیدیت کابھوت آخر ہمارے ذہنوں میںکیوں کر سوار ہوا ؟کون لوگ اس کے ذمہ دار ہیں؟اور کن لوگوں نے فطرت اور خالق حقیقی کے خلاف بغاوت کرکے خود ساختہ ازموں کو ایجاد کیاہے ؟اس فہرست میںسب سے نمایاں نام چارلس ڈارؤن کا ہے ۔ پھر کارل مارکس (1818 _1883) اور فیڈرک اینجلس(1820-1895)اس کے بعدسگمنڈفرائڈ(1865-1939)برٹرنڈرسل (1862-1980)اور ژال پال سارتر (1905-1980)کانام ہے۔یہ وہ دانشوارن مِغرب ہیں جنھوں نے فطرت اور خالق حقیقی سے بغاوت اور منہ موڑکر عالم انسانیت میں زبردست ہل چل پیداکردی اور دنیائے انسانیت میںانبیائی فکر کے خلاف انتہائی بھیانک محاذ سنبھالا جو رکنے اور تھمنے کانام ہی نہیں لیتا ۔ اس بغاوت اور انحراف سے اب ایک انسان بھیانک نتائج کا سامناکر رہا ہے اور مصائب ومشکلات کے بھنور میں ایک انسان پوری طرح سے پھنس گیا ہے۔ عصر حاضر میں نوجوان اور طلبہ وطالبات ستر پوشی ،حیا، عزت وعفت اور ایمان جیسے الفاظ سے نہ صرف کوسوں دور بلکہ نابلد بھی ہیں ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ نوجوان اور طلبہ وطالبات مغربی تہذیب اور جدیدیت ہی کو اپنی آماج گاہ بنائے ہوئے ہیں ۔ یہاں تک کہ ہمارے بعض مسلم رہنما اس بات کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہمیں مغرب کے نقش قدم پر چلناہی ہوگا ۔حالانکہ اس تہذیب میں خدا کا تصور بالکل غائب ہو چکا ہے ۔ انبیائی تعلیمات سے اس تہذیب نے وسیع پیمانے پر روگردانی کی روش اپناکر آسمانی کتا بوںمیںتحریف کرکے ان کی اصل تعلیمات کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے ۔اس تہذیب کے ماننے والوں نے اخلاقی قدروں کو بالائے طاق رکھ دیاہے۔ ایک طرف سے مغرب میں ہم جنس پرستی ،برہنگی اور اخلاق باختگی کو شخصی آزادی ((personal rightsکا نام لے کر قانونی جواز فراہم کیا تو دوسری طرف مسلم طالبات کوشخصی آزادی سے محروم کرکے ان کو اسکارف پہن کر اسکول جانے یا کسی اور حکومتی ادارے میں جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔یہاں تک کہ فرانس کے سابق صدر نکلولس سر کوزی نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ’’برقع اور حجاب آمرانہ اقدام ، نسل پرستی اور تعصب کا آئینہ دار ہے اور فرانس جیسے جمہوری معاشرے میں کسی عورت کوستر پوشی اور حجاب کی ہر گز اجازت نہیں دی جاسکتی ‘‘۔
مغربی تہذیب نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔اس تہذیب کی گندگی اور خرابیوں کا اعتراف اب ان کے اپنے دانشواران بھی کھل کے اعتراف کرتے ہیں ۔ جیساکہ جان ایل ایسپوزیٹوکا کہناہے کہ’’مغرب کو اپنی تہذیب کی خرابیوں اور کمیوں کو درو کرنا چاہیے ‘‘۔ اس تہذیب کے حامی اور علمبردار اس زعم باطل میں بھی مبتلا ہیں کہ ان کی تہذیب دوسری تہذیبوںسے بر تر اور اعلیٰ ہے اسی زعم کی وجہ سے وہ اپنی تہذیب کو سنوارنے اور اس میں توازن کو قائم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ اس تہذیب میں انبیائی فکر کی ذرا برابر بھی رمق دکھائی نہیں دیتی ۔ جس کی وجہ سے اس تہذیب میں اخلاقی اقدار اور پاکیزگی وشائستگی ختم ہو رہی ہے ۔ ’’روح ‘‘نام کی چیزسے مغربی تہذیب ہر اعتبار سے حدیثِ بے خبرا ں ہے۔یہ تہذیب لادینیت اور الحاد پر قائم ودائم ہے جوکہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اس میں نہ فکر آخرت اور نہ ہی روز جزا وسزا کا تصور ہے ۔ زندگی کے بارے میں اس تہذیب کا تصوریہ ہے کہ ’’ بابر بہ عیش کوش کہ دوبارہ عالم نیست‘‘او ر Eat Drink and be Happy ہے۔اسی نظریہ کے تحت وہ اپنی پوری زندگی گذار رہے ہیں۔اس تہذیب میں صر ف ظاہری طمطراق ،مادی سہولتیںاور ظاہری چمک ودمک نظر آتی ہے ۔اسی لئے علامہ اقبالؒ نے اس تہذیب کو فساد زدہ تہذیب قرار دیا ہے، چناںچہ علامہ اقبالؒ فر ماتے ہیں ؎
فساد قلب ونظر ہے فرنگ کی تہذیب
روح اس مد نیت کی رہ سکی نا عفیف !
کہ ہے نہ روح میں پاکیز گی تو ہے نا پید
ضمیر پاک خیالِ بلند، وذوق لطیف !
اس فساد زدہ تہذیب نے برائیوںاور بے حیائی کو مزین ((decoratedکرکے ہر سو عام کر دیا ، اُم الخبائث یعنی شراب اس تہذیب کی ایک اہم علامت ہے ۔سود پر مبنی معیشت کو دنیا بھر میں پھیلا دیا ،حیا اور پاکدامنی پر حملہ کرکے عورتوں سے لباس بھی اُتروایا ،اس تہذیب کا شاخسانہ ہے ۔جدیدیت (modernization)کے نام پر سماج میں رائج اقدار کو تہہ وبالا کر ڈالا۔ انہوں نے میڈیا کی وساطت سے جھوٹ کو اتنا عام کردیا کہ ہر ایک اس جھوٹ کو سچ ماننے لگتا ہے اسی میڈیا کے ذریعہ سے مغرب نے عر یانیت ،ننگا ناچ، فحاشی اور ہم جنس پرستی کو اتنا عام کر دیا کے اب یہ ان کے لئے معاشی استحکام کا ایک اہم ذریعہ بھی بن گئی ہے۔ عورت کا استحصال سب سے زیادہ اسی تہذیب نے کیا اور عورت کو نسائیت سے نہ صرف محروم کیا بلکہ اس کو ایک شئے (product)بنا کر کھلونے کی حیثیت د ے د ی اور مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کو گھروں سے نکال کر کارخانوں اور حیاسوز ویب سائٹس کی دنیا کی زینت بنا کر اس پر معاشی بوجھ بھی ڈال دیا ۔اس تہذیب نے ہم جنس پرستی کو بھی اتنا فروغ دیا اب وہ اس کو قانونی جواز و تحفظ بھی فراہم کر رہے ہیں۔طوائف کو جنسی کارکن دیکھنا چاہتے ہیں،کنڈوم اور جنسی تعلیم کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جارہی ہے اوراسقاط حمل کو یہ تہذیب عورت کا جائز حق ٹھہرارہی ہے ۔ مغرب میںتحریک نسواںFeminism)) یانسوانیت تحریکوں کا ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ فیمنزم اور ہم جنس پرستوں میں آپس میں گہرا تال میل ہے ۔ یورپ اور مغرب میں ہم جنس پرست عورتوں(lesbian)نے فیمنزم کی تنظیموں میں نہ صرف بڑھ چرھ کر حصہ لیا بلکہ ان تنظیموں میں رہ کر اپنی اپنی چاہتوںاور خواہشات کو جلا بخشا۔
نوامی والف (Naomi wolf ) جس کی مشہور کتاب Beauty Myth ہے اس کا انٹر ویو۲۰۱۴ء میں The Hindu کے ہفتہ وار میگزین میں شائع ہوا ۔جس میں اس نے جنسی انارکیت اور lesbian Momentکے حوالے سے گفتگو کی اور ان کا موقف کچھ اس طرح سے بیان کیا :
The gay and lesbian moment shows why sexual integrity is about more than just sex——it is about a basic human right {The Hindu januray5 ,2014}
ویسے تو یہ جنسی آوارگی مغرب کے لئے نیا نہیں ہے۔یہ جنسی آوار گی یا جنسی انقلاب (sexual revolution )کا آغاز ۱۹۶۰ء کی دہائی میں اس
جنسی انقلاب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تک نہیں اور اس تمیز ِبد انقلاب نے ہر قوم و تہذیب کو متا ثر کیا۔فحش ویب سائٹس (poronography ) کے ذریعہ سے اس حیا سوز تہذیب نے اخلاق اور حیا کی دھجیاں اڑا دیں۔ اسلام کی نگاہ میں ہم جنس پرستی انتہائی شنیع فعل ہے اور بڑے بڑے گناہوںمیں سے یہ ایک گناہ کبیرہ ہے ۔ قرآن کے مطابق اسی گناہ کے جرم میں قوم لوط کو اللہ تعالیٰ نے عذاب نازل کر کے صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیا۔ قصور تو مغرب کا ہی نہیں ہے بلکہ دوسرے اقوام اور تہذیبوں نے بھی اس حیا سوز انقلاب کوگلے لگایا ہے ۔ اس کی بنیا دی وجہ یہ ہے کہ شیطان ایک انسان کو بے حیائی اور بد کاری میں مبتلا دیکھنا چاہتا ہے قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
(البقرۃ: ۲۶۸) ترجمہ:’’ شیطان تمہیں مفلسی سے ڈرا تا ہے اور بے حیائی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے‘‘ (البقرۃ: ۲۶۸)
گویا کہ برائیوںکی طرف مائل کر نا ، ترغیب دینا پھر ان برا ئیوںکو خوشنما بناکر پیش کرنا اور اُکساناشیطان کا بنیادی اور اہم کام ہو تا ہے ۔ برائیوں کو فروغ دینے میں یہ شیطانی طرز عمل ہے ۔
مغرب کامذہب اور تہذیب کے حوالے سے کیا موقف ہے ؟وہ موقف اس طرح سے ہے ۔
۱۔ مذہب فرسودہ ہو چکا ہے اور تہذیب ہی سب کچھ ہے ۔
۲۔ مذہب عقل کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے کیونکہ عقل کچھ اور کہتی ہے اور تہذیب کچھ اور حکم دیتی ہے ۔
۳۔ مذہب یاد ماضی ہے ۔جب کہ تہذیب حال کے مسائل کو حل کرتی ہے۔
۴۔ یہ تہذیب کی دنیا ہے جو ہمارے مسائل کا حل پیش کرتی ہے ۔ جب کہ مسائل کو حل کرنے میں مذاہب ناکام ہوچکے ہیں ۔
حق کا موقف ؟
اسلام دین فطرت ہے یہ انسان کے جملہ مسائل کا حل پیش کرتا ہے اور انسان کی جائز خواہشات کو پورا کرنے میں نہ صرف تر غیب دیتا ہے بلکہ عبادت قرار دیتا ہے مثال کے طور پر انسان کی بنیادی خواہشات تین طرح کی ہوتی ہیں کھانے پینے کی خواہش،جماع کی خواہش اور ریاست (قائد اور عہدے ومنصب) کی خواہش ۔ان تینوںخواہشوں کے حوالے سے قرآن اور سنت میں واضح تعلیمات موجود ہیں ۔ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں مکمل سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام (politico-socio-economics ystem ) کے ساتھ نفس کی تربیت اور روح کی پاکیزگی کی تعلیمات موجود ہیں۔ اسلام ایک مکمل تہذیب بھی ہے جس میں پاکیزگی و شائستگی اور حیا کی تعلیمات دی گئی ہیں۔اسلامی تہذیب کے ہوتے ہوئے کسی اور تہذیب کی ضرورت نہیں ہے۔ جب کو ئی فرد اسلامی تہذیب کے ہوتے ہوئے کوئی اثراستعارۃلیا جائے تو اس تہذیب کے دوسرے اثرات کو بھی اختیار کرنا پڑتا ہے۔ مشہور مورخ اور فلسفی ٹائین بی کی یہ بات ہے جب اس نے کہا کہ ’’جب تم ایک تہذیب کو دعوت دیتے ہو تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس تہذیب کے کچھ اجزا تو اختیار کر لو اور کچھ کو تو مسترد کر دو بلکہ تمہیں رفتہ رفتہ اس تہذیب کے سارے لوازمات کو اختیار کرنا پڑتا ہے‘‘۔ لیکن اسلام ایک اصول پیش کرتا ہے وہ اصول یہ ہے خذماصفا دع ماکدر یعنی جو کچھ اچھائی ہے اسے لے لواور جو کچھ برائی ہے اسے چھوڑ دو۔اس بنیادی اصول سے ہم مکمل طور سے ہٹ گئے اور اس اصول کا الٹاہی کر دیا کہ ہمیں جہاں سے کوئی اچھائی مل جائے وہ لے لینا چاہیے تھا۔ اس کے برعکس ہم نے برائیوں اور گندگیوں کو تلاش کرکے اپنے لئے پسند کیا اچھائی تو مومن کی گمشدہ متاع ہوتی ہے اس کو وہ جہاں سے مل جائے فوراََ لے لینا چاہیے ۔
اسلامی تہذیب کی بنیادقرآن وحدیث ہے۔جو ایک فرد یا قوم کوعقیدہ توحید ، عقیدہ رسالت اور عقیدہ آخرت اور پاکیزگی وشائستگی و حیا کی ترغیب دیتا ہے ۔ جب کہ مغربی تہذیب کی بنیاد تحریف شدہ کتا بوں اور عقیدہ تثلیث اور انبیائی فکر سے روگردانی اور بے حیائی ہے۔ یہ تہذیب اب اپنے ہی خنجر سے آپ ہی
خودکشی کرے گی ۔بقول علامہ اقبال ؒ ؎ؒٗ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پے آشیانہ بنے گا نا پائدار ہوگا
رابطہ: کانہامہ، بیروہحال علی گڑھ
9045105059