سرینگر// حریت (گ) نے ناگی شرن شوپیان میں 10سال بعد نئے سرے سے فوجی کیمپ قائم کرنے، مزید کیمپ قائم کرنے کے منصوبوں اورپیلٹ کے ساتھ اب ربڑ گولیاں اور زیادہ موثر پاواشل وادی درآمد کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر ایک سیاسی اور انسانی مسئلہ ہے اور اس کو بندوق اور بارود کے ذریعے سے حل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حریت کے مطابق بھارت کی موجودہ حکومت تنازعہ کشمیر کے حوالے سے کوئی بامعنیٰ اور سنجیدہ سیاسی عمل اپنانے کے بجائے فوجی ذہنیت سے کام کرتی ہے اور وہ کشمیر میں جنگ جیسی صورتحال پیدا کرکے یہاں کے لوگوں کو زیر کرانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حریت بیان میں باوثوق ذرائعکا حوالہ دیتے ہوئے کہاگیا ہے کہ بھارت نہ صرف مزید فوجی کیمپ قائم کرنے اور بندوق وبارود کی بھاری کھیپ کشمیر بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے، بلکہ اس نے جموں کشمیر میں ’’اخوان‘‘ کو نئے سرے سے سرگرم بنانے کا پروگرام بھی بنایا ہے۔ مذکورہ اخوانیوں کو باضابطہ پیرول پر لینے کا لالچ دیا جارہا ہے اور ذرائع کے مطابق کئی افراد نئے سرے سے کام کرنے پر آمادہ بھی ہوگئے ہیں۔ حریت بیان میں کہا گیا کہ اس وقت تک ایک ہزار کے لگ بھگ فوجی کیمپ ایسے ہیں، جو سِول آبادیوں میں قائم ہیں اور اب درجنوں دیہات میں نئے کیمپ قائم کئے جارہے ہیں۔ اس کے لیے کئی جگہ خالی زمینوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے اور ان پر زبردستی قابض ہونے کی تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ بیان کے مطابق پیلٹ کو اگرچہ ایک مہلک ہتھیار قرار دیا گیا ہے اور ایسا عملاً ثابت بھی ہوا ہے، البتہ اس کو ابھی پوری طرح سے بند کرنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اضافی طور ربڑ کی گولیاں اور زیادہ خطرناک پاواشل بھی استعمال میں لائے جانے کی نہ صرف منظوری دی گئی ہے، بلکہ انہیں وادی درآمد بھی کیا گیا ہے۔ حریت بیان میں بھارت کے موجودہ حکمرانوں سے کہا گیاہے کہ وہ جس راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں، وہ کہیں بھی نہیں جاتا ہے۔ کشمیر قضیے کا کبھی بھی کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے اور نہ بندوق اور بارود کے ذریعے اس گُھتی کو سلجھایا جانا ممکن ہے۔ آپ ظلم اور قہر ڈھاکر ریاست میں قبرستان کی خاموشی تو قائم کراسکتے ہیں، لیکن یہ کوئی مستقل اور پائیدار صورت نہیں ہوگی۔ یہ ایک عارضی مرحلہ (Temproray Phase)ہوگا اور کچھ وقت گزرنے کے بعد صورتحال پھر پلٹا کھائے گی اور زیادہ خطرناک رُخ اختیار کرے گی۔ بیان کے مطابق یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے، بلکہ 70سال کی تاریخ اس کی پُشت پر ہے۔ اندرا عبداللہ ایکارڈ کے بعد شاید ہی کسی نے اس صورتحال کے بارے میں سوچا ہوگا، جو آگے چل کر پیدا ہوگئی اور جو آج تک جاری ہے۔ 90کی دہائی میں اخوان آنے کے بعد بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوگئی تھی کہ اب شاید قصہ ختم ہوگا اور کشمیری مایوس ہوکر دستبردار ہوجائیں گے۔ 2008ء، 2010ء اور 2016ء کے عوامی انتفادہ نے ان تمام مفروضوں اور قیاس آرائیوں پر پانی ڈال دیا۔ حریت بیان میں کہا گیا کہ بھارت کے پالیسی ساز بہترین ملٹری سوچ کے حامل ہوسکتے ہیں، البتہ کشمیر کے بارے میں یہ سوچ کوئی زیادہ فائدہ نہیں دے سکتی ہے۔ اس کے لیے ملٹری اور پولیس والوں کے بجائے سیاسی بصیرت رکھنے والے افراد کی ضرورت ہے۔ آپ ایک نسل کو طاقت سے دباکر مایوس تو کراسکتے ہیں، البتہ اگلی نسل نتائج کی پرواہ کئے بغیر میدان میں اُترتی ہے اور مقابلے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ حریت بیان میں بھارتی حکمرانوں کو مشورہ دیا گیا کہ وہ کشمیر کو اَنا کا مسئلہ بنانے کے بجائے ٹھنڈے دل ودماغ سے صورتحال پر غور کریں اور اس تنازعے کو ملٹری مائیٹ کے بجائے ایک سنجیدہ سیاسی عمل کے ذریعے سے حل کرانے کی طرف پیش قدمی کریں