صدقۃ الفطر (افطار کا صدقہ) فقہ کی ایک اصطلاح ہے ، شریعت میں اس سے مرادوہ مال ہے جورمضان کے مبارک موقع پر صائم کی جانب سے کسی مستحق فرد کو صلہ رحمی کے طور پر دیا جاتاہے۔اس کے مختلف نام احادیث اور فقہ کی کتابوں میں ذکر کئے گئے ہیں۔چنانچہ صدقۃ الفطر،زکواۃ الفطر، زکواۃ الصوم ، زکاۃ الأبدا ن ،صدقۃ رمضان ،صدقۃ الرئووس وغیرہ وغیرہ۔ جس طرح نماز میں فرائض کی تکمیل کے لئے سنتیں مقرر کی گئی ہیں، اسی طرح روزہ کی تکمیل کے لئے شریعت اسلامیہ میں صدقۃ الفطر کا تعین کیا گیا ہے ۔روزہ کے دوران جو کوتاہیاں ہم سے ہوتی ہیں یا ہماری بدنی عبادت(روزہ) کی جو کمیاں روہ جاتی ہیں ، اُن کی تلافی اس مالی عبادت (صدقۃ الفطر) سے بہت حد تک ہوجاتی ہے ۔
صدقہ ٔ فطر کس پر واجب ہے :۔ صدقہ فطر ہر عاقل بالغ مرد عورت ،بچہ و جوان مسلمان پر واجب ہے ۔گھر کے مستطیع افراد اپنے اپنے صدقات الفطر خو دادا کریں،جب کہ غیر مستطیع بچوں کی جانب سے ان کے والد یا ان کے قائم مقام سرپرست صدقہ ادا کریں گے۔
صدقہ ٔفطر کی فرضیت کا پس منظر :۔ جہاں تک صدقۃ الفطر کی فرضیت کا تعلق ہے تو اتنی بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ مالدار حضرات اوردولت مند افرا د عید منانے میں مصروف ومگن اپنی وسعت وخوشحالی کے باعث توجاتے ہیں مگر مسکینوں اور مفلسوں کے گھروں میں بوجہ غربت وناداری ، اسی طرح بھوک وپیاس یعنی روزہ کا عالم رہتا ہے ۔لہٰذا اللہ نے ان غرباء اور مساکین پر شفقت کی نظر سے ہر صاحب نصاب زکواۃ وصدقۃ الفطر پر یہ ضروری قرار دیا کہ وہ اپنے نادار اور مسکین بھائیوں کو بھی عید کی سچی خوشی میں شریک کریںاوریہ مقصد شرکت اس وقت حاصل ہو سکتاہے جب عید سے پہلے بلکہ رمضان المبارک ہی میں فطرہ اداکردیا جائے ۔یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے ہر حال میں عیدگاہ جانے سے پہلے پہلے ادا کردینا ضروری قراردیا ہے ۔ نمازعید سے قبل ادا کئے جانے والے صدقہ فطر کی حدیث شریف میں بڑی فضیلت ہے ۔چنانچہ اس سلسلہ میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی اما م ابو دائود السجستانی نے اپنی مایہ ناز کتاب’’سنن ابودائود‘‘ میں اس طر ح نقل کیا ہے : جوصدقہ فطر عید کی نماز سے پہلے ادا کیا جائے وہ اللہ کے نزدیک نہایت پسندیدہ ہے جب کہ وہ صدقہ جو عید کی نماز کے بعد ادا کیا جائے وہ دیگر صدقوں کی طرح محض ایک صدقہ ہے۔
صدقۃ الفطر کی مقدار:۔حنفیہ کے نزدیک صدقہ فطر کی مقدار نصف صاع گیہوں یا اس کی قیمت ہے ۔ جیساکہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہںی کہ حضرت عبدا للہ بن عباس ؓ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گیہوں سے صدقۃ الفطر نصف صاع مقرر فرمایا ۔موجودہ اوزان کے لحاظ سے صدقۃ الفطر کی مقدار ایک کیلو پانچ سونوے گرام گیہوں ہے ۔واضح رہے کہ یہ صدقۂ فطر کی کم سے کم مقدار ہے صاحب حیثیت اور امالدار لوگوں پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ زیادہ سے زیاد ہ صدقۃ الفطر نکالیں جیساکہ حضرت علی نے ارشاد فرما: اب جب کہ اللہ نے وسعت دی ہے تو تم بھی وسعت سے کام لو اورگیہوں یا دوسری چیزوں (کھجور،کشمش اورمنقا وغیرہ) میں سے ایک صاع نکالو۔ (سنن نسائی)
صدقۃ الفطر کے مصارف:۔ صدقۂ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکواۃ کے ہیں اور جس طرح زکواۃ میں سامان تجارت اور استعمالی زیورات وغیر ہ کی زکواۃ نقدی روپیوں کی شکل میں نکالی جا سکتی ہے اسی طرح اس میں بھی اختیار ہے خواہ گیہوں یا اس کی قیمت کے مطابق کوئی اور اشیاء خوردنی دی جائے یا پھر روپے دئے جائیں۔ اس سلسلہ میںعلماء کی رائے یہ ہے کہ غلہ اور اناج کی جگہ ا س کی مناسب قیمت ہی بطور صدقہ فطر ادا کی جا ئے کہ قیمت دینا جنس کی ادائیگی سے بہتر ہی نہیں ضروری بھی ہے کیونکہ لوگوں کی ضروریات مختلف اور انکی روز مرہ زندگی کے تقاضے بہت ہیں ۔ کسی کو علاج و معالجہ کے لئے رقومات کی ضرورت ہو سکتی ہے تو کسی کو تن ڈھانپنے کے لئے کپڑے کی ۔ظاہر ہے غلہ اور اناج سے ان کی یہ ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتیں جب کہ پیسوں سے ہر ضرورت پو ری ہو سکتی ہے ۔مذہب اسلام میں زکواۃ کی فرضیت اور صدقات کی وجوبیت کا فلسفہ خدمت خلق کی بنیا دپر ہی قائم ہے ۔
9419942541