اگر مجھے افغان طالبان اذیتیں دے دے کر مار دیتے ، ٹی وی پر میری پھانسی کا منظر دکھا دیتے تو مغرب کو افغانوں کے وحشی اور جنگلی ہونے کا مدلل ثبوت مل جاتا ، لیکن طالبان انٹیلیجنس حکام کی بصیرت کی داد دینی پڑے گی ، جنہوں نے محسوس کر لیا کہ مغرب انہیں دھوکہ دے کر استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ یہ ہیں مریم (ایوان ریڈلی) کے وہ زریں الفاظ جن سے موجودہ دنیا بر سرپیکار حق وباطل کی قوتوں کے درمیان حق کے پر ستاروں کی اصلیت سامنے آتی ہے ۔ مریم ریڈ لی2001ء میں افغان بارڈر پر طالبان کے ہتھے چڑھیں۔ گرفتار کیا ہونا تھا، وہ اپنی زندگی کے آخری دن گننے لگیں۔ خیالوں میں وہ خود کو پھانسی کے پھندے پر جھولتا دیکھ رہی تھیں لیکن طالبان کے سپریم کمانڈر ملا عمر مجاہد نے عین اس موقع پر " ریڈلی" کی باعزت رہائی کے پروانے پر پر دستخط کر دئے، جب امریکہ اور برتانیہ کابل کی سرزمین پر کروز میزائل برسا رہے تھے۔ ریڈلی رہا ہو گئیں۔ انہوں نے افغان طالبان کی مہربانی اور ان کی عجیب وغریب شرافت کا راز جاننے کے لئے اسلام کا مطالعہ شروع کیا اور بہت جلد اسلام کی حقیقت سمجھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئیں اور اپنا نام "مریم" رکھا۔ طالبان نے اس خاتون کو رہا کر کے کوئی احسان نہیں کیا بلکہ اسلام کی تعلیمات اور اپنے اصل نصب العین کی لاج رکھی اور مغرب کے سامنے ان خاکوں کی عملی تصویر رکھی جن میں جان جوکھوںمیں ڈال کر وہ رنگ بھر تے جا رہے ہیں۔
مریم ریڈلی کی چشم کشا کہانی

اسلام انسان کو مارنے اور کاٹنے کے بجائے احترام آدمیت کی تعلیم دیتا ہے۔ دین ِ حق نے انسان کی تکریم ، اس کی زندگی کا تحفظ، عزت و آبرو، مال و دولت اور عقل و مذہبی آزادی کے قوانین ا ور حدود متعین کئے ہیں اور ان کی خلاف ورزی سے ہر کلمہ خوان کو روکا ہے۔ فرمان الہٰی ہے:’’ جو لوگ اللہ کی مقرر کردہ حدود سے تحاوز کریں گے، وہ ظالم ہیں‘‘۔تکریم انسانیت کو روبہ عمل لانے کے لیے اسلام نے انسان کو اپنے بھائی پر بھی اور دوسرے انسانوں پر بھی ظلم و زیادتی سے روکا ہے اور ایسے تمام کاموں کو حرام و کفر قرار دیا ہے جن سے انسانیت پرظلم وتشدد کی تلوار چلے۔
قرآن حکیم نے بے شمار مقامات پر انسانی زندگی کی اہمیت اور تقدس بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ’’جو کوئی (نفس کی خواہش کے ضمن) میں کسی کو مار ڈالے ، سوائے (جان کے بدلے جان) قصاص کے، یا ملک میں فساد پھیلانے کے، تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا اور جس نے کسی جان کو قتل سے بچا لیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو بچا لیا۔" ( المائدہ) ۔اس آیت مبارک میں انسانی زندگی کی قدروقیمت اور تحفظ انسانیت کو بیان کیا گیا ہے اور قرآنی حکم کے بموجب انسانی زندگی کے تقدس کا یہ عالم ہے کہ ایک آدمی کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور ایک فرد کی زندگی کا تحفظ پوری انسانیت کے تحفظ کے متراد ف قرار دیا گیا ہے۔اسلام کے نزدیک کسی بھی شخص کو قتل کرنا انتہائی قبیح ترین جرم ہے ،الا یہ کہ وہ قتل باضابطہ عدالتی کارروائی کے بعدکسی انسانی جان کے بدلے میں قانوناً لازم قرار دیا جائے، کیونکہ قاتل کو زندگی کی اَمان دینے کا مطلب ہے معاشرے میں بدامنی ، بغاوت اور اللہ کے قانون سے سرکشی کے رحجانات کو راہ دینا ۔ انہی تعلیمات اور فرمودات کی بنیاد پر مسلمان حکمران مجاہدین کو محاذ جنگ پر روانہ کرتے وقت حکم دیتے تھے کہ دیکھو بزرگوں، عورتوں، بچوں، اور عبادت گزاروں کو قتل نہ کرنا۔ اس نقطہ کی مناسبت سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی وصیت جو دشمن کی سرکوبی کے لئے لشکر اسلامی محاذجنگ کی طرف روانہ کرتے وقت اُن سے کی تھی اس کا حوالہ دینا یہاں کافی ہوگا۔آ پ ؓ اسلامی فوج سے فرماتے ہیں " تم لاشوں کا مثلہ نہ کرنا، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل مت کرنا، درخت کاٹنا نہ جلانا، نہ کسی پھل دار درخت کو کاٹنا ، بکری، گائے اور اونٹ کو کھانے کے علاوہ ذبح نہ کرنا، تم عنقریب اس قوم کے پاس گزرو گے جنہوں نے خود کو عبادت کے لئے فارغ کر رکھا ہے، وہ کلیساؤں میں ہیں۔ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دینا‘‘۔ یہ احکامات اس لشکر کے لئے لازم وملزوم ہیں جو صلح اور امن و سلامتی کی روح کے ساتھ برسر پیکار تھی۔
احترام انسانیت اور حرمت جان کی اعلیٰ مثال اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے: ارشاد نبوی ہے’’ جو شجص اپنے بھائی کی طرف کسی لوہے ( ہتھیار) سے اشارہ کرے ، اس پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں ،یہاں تک کہ وہ ( اس سے )باز نہ آ جائے، خواہ اس کا حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو۔"شریعت اسلامی نے حدود وقصاص کی جو سزائیں مقرر کی ہیں ، ان سے اجراء کے لیے سلطان یا اس کا نائب ، قاضی ، یا حاکم مجاز اور آزاد عدالتی ادارے کا وجود ضروری ہے جس کے بغیر عام آدمی اگرچہ وہ صاحب حق کیوں نہ ہو ، مذکورہ سزائیں اپنے طور نافذ العمل کر ہی نہیں سکتا۔ان فرمودات اور احکامات کی روشنی میں موجودہ صورتحال پر کیا کہا جا سکتا ہے کہ بسااوقات ہمارے ا پنے ہاتھوں غیر اسلامی اور غیر انسانی کاروائیاں ہو تی ہیں۔ کسی کا خون ِناحق عدل و انصاف کا خون ہے اور یہ اسلامی اصولوں کی بھی بیخ کنی ہے۔ کسی کے گھر میں داخل ہو کر ا س کے اہل خانہ کو ڈرانے دھمکانے کی اخلاق اور قانون ِ انسانیت اجازت نہیں دیتا ہے بلکہ کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونے سے قرآن نے سختی سے منع کیا ہے۔ گھروں میں بوڑھے والدین، بچے اور خواتین کی عزت نفس کو پامال کرے کی بھی اسلام قطعا ًاجازت نہیں دیتا۔اس طرح کی کاروائیوں سے ظالم اور مظلوم کا فرق ہی مٹ جاتا ہے۔ یاد رکھئے اسلام محبت کا پیغام دیتا ہے، عدل و انصاف سکھاتا ہے اورعداوت و دشمنی اور کینہ وتوزی کا اسلام کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں۔مریم ریڈلی سے سوال کیا گیا: آپ کیوں مسلمان ہوئیں؟ ریڈلی نے جواب دیا:’’میرے اسلام لانے کا سب سے بڑا اور اہم سبب ذریعہ طالبان کا حسن ِسلوک تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ پوری دنیا جن کو دہشت گرد کہتی ہے، وہ ایک غیر مسلم اور پرائی عورت کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کریں گے، جو طالبان نے میرے ساتھ کیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو اسلامی اصولوں پر خلوص دل اور ذہن کی آمادگی کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ع
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
Leave a Comment