اس کی رنگت شراب جیسی ہے
اور خوشبو گلاب جیسی ہے
اک کہانی سی ہے بدن اس کا
جس کی صورت کتاب جیسی ہے
میں نے دیکھی ہے اک جھلک اس کی
ہو بہو ماہتاب جیسی ہے
یوں بظاہر ہوں پُر سکون مگر
کیفیت اضطراب جیسی ہے
اچھی لگنے لگی ہے دنیا بھی
دلِ خانہ خراب جیسی ہے
ٹوٹ جاتا ہے راہ میں بلراجؔ
زندگی ایک خواب جیسی ہے
بلراج بخشی
عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی، اُدہم پور- (جموں کشمیر)
Mob: 09419339303 [email protected]
کرم تیرا مرے ساقی بہت ہے
مرے شیشے میں مے باقی بہت ہے
کہاں حمد و تشکر کی رسائی
خدایا تیری رزاقی بہت ہے
بساطِ گْل پہ رقصِ رنگِ شبنم
کہ اس میں حْسنِ آفاقی بہت ہے
الٰہی خیر ہو اب کے چمن کی
گْل و بْلبْل میں نا چاقی بہت ہے
مرا کیا ہے مری ہستی میں شاید
سوا فطرت کے الحاقی بہت ہے
ضمیر و دل بچانا ہے ضروری
سْنا ہے زورِ قزاقی بہت ہے
شبیبؔ اپنی غزل کی طْرفگی میں
یقیناََ فکرِ خلاقی بہت ہے
ڈاکٹر سید شبیب رضوی
کاٹھی دروازہ رعناواری سرینگر
موبائیل; 9906885395
تمام وحشتوں کو مات کر گیا سورج
میرے وجْود میں جب سے اْتر گیا سورج
ہوا ہے معجزہ کیسا کہ پھر سے اْگ آیا
وگرنہ لوگ تو کہتے تھے مر گیا سورج
ہمارے ذہن تک آئی نہ ایک چْٹکی دھوپ
مگر قریب سے ہوکر گزر گیا سورج
جنون پیاس کا سر پر سوار تھا لیکن
خلوصِ ابر ہتھیلی پہ دھر گیا سورج
ابھی تلک تو اْداسی تھی اْس کے چہرے پر
سراپا دیکھ کے کس کا نکھر گیا سورج
بہار، پھْول، دھنک، دْھوپ، اوس کے موتی
تمام شوخیاں منظر میں بھر گیا سورج
فقیرِ شہر اْجالوں سے تھا خفا لیکن
منانے کے لئے پھر اْس کے گھر گیا سورج
یہ کس کے خون کا ہے داغ اْس کے دامن پر
شفق کی شوخ نگاہوں سے ڈر گیا سورج
لہو لہان فلک آس کا ہوا پھر سے
کہیں پہ ٹوٹ کے جیسے بکھر گیا سورج
پرویز مانوس
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل :9419463487
قدم قدم پہ اندھیرا دکھائی دیتا ہے
یہ کس کی زلف کا گھیرا دکھائی دیتا ہے
بدل بدل کے دکھاتا ہے آئینے مجھ کو
سبھی میں عکس تو تیرا دکھائی دیتا ہے
کدھر میں غم کے خزانوں کو ڈھونڈھنے نکلوں
تمام شہر لٹیرا دکھائی دیتا ہے
مجھے یقین ہے اب وہ اِدھر ہی لوٹے گا
تھکا تھکا ہوا چہرہ دکھائی دیتا ہے
نظر سے دور گھنے جنگلوں کے دامن میں
کسی فقیر کا ڈیرہ دکھائی دیتا ہے
بدل کے بھیس وہ آیا ہے قاتلوں کی طرح
کرے گا قتل وہ میرا دکھائی دیتا ہے
سفر طویل ہے جاویدؔ پاس کچھ بھی نہیں
ابھی تو دور سویرا دکھائی دیتا ہے
سردار جاوید خان
مینڈھر، پونچھ
رابطہ۔9697440404
ضمیرِ آدم کا اب پامال کیوں ہے؟
خدا کا راز داں بے حال کیوں ہے؟
عدو بننے سے تجھ کو کس نے روکا
یہ غمواروں کی جیسی چال کیوں ہے
ثریا سے کبھی آگے چلا ہوں
میری قسمت میں اب پا تال کیوں ہے
زمین و زن کو کیوں تم پوجتے ہو
بتِ بے سود تیرا مال کیوں ہے
جوانی، حسن، شبنم کی طرح ہے
تمہارا قبلہ خدو خال کیوں ہے
فسوں ہے ساز و مستی کے مشاغل
تجھے محبوب سُر اور تال کیوں ہے
شکایت شیخ نے کی میکدے میں
یہ ہادیؔ صاحبِ اعمال کیوں ہے
حیدر علی ہادیؔ
زیارت بتہ مالو،8803032970
ہم محبت کے ہیں داعی طالبِ دہشت نہیں
تیرے من کی بات میں میرے لئے راحت نہیں
توڑتی ہے دم معیشت وادیٔ کشمیر کی
ہم غلاموں کو میسر صنعت و حرفت نہیں
ایک اللہ کی خشیت اور عشقِ مصطفیٰؐ
اس سے بڑھ کر اور کوئی رفعت و عظمت نہیں
تختۂ مشقِ ستم ہوں پر عزیمت ہے رفیق
چڑھتے سورج کی کروں پوجا مری فطرت نہیں
قتل و غارت کا نہیں تھمتا ہے یہ سیلِِ رواں
داعیانِ امنِ عالم میں ذرا غیرت نہیں
درس تیرے عشق کا دیتا ہوں حُسنِ شعر میں
دوستوں کو طرزِ مشتاقانہ سے رغبت نہیں
مشتاق ؔکاشمیری
موبائل نمبر؛9596167104