بیرون ممالک تک سفر کی سہولیات آسان بن جانے کے بعد موجودہ دور میں پاسپورٹ ایک ایسی دستاویز بن گئی ہے جسکی ہر ایک شہری کو کبھی نہ کبھی ضرورت پڑتی ہے ۔ پاسپورٹ کی ضرورت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ سرینگر اور جموں میں قائم پاسپورٹ دفاتر میں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔اگرچہ جموں کشمیر کی عوام کوبہتر پاسپورٹ سہولیات فراہم کرنے کے دعوے کے ساتھ وزارت برائے امور داخلہ اور محکمہ ڈاک نے ریاست کیلئے مزید تین پوسٹ آفس پاسپورٹ سیوا کیندروں کا قیام عمل میں لانے کا فیصلہ کیا ہے جو پی او پی ، پی ایس کے اننت ناگ ، بارہمولہ اور کٹھوعہ اضلاع میں قائم کئے جا رہے ہیں تاہم ریاست کی ایک بہت بڑی آبادی اب بھی ایسی ہے جسے اس سلسلے میںبہتر سہولیات دور دور تک بھی فراہم نہیں ہورہی ہیں ۔ جہاں حکومت کے اس اعلان کا خیر مقدم کیاجاناچاہئے وہیں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ایسے مزید مراکز قائم کئے جائیں تاکہ لوگوں کو سینکڑوں میل سفر کرکے بھی خالی ہاتھ واپس نہ لوٹناپڑے ۔پاسپورٹ حکام کی طرف سے سخت لوازمات کی عمل آوری میں متعلقہ محکمہ کی جانب سے بسا اوقات بعض اعتراضات لوگوںکیلئے پریشانیوںکا باعث بھی بنتے ہیں ۔اس حوالے سے سب سے زیادہ مشکلات جموں کے پہاڑی خطوں پیر پنچال اور چناب کے لوگوں کو درپیش ہیں جنہیں پاسپورٹ کی خاطر دو سے تین سو کلو میٹر کا یکطرفہ سفر طے کرکے جموں پہنچناپڑتاہے اور پھر بہت کم ہی ایسے خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جن کے دستاویزات پہلے ہی سفر پر جمع ہوجائیں گے جبکہ زیادہ تر تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں چکر پی چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔اگرچہ ریاست کی سرکاری زبان اردو ہے لیکن پاسپورٹ بنانے والا عملہ راشن کارڈ ، نکاح نامہ اور دوسرے دستاویزات کو تبھی قبول کرتاہے جب وہ انگریزی زبان میں ہوں جبکہ ریاست میں یہ دستاویزات اردو میں ہی بنتے ہیں ۔اردو میں ان دستاویزی ثبوتوں کو اس طرح رد کیا جاتا ہے جیسے اردویہاں کی زبان ہے ہی نہیں ۔پاسپورٹ کیلئے ضروری کاغذات جمع کرانے کے دوران ہفتوں کی تاریخ دی جاتی ہے اور یوں پاسپورٹ بنانے میں مہینوں لگ جاتے ہیں، حالانکہ مرکزی حکومت نے اس بات کے باضابطہ ہدایات دی ہیں کہ کسی بھی شخص کا پاسپورٹ تیار کرنے میں صرف ایک ماہ کا عرصہ لگنا چاہیے۔جموں و کشمیر میں سب سے طوالت کا مرحلہ تب آتا ہے جب پولیس کے پاس کسی بھی شخص کی ویری فیکیشن کرنے کے کاغذات پہنچتے ہیں۔یہ وہ طویل سلسلہ ہوتا ہے جو ہر ایک انسان کو تھکا دیتا ہے۔ریاست میں1990کے بعد پیدا ہونے والے افراد کے لئے اس بات کو لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ پولیس کی تاریخ پیدائش سند حاصل کرے۔اور اس عمل کے دوران نہ صرٖ ہفتے لگتے ہیں بلکہ کبھی ایک مہینے میں بھی تاریخ پیدائش کی سند تیار نہیں ہوتی ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ صرف ڈیجیٹل الیکشن ووٹر کارڈ ہی تسلیم کیا جاتا ہے ، ریاست میں محکمہ مال کی جانب سے جو پرانے الیکشن کارڈ فراہم کئے گئے ہیں انکی کوئی بھی اہمیت ہی نہیں ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاسپورٹ بنوانے کی اس دوڑ میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بزرگ اور بچے بھی پریشانی کے عالم سے دوچار ہورہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح کٹھوعہ ، بارہمولہ اور اننت ناگ میں پاسپورٹ سیوا کیندروں کا قیام عمل میں لایاجارہاہے اسی طرح خطہ پیرپنچال اور خطہ چناب میں بھی ایسے مراکز قائم کئے جائیں۔اگرحکومت واقعی عوام کو بہتر خدمات فراہم کرنے کیلئے سنجیدہ ہے تو پھر ان دوخطوں کے عوام کو بھی پاسپورٹ کی خاطر دربدر کی ٹھوکریں کھانے سے نجات دلائی جائے ۔