یہ بات طے ہے کہ جموں وکشمیر میں بھی جی ، ایس ، ٹی (GST)یعنی اشیاء اور خدمات پر ٹیکس سے متعلق نیا قانون لاگو کرنے سے کئی ایسے سنگین آئینی اور سیاسی نتائج بر آمد ہونگے جن کا اندازہ اِس وقت نہیں لگایا جاسکتا ۔
بھارت کے آئین میں قانون سازی ، مالی اور کئی دیگر اختیارات مرکز اور ریاستوں کے درمیان سے متعلق جن میں ٹیکس عائد کرنا بھی شامل ہے ایک واضح رشتہ اور حد بندی درج ہے۔ گذشتہ سال پارلیمنٹ نے آئین میں ترمیم نمبر ۱۰۱ کرکے اِس بات کی گنجائش پیدا کرلی کہ پارلیمنٹ اور ریاستوں کے قانون ساز ادارے ملک میں اشیٔا اور خدمات پر ٹیکس عائد کرنے سے متعلق نئے قوانین بنا سکتے ہیں ۔ ترمیم کی رُو سے پارلیمنٹ کو یہ کلی اختیار مل گیا کہ وہ ریاستوں کے مابین تجارت سے وابستہ اشیٔا اور خدمات پر ٹیکس لگانے سے متعلق قوانین بنا سکتی ہے۔ اس ترمیم سے ایک ایسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے جن کی رُو سے اشیٔا کی فروخت پر ٹیکس عائد کرنے کا حق ریاستوں نے مرکز کو سونپ دیا ہے جب کہ پارلیمنٹ یا مرکز نے خدمات اور اشیٔا کی پیداوار پر ٹیکس لگانے کا اختیار ریاستوں کو منتقل کیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ترمیم کے بعد اشیاء اور خدمات پر ٹیکس کی شرح مقرر کرنے میں مرکز اور ریاستوں دونوں کو مناسب حصہ داری مل گئی ہے۔ ٹیکس کی شرح مقرر کرنے اور اور اس سے جڑے دوسرے امور کو نبھانے کے لئے اشیاء اور خدمات ٹیکس کونسل کے نام سے ایک الگ ادارہ بھی قایم ہو رہا ہے اور اس ادارے میں مرکز ، ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے نمائندہ ممبران شامل ہوں گے۔ یہ ادارہ ہر فیصلہ اکثریتی ووٹ سے لینے کا پابند ہوگا۔
اس موقع پر یہ بات جاننا لازمی ہے کہ بھارتی آئین میں کسی ترمیم کو لاگو کرنے اور اس کا دائرہ بڑھانے سے کیا نتائج بر آمد ہو سکتے ہیںاور اس ترمیم کے تحت جو قوانین بنیں گے اُن کو کس طرح لاگو کیا جاسکتا ہے ۔ آئین میں ترمیم کرنے کی جو گنجائش رکھی گئی ہے وہ اسی کے دفعہ 368 کے تحت کی جاسکتی ہے۔ اس دفعہ کی رُو سے جو بھی ترمیمی قانون بنے گا وہ جموں و کشمیر پر بھی مناسب اور ضروری تبدیلی کے بعد لاگو ہوسکتا ہے، اس قانون کو تاہم براہ ِ راست جموں و کشمیر پر اُس وقت تک لاگو نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ راشٹر پتی دفعہ 370 کے تحت صدارتی حکم نامے کے ذریعہ اس ریاست پر عائد نہیں کر لیتا۔
اس وقت ریاستوں میں ایک قابل فہم اندیشہ پایا جاتا ہے کہ بھارتی آئین میں مالی اختیارات کے بارے میں جو واضح اہتمام رکھا گیاہے اور جس کہ رُو سے مرکز اور ریاستوں کو مناسب حصہ داری دی گئی ہے اُسے مرکز 101 ویں ترمیم سے سلب کر رہا ہے ۔ ریاست جموں و کشمیر کے لئے یہ معاملہ اور بھی پیچیدہ اور قابل تشویش ہے۔ بھارت کا آئین ریاست جموں و کشمیر پر ایک ترمیم شدہ شکل میں لاگو ہوتا ہے۔ ابتدأ میں ریاست پر بھارتی آئین کی صرف دو دفعات یعنی دفعہ نمبر 1 اور دفعہ نمبر 370 براہ راست لاگو ہوتے تھے۔ لیکن بعد میں جتنے بھی دیگر مرکزی قوانین اور آئین ہند کی دفعات ریاست پر لاگو کی گئیں وہ دفعہ 370 کے راستے سے صدارتی فرمانوں کے ذریعے قابل عمل بنائی گئیں ۔ اصلی پوزیشن تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ جموں و کشمیر کے لئے اُسی صورت میں قانون بنا سکتی ہے جب ریاستی حکومت اپنی رضا مندی ظاہر کرے۔ چند ایک معاملات کو چھوڑ کر جو پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں ریاستی قانون سازیہ ریاستی آئین کے سیکشن نمبر ۵ کے تحت تمام انتظامی اور قانونی امور کو وضع کرنے اور اُنہیں لاگو کرانے کی بذات خود مجاز ہے۔ اس پراویژن (provision)کو عام طور پر ریاستی قانون سازیہ کے باقی ماندہ اختیارات یا (Residury Powers)کہا جاتا ہے ۔
جہاں تک باقی ریاستوں کا تعلق ہے باقی ماندہ اختیارات ، جن کے تحت ٹیکس بھی عائد کیا جاتا ہے پارلیمنٹ کے پاس ہیں اور پارلیمنٹ مرکزی لسٹ کی شک نمبر ۹۷ کے تحت ان ریاستوں کے لئے ٹیکس سے متعلق قوانین بنا سکتی ہے اور اس طرح یہ ریاستیں مرکزکی طرف سے عائد کردہ ٹیکس کے دائرہ میں آتی ہیں ۔ اس صورت حال کے برعکس جموں و کشمیر پر شک نمبر ۹۷ لاگو نہیں ہوتی اور ریاست کو اپنے طور سے مختلف قسم کے ٹیکس لگانے اور اُ ن سے متعلق قوانین بنانے کے اختیارات حاصل ہیں ۔ جہاں تک اشیٔا کی فروخت پر ٹیکس لگانے کا معاملہ ہے جموں و کشمیر کسی اور ریاست کی طرح سیلز ٹیکس اور ویٹ اپنے حساب سے لگا سکتی ہے۔ لیکن خدمات(Services) پر ٹیکس لگانے میں جہاں دیگر ریاستوں پر مرکزی قانون براہ راست لاگو ہوتا ہے، جموں و کشمیر پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا اور وہ اپنے آئین کے سیکشن ۵ کے تحت خدمات پر بھی اپنے ہی انداز سے ٹیکس لگا سکتی ہے۔ مطلب یہ کہ خدمات پر ٹیکس عائد کرنے میں ریاست جموںو کشمیر کُلی طور پر مختار ہے ۔ اب اگر موجودہ مرکزی آئین کی ترمیم نمبر ۱۰۱ کو ریاست پر منِ و عن لاگو کیا جاتا ہے تو اُس کا مطلب یہ ہوگا کہ جموں و کشمیر خدمات پر ٹیکس لگانے کا اپنا حق مرکز کو سونپ دے گی اور اپنے اختیار سے دست بردار ہوگی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ترمیم نمبر ۱۰۱ کو جموں و کشمیر پر لاگو کرنے کے ایسے وسیع سیاسی اور آئینی اثرات ثبت ہوں گے اور ایسے منفی نتائج برآمد ہوں گے جو ریاست کی بچی کھچی اندرونی خودمختاری کو مزید کمزور کرسکتے ہیں۔ اور مرکز کی دست اندازی کے لئے راہ ہموار کرسکتے ہیں اسی لئے ماضی میں بھارتی آئین کی ترمیموں کو جموں و کشمیر پر لاگو کرنے سے گُریز کرنے کے لئے شعوری کو شش کی گئی ہے۔ اسی سلسلے میں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ دو اہم یعنی ۷۳ویں اور ۷۴ویں ترمیمیں بھی من و عن جموں و کشمیر میں لاگو نہیں کی گئیں اگر چہ ان کے فوائد واضع تھے اور ان کو لاگو کرنے کے لئے پُر زور مطالبات بھی کئے گئے تھے ۔ اس ضمن میں ریاستی حکومت نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ چونکہ ان ترمیموں کی اصل روح یا لُبِ لُباب ریاستی حکومت نے اپنے متعلقہ قوانین میں شامل کیا ہے اس لئے ترامیم کو ریاست میں لاگو کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ ۱۹۷۵ کے بعد صرف دو یعنی ۱۹۸۵ کی ۵۲ویں اور ۱۹۸۸ کی ۶۱ویں ترامیم کو ہی ریاست میں لاگو کیا گیا ہے۔ ان ترامیم کا تعلق دَل بدلی اور ووٹنگ کی عمر کو ۲۱ سال سے گھٹا کر ۱۸ سال کرنے سے تھا۔ اُس کے بعد بھارتی آئین میں کوئی ۵۰ ترامیم کی گئیں لیکن اُن میں سے کوئی بھی جموں و کشمیر میں لاگو نہ کی گئی ۔ اس بات پر بار بار بحث ہوتی ہے اور کافی غم و غصہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ بھارتی آئین کی ترامیم کو ریاست میںلاگو کرنے سے جموں و کشمیر کی اندرونی خودمختاری کو کمزور کرکے برائے نام رکھا گیا ہے۔ اس زمینی حقیقت کے پیش نظر ریاستی سرکار کو چاہئے کہ وہ مُلکی آئین کی ترامیم کو ریاست میں لاگو کرانے کے لئے اپنی رضامندی دینے کے بجائے ریاستی قانون سازیہ کے ذریعے ہی ایسے مناسب قوانین منظور کرائے جن سے نئی ضروریات کو پُورا کیا جاسکے۔ اگر موجودہ ترمیم کو ریاست میں براہ راست لاگو کیا جائے تو قانون اور روایت کی رُو سے اسے بعد میں واپس نہیں لیا جاسکتا اس لئے جموں و کشمیر کو GSTسے متعلق ۱۰۱ ویں ترمیم کو لاگو کرانے کے بدلے اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کرکے ایسا ہی یا اس سے بھی بہتر ٹیکس قانون وضع کرنا چاہئے ۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر کچھ وقت گزرنے کے بعد سرکار محسوس کرے کہ GST طرز کا قانون سود مند ثابت نہیں ہو رہا ہے تو وہ اس کو مٹا کر دوسرا قانون لاگو کر سکتی ہے لیکن مرکزی قانون کو عائد کرنے کے بعد اس قانون کو ریاست اپنے طور سے ہٹا نہیں سکتی کیونکہ اس کا اختیار صرف مرکز کو حاصل ہوگا ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ریاستی سرکار نے پہلے بھی مرکز کے کئی قوانین مناسب ردوبدل کے بعد اپنے طور سے اور اپنے قانون سازیہ سے منظور کراکر لاگو کئے ہیں۔ ریاستی سرکار آج بھی ایسا کر سکتی ہے اور اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ بھارتی آئین کی ترامیم کو لاگو کرانے کا ہی راستہ اختیار کیا جائے۔ اس اقدام سے ریاست کی آئینی پوزیشن کا بھی تحفظ ہوگا اور عوام کے ذہنوں میں پنپنے والے وہ شکوک بھی دُور ہونگے کہ موجودہ ریاستی سرکار جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو مزید کمزور کرنے کے لئے کسی سازو باز میں شامل ہے۔ اگر ریاستی سرکار کو مرکز کے GSTطرز کا قانون وضع کرنے میں کوئی دشواری پیش آتی ہے تو وہ ریاستی اور ریاست سے باہر کے آئینی ، قانونی اور ٹیکس معاملات کے ماہرین سے مشورہ کرکے قابل قبول راستہ نکال سکتی ہے۔ ع
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی ۔
نوٹ :مضمون نگارجموں وکشمیر ریاستی اسمبلی کے رُکن ہیں۔