تعلیم صرف تدریسِ عام ہی کا نام نہیں ہے بلکہ تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سے ایک فرد اور ایک قوم خود آگہی حاصل کرتی ہے اور یہ فرداور قوم کے احساس و شعور کو نکھارنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔یہ نسل انسانی کو ذہنی عروج اور اخلاقی تربیت کا شعور دیتی ہے ، ان میں زندگی کے مقاصد و فرائض کا احساس پیدا کرتی ہے ۔تعلیم ہی سے ایک قوم اپنے ثقافتی ،ذہنی اور فکری ورثے کو آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے اور ان میں زندگی کے ان مقاصد سے لگاؤ پیدا کرتی ہے۔
تعلیم ذہنی انجماد کو توڑتی ہے اور اخلاقی کاوشوں کا محرک بنتی ہے ۔اس کا مقصد اونچے درجے کے ایسے تہذیب یافتہ مرداور عورتیںپیدا کرنا ہے جو اچھے انسانوں کی حیثیت سے اور کسی ریاست میں بطور ذمہ دار شہری اپنے فرائض کو انجام دینے کے اہل ہوں۔
جب ہم موجود ہ دور کے بے خدا نظریہ تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں تو مندر جہ ذیل چیزیں سامنے آتی ہیں:۔(۱)بے عقیدہ تعلیم طلبہ و طالبات میں مثبت تصورزندگی دینے میں ناکام ہے ۔ جب کوئی قوم اس تصور وشعور سے بے بہرہ اور محروم ہو تو تاریخ کے سفر پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے ۔ ایسی اقوام عدل ا جتماعی کے زندہ شعور سے عاری ہو جاتی ہیں کیونکہ کسی زندگی کے اعلیٰ اور برتر نصب العین کے لئے جینے اور مرنے سے نا آشنا قومیں تاریخِ عالم میں کوئی بڑا کارنامہ انجام تو دور اپنا وجود تک برقرار رکھ نہیں پاتی ہیں۔ تاریخ میں ایسی مثالوں کی کمی نہیں کہ جن قوموں نے علم وتہذیب کی وساطت سے اپنی منزل ومرتبہ کا شعور کھو دیا وہ حرفِ غلط کی طرح مٹا دی گئیں۔(۲)بے عقیدہ تعلیم نئی نسل کے قلب و روح میں اخلاقی اقدار کو زندگی دینے میں ناکام رہتی ہے۔ اس کا تعلق صرف جسمانی ضروریات اور نفسانی خواہشات کی پوجاسے ہوتا ہے۔ روح کے مطا لبات سے یہ بیگانہ ہی ر ہتی ہے۔پھر یہ حقیقت بھی مبرہن ہے کہ بے عقیدہ تعلیم ایسے افراد پیدا کرتی ہے جو زندگی کے بنیادی اور زندہ مسائل پر کوئی نظریہ نہیںر کھتے بلکہ عملی زندگی کے بارے میں ان کا علم اس قدر سطحی رہ جاتا ہے کہ اس کی کوئی ٹھوس افادیت باقی نہیں رہتی۔
اسلام نے علم کا جو تصور دیا ہے اس میں انسان کی کامل ہدایت کا سامان ہے۔ اس میں حواس ، وجدان ،عقل، مشاہدات ، تجربات کاحسین ومتوازن امتزاج نہیں بلکہ وحی ٔ الہیٰ جیسے سب سے اعلیٰ وبرتر ذریعہ علم کی آمیزش بھی ہے ۔اس میں تعلیم اور تربیت دونوں کو یکساں اہمیت دی گئی ہے کہ ایک کو دوسرے سے جُدا نہیں کیا جا سکتا ۔تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ نفس دونوں کو ساتھ ساتھ انجام دینا ضروری ہے اور اس میں یہ مقصدچھپا ہوا ہے کہ طلبہ وطالبات اسلامی نظریۂ حیات سے آشنا ہوں ، یعنی وہ مفہوم ِ زندگی اور مقصودِ دنیا دونوں سے باخبر ہوں اور عقیدۂ توحید،رسالت،آخرت کی بنیادوںپراخلاقیات اسلامی اور اسلامی ثقافت کے چلتے پھرتے نمونے بن جائیں ، انہیں پتہ ہو کہ وہ کس اعلیٰ مقصد کے لئے دُنیا کی تمام قوتوں کو استعمال کریں۔ اسلامی تعلیم ایسے افراد اور سماج کوپیدا کرتے ہیں جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میںاسلامی نظریات پر بھر پور یقین کے حامل ہوں اور اسلامی نقطہ نظر کے ساتھ ہر میدان میں نبوی ؐ تعلیمات کی روشنی میں اپنا راستہ خود بنا سکیں
(۳)نبی کریم ؐ ملت اسلامیہ کے سب سے پہلے معلم اور مُدرس ہیں۔آپؐ ہی نے پہلی منظم درسگاہ مدینہ منورہ میں قائم فرمائی۔ صفّہ نامی چبوترہ پہلا مدرسہ تھااور اصحاب صفّہ اس کے متعلم تھے اس مدرسے میں ۷۰ سے ۸۰ تک ہمہ وقت طالب علم تھے۔آں حضورؐ کے علاوہ دوسرے صحابہ کبار ؓ بھی یہاں معلم کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے تھے۔ اصحاب صفہ میں سے ایک یعنی حضرت معاذ بنِ جبلؓمالی اُمور کے نگران تھے اور عطیات کی تقسیم کا کام انہی کے سپرد تھا۔تعلیم و تبلیغ کے لئے لازمی خصوصیات سے متصف اُنہیںاصحاب ؓکو اسلامی بستیوں میں بھیجا جاتا تھا جہاں ان کی ڈیمانڈ ہوتی ۔ اپنی مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے یہ طلبائے دین خود بھی محنت کرکے کماتے اور دوسرے اہلِ ثروت مسلمان بھی ان طلبہ اور ان کے اسا تذہ کی مقدور بھر مدد کرتے اور خود آںحضور ؐ بھی براہِ راست ان کی مدد فرماتے۔
اس مدرسے نے اسلامی سلطنت میں تعلیم کی نہج قائم کی اور جو روایت اس مکتبہ میںپڑی وہی ملت کی پسندیدہ تعلیمی روایت بن گئی اور اس سے ہمیںموٹے طور یہ اصول واسالیبِ تعلیم ملے: (ا)اولین چیز دینی تعلیم ہے ۔قرآن اور سنت نبویؐ کو نصاب تعلیم کا مرکز و محور ہوناچاہیے۔(ب)تعلیم کا مقصداچھا مسلمان اور داعی الیٰ الحق بنانا اور مسلم معاشرہ کی تمام ضروریات کو پوری کرنا ہے(ج)رسول صلعم نے تعلیم اور مسجد کا تعلق قائم کیا ،مسجد دینی محور ،سیاسی مرکزاور تعلیم گاہِ معاشرہ قرار پائی، اس کے ذریعے سے طالب علم ایک مخصوص ثقافتی ورثے کے امین بنے۔(د)مختلف فنون اورمہارتوں کو سیکھنا اور ان سے واسطہ ہونا اچھا اور پسنددیدفعل قرار دیا۔(ہ)تعلیم کی آخری ذمہ داری مسلمان معاشرے اور اسلامی ریاست پر عائد ہوتی اور اسے اس مقصد کے لیے اپنے وسائل استعمال کرنے چاہیے۔ مسلمانوں کی قومی آمدنی اور بیت الما ل پر اولین حق زیر تعلیم طلبہ اور ان پر ہونے والے جملۂ مصارف کا ہے ۔
حضور ؐ کے زمانے میں تعلیم کی یہ بُنیادی نہج پڑی اور ان ہی خطوط پر بعد میں ارتقاء ہوا ۔ مساجد تعلیم کا مرکز بن گئی ہر جگہ حلقہ ہائے درسِ قُرآن و حدیث ہوئے۔ ایک ایک مسجد میںکئی کئی حلقے بنے اور ایک ایک حلقے میں ہزاروں شریک ہونے لگے جو اسا تذہ خوشحال تھے وہ اپنی کفالت آپ کرتے لیکن جو ضرورت مند تھے ان کی کفالت بیتُ المال کرتا تھا حضرت عمرؓ نے اساتذہ کی باقاعدہ تنخواہیں اور وظیفے مقرر فرمائے اور ہر مسجد ایک تعلیم گاہ بن گیا ۔پہلی چار صدیوں میں تعلیم کا یہی نظام قائم تھا ۔ محمود غزنوی نے اپنی مملکت میں بے شمار مدرسے انہی خطوط پر قائم کئے اور ان کے زیرِ اثر دوسرے امراء اور اراکین ِسلطنت نے بھی یہ خدمت انجام دی۔ تاریخ نے سلطان محمودغزنوی کو اس کی عسکری جدوجہد کی وجہ سے تویاد رکھا لیکن علم کی دُنیا میں جو انقلاب آفرین اقدام اُس نے اُٹھائے اس کا اقرار واقعی اعتراف نہیں کیا گیا۔
(بقیہ سنیچر کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)