سرینگر// اپوزیشن جماعتوں نے ایوان اسمبلی میں جی ایس ٹی پر یک رائے اپناتے ہوئے متبادل ماڈل کی طرفداری کی تاکہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو برقرار رکھا جاسکے۔نیشنل کانفرنس نے تاہم کہا کہ اگر پی ڈی پی اور بی جے پی نے موجودہ ہیت میں اس قانون کو نافذ کرنے کا من بنالیا ہے تو یہ دفعہ370کو ختم کرنے کا پہلا زینہ ہوگا جبکہ کانگریس نے کہا کہ ایسا کوئی طریقہ کار تلاش کیا جائے جس سے سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ سرکار کی طرف سے جی ایس ٹی کو نافذ کرنے کیلئے خصوصی اجلاس طلب کرنے کے دوران بحث کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے محمد شفیع اوڑی نے قرار داد پر ہی سوالیہ کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ جس دفعہ کے تحت اس کو لایا گیا ہے،اس کے تحت ریاست کی سرحدوں کو تبدیل کرنے کیلئے پر بحث ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جس دفعہ کے تحت قرارداد میں جس سفارش کا تقاجاکیا گیا ہے وہ جموں کشمیر میں لاگو نہیں ہے۔ محمد شفیع اوڑی نے سوال کرتے ہوئے حکومت سے پوچھا کہ کیا انہوں نے اس بارے میں مرکزی حکومت سے مشورہ کیا ہے۔انوہں نے کہا کہ سرکار کی طرف سے متضاد بیانات آرہے ہیں،جس کی وجہ سے لگ رہا ہے حکومت کنفویژن کی شکار ہوگئی ہے۔ سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ مرکزی وزیر خزانہ ارن جیٹلی سے لیکرڈاکٹرجتندر سنگھ نے کہا کہ ہمیں یہ قانون جموں کشمیر مین کسی بھی صورت میں لاگو کرنا ہے جبکہ انہوں نے تاریخ بھی6جولائی کی متعین کردی۔انہوں نے کہا کہ اتنا ہی نہیں بلکہ ریاستی وزیر خزانہ نے بھی کہا کہ یہ قانون6جولائی کو نافذ اعمل لایا جائے گا۔ اوڑی نے کہا کہ سرکار کیا آئین کے دفعہ5کی ترمیم کرنا چاہتا ہے۔انہوں نے پی ڈی پی کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ اگر بی جے پی نے فیصلہ لیا ہے کہ یہ قانون جموں کشمیر میں نافذ کیا جائے گا اور آپ کی تائید بھی ان کو حاصل ہے تو یہ دفعہ370کو ختم کرنے کا پہلا قدم ہوگا،اور اس کے بعد مشترکہ سیول کوڈ کا معاملہ آئے گا،اور سہ طلاق کا معاملہ تو عدالت میں چل ہی رہا ہے۔ انوہں نے بی جے کو بھی مشورہ دیا کہ وہ پارٹی بالادستی سے اپر اٹھ کر سونچے اور ریاست کی وحدانیت کو برقرار رکھے،کیونکہ یہ ریاست کئی جانے والی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ قانون نیشنل کانفرنس کے وقت میں لایا گیا اور سابق وزیر کزانہ با اختیار کمیٹی کے چیئرمین اور ممبر بھی تھے۔محمد شفیع اوڑی نے کہا کہ دفعہ 370 مرکز اور ریاست کے اختیارات کی واضح تقسیم کرتا ہے اور اس کا تحفظ ضروری ہے۔انوہں نے بی جے پی ممبران سے مخاطب ہوکر کہا” بہاری ریاست میں آرہے ہیں اور یہی بستے جارہے ہیں،اور کل انتخابات میں نہ ہی برہمن جیتے گا اور نہ راجپوت۔جبکہ دلتوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اوڑی نے واضح کیا کہ آئنی ضمانت نہ صرف کشمیر بلکہ ریاست کے دیگر حصوں کیلئے بھی ضروری ہے۔اس موقعہ پر کانگریس کے سنیئر لیڈر نوانگ ریگزن جورا نے اس قرار داد پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی آئین کی دفعہ12کے تحت دفعہ3اور5میں ترمیم ہو نہیں سکتی۔انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ ایسا کوئی طریقہ کار اپنائے جائے جس سے”سانپ(بھینس) بھی مرے اور لاٹھی بھ نہ ٹوٹے“۔ جوارا نے کہا کہ حکومت فنڈس کو ریاست کے احترام،تقدس اور وقار پر ترجیح دئے رہی ہے،جبکہ پی ڈٰ پی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کل تک سیلف رول مانگنے والی جماعت آج جی ایس ٹی کو لاگو کر رہی ہے۔جوارا نے کہا کہ اس قانون کو لاگو کرنے کیلئے کیوں جلد بازی کی۔کیوں جارہ ہے،جبکہ اس سے چھوٹے کاروباریوں کو نقصانات اٹھانا پرے گا۔انہوں نے کہا کہ میڈیا کو اس ایوان سے دور رکھنے کی کیوں کوشش کی گئی،یہ بات اب ہمارے سمجھ میں آئی۔انہوں نے سرکار کو مشورہ دیا کہ دفعہ5کے تحت اپنا جی ایس ٹی بنایا جائے،جس سے ریاست کی خصوصی پوزیشن پر آنچ نہ آئے۔حکمران جماعت کے آر ایس پٹھانیہ نے کہا واضح کیا کہ جی ایس ٹی لاگو کرنے سے ریاست کو نہ ہی نقصان ہوگا اور نہ ہی کچھ خسارہ۔پی ڈی ایف کے ریاستی صدر وممبراسمبلی خانصاحب حکیم محمدیاسین نے بھی جی ایس ٹی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آئین ہند کی 101ویں ترمیم ناقابل قبول ہے اور ریاست کی خصوصی پوزیشن کے دفاع کیلئے وہ کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔انہوںنے کہا کہ جی ایس ٹی کے حوالے سے خدشات جائز ہیں کیونکہ اسی طرح آج تک ریاست کی خصوصی پوزیشن کی بیخ کنی کی جاتی رہی ہے ۔نیشنل کانفرنس کے دویندر سنگھ رانا نے اپنی زوردارتقریر میں جی ایس ٹی کے نفاذ کو ریاست جموں وکشمیر کی انفرادیت پر حملہ قرار دیا ۔گوکہ انکی تقریر کے دوران ریاستی وزیر عمران رضاانصاری اور ان کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی تاہم ان کی تقریر جاری اورانہوںنے جی ایس ٹی کے حوالے سے تفصیلی طورآئینی ،انتظامی ،مالی اور دیگر امورپر بات کی اور حکومت کو باضابطہ طور پر اس حوالے سے ایک متبادل ماڈل بھی فراہم کیا۔انہوںنے کہا کہ اس حوالے سے تحفظات موجود ہیں اوروزیر خزانہ کو ان تحفظات کا ازالہ کرنا چاہئے ۔کانگریس کے جی ایم سروری نے بھی جی ایس ٹی کے نفاذ کو ریاست کی تاریخ کا سیاہ دن قراردیتے ہوئے کہا کہ قراردادتو لائی گئی لیکن بل کا کہیں نام و نشان نہیںہے اور حکومت یہ نہیں بتاپارہی ہے کہ وہ کس طرح جی ایس ٹی بھی نافذ کرے گی اورریاست کی خصوصی پوزیشن کا تحفظ بھی یقینی بنائے گی۔انہوںنے کہا کہ یہ ڈرامہ بازی ہے اور جب مرکز میں قانون بن چکا ہے تو وہاں سفارشات بھیجنے سے کیا حاصل ہوگا۔پی ڈی پی کے ممبر اسمبلی راجوری چودھری قمرنے بھی قراردادکے حق میںبولتے ہوئے کہا کہ جی ایس ٹی کے نفاذ سے خصوصی آئینی حیثیت متاثرنہ ہوگی بلکہ عوام کو راحت ملے گی تاہم اس ضمن میں آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو اس قانون کے خدو خال وضع کئے جاسکیں اورکنفیوژن کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔بی جے پی کے رویندر رینہ نے قرارداد پربحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ لڑائی جمہوریت پسندوں اور جمہوریت دشمنوںکی ہے ۔انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی عام آدمی کے حق میں ہے اور لوگ اسے کھلے دل سے قبول کریں ۔انہوںنے کہا کہ جی ایس ٹی کے حوالے سے آئینی معاملات پر لوگوں کو گمراہ کیاجارہا ہے۔