سرینگر// سینٹرل یونیورسٹی میں’’ما حولیات کا تحفظ اور مذہب کا رول‘‘ سے متعلق 2 روزہ بین لااقوامی کانفرنس کا آغازکل ہوا ۔کانفرنس میںملک اور بیرون ملک سے آئے ہوئے عالمی شہرت یافتہ عالم اور دانشورحصہ لے رہے ہیں ۔ شعبہ مطالعات مذاہب کے سربراہ پروفیسر حمید نسیم رفیع آبادی نے اپنے خطبہ استقبالیہ میںدنیا بھر میں مشہور ڈل جھیل کی عصری حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وقت پر اس جھیل کی تباہی کا سدباب نہ کیا تو آنے والی نسلیں صرف اس کا نام سنے گی ۔مفتی نذیر احمد قاسمی ،شیخ الحدیث دارالعلم رحمیہ بانڈی پورہ نے اپنے خطبے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ماحول اور اسکی حفاظت و تحفظ پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔انہوںنے کہا کہ اگر ماحولیات سے متعلق اسلام کے راہ نمااصولوں کو عملا یا جائے تو انسانیت کو درپیش خطرناک مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔امریکہ سے آ ے ہوئے ٹہمپل یونیورسٹی کے پروفیسر تسوڈلر نے اپنے طویل کلیدی خطبے میں ماحولیات کے تحفظ سے متعلق چند اہم باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈائلاگ کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا۔ بوسنیا کے مفتی اعظم مصطفی شرش نے اپنی تقریر میں کہا کہ ماحول کی گندگی دراصل انسانی روح کی گندگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔نہ ہی قدرت اور نہ ہی کوئی جانور ماحول کو گندہ کرتے ہیں بلکہ اپنے اخلاقی مر تبے سے گرے ہوئے انسان ماحول کو تباہ کر رہے ہیں ۔انہوں نے سینٹرل یونیور سٹی کے وائس چانسلر پرفیسر معراج الدین میر کو اپنی لکھی ہوئی کتاب جو انہوں نے 11جولائی 1995میں ایک دن ہلاک کئے گئے 800مسلمانوں کے بارے میں لکھی ہے پیش کی۔پروفیسر زئڈ۔ایم خان آبجیکٹوو اسٹیئڈیز دہلی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔پروفیسر محمد اسلم نے اپنی تقریر میں مفتی نذیر احمد قاسمی کی باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جہلم میں گندگی ہماری بے حسی کی داستان سنا رہی ہے۔ اس موقعے پرپرفیسر حمید نسیم رفیع آبادی ،ڈاکٹر شوکت احمد شاہ اور مقبول فیروزی کی کتابوں کو بھی اجراء کیا گیا۔سینٹرل یونیورسٹی جموں کے وائس چانسلر پروفیسر اشوک آئما نے شیخ العاالم اور لل دید کے حوالے سے ماحول کے تحفظ پر زور دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ماحول کو بچانے کے لیے لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ماحول ہمارا ہے اور ہماری زندگی کی بقا کے لیے اس کا محفوظ ہونا ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومتیں اس معاملے میں عوام سے زیادہ کام نہیں کرسکتی۔انہوں نے مشورہ دیا کہ سینٹرل یونیورسٹی کشمیرکووسیع پیمانے پر ایک سروے کرنا چاہئے اور عوامی بیداری مہم پیدا کرنی چاہئے۔اپنی اختتامی تقریر میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر معراج الدین میر نے کشمیر میں روز بروز دریا ئے جہلم ،جھیل ڈل اور چشموںکی تباہی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم بہت بڑی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں ۔انہوں نے شعبہ مطالعات مذاہب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اگر چہ شعبہ یونیورسٹی میں بالکل نیا شعبہ ہے مگر اس شعبے اور اسکے سربراہ اور انکی پوری ٹیم نے بہت کم وقت میں کئی اہم تقریبات کا انعقاد کر کے شعبے کا اور یونیورسٹی کا نام روشن کیا ہے۔ آخر میں ڈاکٹر معید الظفر اسٹنٹ پروفیسر شعبہ مطالعات مذاہب نے مہمانوں کا شکریہ اداکیا۔