میں نے جو زباں کھول دی تو اُس نے کہا چُپ
صدیوں سے چلی بات یہی کیوں میں رہا چُپ
صحرا میں مسیحا تھا ملا آہ و فغان کو
ہونٹوں کو پلائی ہے اُسی نے یہ دوا چُپ
ہے شہرِ تمنا جو مرا خون میں غلطاں
نالان ہیں بندے بخدا اُن کا خدا چُپ
تازہ ہیں محبت کے سبھی زخم نہ چھیڑو
رہنے دو ابھی چانک نہ ہوجائے قبا چُپ
موسم ہے خزاں بار، دریچے نہ کرو وا
توڑے گی فضائوں کی نئی بادِ صبا چُپ
ہر شخص کو ملتا ہے کہاں اذِن کلیمی
اپنی ہی خموشی میں رہی اپنی صدا چُپ
علی شیداؔ
نجدون نی پورہ
اسلام آباد کشمیر،9419045087