ذہن روشن نہ تھے دل کُشادہ نہ تھا
بندکمروں میں گھر کے اُجالا نہ تھا
رنگ اپنا نہ تھا ڈھنگ اپنا نہ تھا
ایک چہرہ تھا وہ بھی ہمارا نہ تھا
منظروں کا تو تھا ذکر تاریخ میں
کوئی پس منظروں کا حوالہ نہ تھا
خار تو سارے آپس میں مربوط تھے
پھول سے پھول کا کوئی رشتہ نہ تھا
متفق تھا زمانہ مرے قتل پر
قتل کرنا مگر اُس کے بس کا نہ تھا
اُن کو گُلشن جلانا تو منظور تھا
میرا گُلشن میں رہنا گوارا نہ تھا
تھا وحیدؔ اُس کے وعدوں کا ہم کو یقین
احترامِ زباں جس کا شیوا نہ تھا
وحید مسافرؔ
باغات کنی پورہ، 9419064259
رفتہ رفتہ ہر تمنا دل سے اب جانے لگی
زندگی اپنے کئے پہ، آج شرمانے لگی
جھانک کر دیکھا چمن کا آج پھر میں نے جو حال
جسم بے حس ہوگیا اور روح چلانے لگی
کیوں ہے بُلبُل بھی پشیماں اور پریشان گل بھی ہے
ہر کلی اب باغباں سے کیوں ہے گھبرانے لگی
کیا بگاڑا میں نے ہے اس آسمان کی برق کا
کیوں وہ میرے آشیاں پہ آگ برسانے لگی
میری دُکھتی رگ پہ جُوں ہی ہاتھ اس نے رکھ دیا
ہُوک سی دل میں کوئی اس کو بھی تڑپانے لگی
عمر بھر میں کر نہ پایا دوست دشمن میں تمیز
اندروں ہی فکر اوروں کی مجھے کھانے لگی
اے مجید وانی
احمد نگر، موبائل نمبر؛9697334305
ہر طرف ہر سمت ہے اب بے بسی
کس قدر اس عشق میں ٹھوکر لگی
ہر کسک ہر روگ ہے ہم کو ملا
جو نہ بھولوں گا کبھی اے زندگی
ہر وفا کا تلخیٔ ہستی صلہ
ہر جفا کا المیہ ہے عاشقی
تھی چہل قدمی برائے عاشقی
کیا ملا ہے اب سوائے بے رُخی
تھی عقیلؔ اُس کج ادا کی آرزو
دیکھ لی اُس کج ادا کی دلگی
عقیل فاروق
شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی
موبائل نمبر؛7006542670
[
وقت
ہے وقت خود انقلاب لاتا یہ کیمیائی عمل ہے اس کا
یہ کام ہو چاہئے رفتہ رفتہ کہ یہ حوادث ہوں نا گہانی
ہے وقت یہ بھی ہے کوئی زندہ، ہے وقت یہ بھی وہی ہے مُردہ
ہر ایک شے وقت ہے تابع وہ موت ہو یاہو زندگانی
ہے کوئی شاداں تو کوئی نالاں ،ہے کوئی گریاں تو کوئی خنداں
یہ ہیں سبھی گرد شاتِ دوراں، ہے وقت کی سب یہ مہربانی
کسی کا ہے اقتدار آتا، کسی کا ہے اقتدار جاتا!
عروج ہویا زوال ہو یہ تو وقت ہی کی ہے سب کہانی
کبھی ہے عزت کبھی ہے ذلت ، کبھی ہے راحت کبھی مصیبت
یہ ساری ہے وقت کی عنایت، ہے وقت کی سب یہ گُلفشانی
ہے وقت سے دن، ہے وقت رات، سال اس سے، زمانہ اس سے
ازل اسی سے، ابدا سی سے، اسی کا ہے نام جاودانی
گزرتا ہے وقت اور یہ ساتھ کرتا جاتا ہے کام اپنا
کسی کے اب اختیار میں کیا ہے ہم تو سمجھے نہ یہ کہانی
ہے وقت گھوڑے کی مثل جو دوڑتا ہے لیکن سوار غائب
قلم تو ہے لکھ رہا مگر ہاتھ گُم نہ ہے جس کی کچھ نشانی
کہا خدانے میں ہی زمانہ ہوں، پس بُرا تم اسے نہ کہنا
مشیت ِحق کا وقت مظہر ہے رازِ حق کی ہے ترجمانی
ہے اتنا انمول وقت جتنی نہیں ہے یہ کائنات ساری
جو وقت کھویا کبھی نہ پایا تو اس کی لازم ہے قدردانی
بشیر احمد بشیر ؔ ( ابن نشاطؔ) کشتواڑی
رابطہ نمبر9018487470
المیہ
جنت
تجھے جنت کہوں
کیسے کہوں۔ کیسے کہوں۔
مُرجھائے ہیں موسم ترے
بے روح سب منظر ترے
بے آس بام در ترتے۔
یہ سسکیاں۔ آہ و فغاں
ماتم زدہ سب بستیاں
پتھرائی ہیں آنکھیں یہاں
اور خون سے لتھڑی ہوئی
اور درد سے بھیگی ہوئی!
سانسیںیہاں، آہیں یہاں
با رُود ہر سُو بھر گیا
سوچوں کو اندھا کرگیا
احساس جیسے مرگیا۔
اب غم نہیں
خوشیاں نہیں
سُکھ بھی نہیں
دُکھ بھی نہیں
ترا نہیں
میرا نہیں
کوئی کسی کا بھی نہیں۔
سب کچھ کہیںپہ کھو گیا
انسان پورا سو گیا
جنت تجھے جنت کہوں
کیسے کہوں کیسے کہوں۔
کے ڈی مینی
پونچھ؛84938811999