وہ آج پہلی بار اپنے آنگن سے باہر نکلی تھی اور شہر کے پُرہجوم ماحول میںکہیں گُم ہو گئی تھی۔نئے اور انجان چہروں کو دیکھ کر وہ اور بھی سہم گئی تھی۔ گاڑی میں چڑھنے اور اُترنے والے مسافروں کو وہ حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی اور لوگ بھی اُسے کچھ اِسی انداز سے دیکھ رہے تھے، گویا کوئی نئی مخلوق ہو۔کیونکہ اسکے اپنے کالے کالے وں اور چونچ سے وہ بالکل مختلف نظر آرہی تھی۔اپنے مالک کے ہاتھوں میں سہمی سہمی ہر کسی کو دیکھ کر چیخ پڑتی تھی،مانو اُسے اپنے آنگن کی یاد آرہی ہو۔ہاں وہی آنگن جس میں وہ جب سے انڈے سے باہر آئی تھی تب سے اپنے لئے کھانا تلاش کیا کرتی تھی۔ایسا نہیں تھا کہ اُسے دانہ ڈالنے والے موجود نہ تھے بلکہ بوڑھی اماں جیسی نیک اور شفیق عورت کوہر وقت گھر میں موجود انسانوں سے زیادہ بے زبان پالتو جانوروں کی فکر لگی رہتی تھی۔جبھی سارے گھر والے اُس سے ناراض رہتے تھے۔وہ اُن کی اِس ناراضگی کی پرواہ کیے بغیر اپنے کام میں مگن رہتی تھی۔حسَن یعنی بوڑھی اماں کا بیٹاجب بھی عید یا کسی اور تہوار پر گھر میں موجود کسی جانور کو ذبح کرنے کی خواہش ظاہر کرتا تھا تو بوڑھی اماں یہ کہہ کر اُس کوروک دیتی تھی کہ اگر اِن میں سے کسی کو کچھ ہوا تو وہ زندہ نہیں رہے گی۔جب سے بوڑھی اماں بیمار رہنے لگی تب سے حسن نے بھی یہ ضد چھوڑ دی اور بوڑھی اماں کی دل بہلائی کیلئے کھبی اُس سے کہا ’’اماں مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اور بھی جانور پالنے چاہیں‘‘۔کھبی کہتا ’’ارے اماں یہ دیکھو کالی مُرغی نے تین انڈے دیئے ہیں ۔‘‘بوڑھی اماں یہ سُن کر اگر کچھ چہ بولتی تو نہ تھی لیکن اُس کی آنکھوں میں اِک عجیب سی چمک پیدا ہو جاتی تھی۔وہ دن میں کئی مرتبہ لاٹھی کے سہارے اُٹھ کر جانوروں کیلئے کھبی پانی کا انتظام کرتی تو اکبھی نہیں دانہ ڈالتی ۔لیکن آج حسن بوڑھی اماں کو بِنا بتائے اُس کی پیاری کالی مُرغی کو کسی افسر کے دسترخواں کی زینت بنانے لے گیا۔بوڑھی اماں اِس سب سے بے خبراپنے بسترِعلالت پر لیٹی ہوئی تھی۔وہاں اُس کی چہیتی مُرغی پیاس کی شدت سے تڑپ رہی تھی۔شہر کی بھیڑ میں اُس کی نظریں شاید بوڑھی اماں کو کھوج رہی تھیں اور حسن جب گاڑی سے نیچے اُترا تو مُرغی اُونچے اُونچے مکانوں میں بوڑھی اماں کے گھر کو ڈھونڈ رہی تھی۔چلتے چلتے حسن ایک عالیشان کوٹھی میں داخل ہوا اور گیٹ کیپر کو افسر کے بارے میں پوچھنے لگا۔کچھ ہی دیر بعد ایک اور آدمی ہاتھ میں چاقو لے کر رسوئی گھر سے باہر آیا اور حسن سے کہنے لگا کہ مالک ابھی ایک ضروری کام میں مصروف ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ تو جا تیرا کام ہوجائے گا۔وہاں بوڑھی اماں حسبِ معمول اپنے جانوروں کو پانی پلانے کی غرض سے اپنے بستر سے باہر آئی۔ مُرغی کو نہ پاکر اپنی بہو سے دریافت کیا۔جوںہی بہو نے اُس کو بتایا کہ کسی افسر نے حسن سے فرمائش کی تھی تبھی بوڑھی اماں وہیں گِر گئی ۔گھر والوں کی چیخ وپکارسے دیکھتے ہی دیکھتے سارا محلہ جمع ہوگیا اور بوڑھی اماں کو پانی پلانے کا جتن کرتے رہے لیکن اُس نے ایک بوند بھی اپنے حلق سے نیچے نہیں اُتاری۔اُدھر مُرغی ذبح ہونے سے پہلے بوڑھی اماں کے ہاتھوں پانی پینا چاہتی تھی مگر گلے پر چاقو چلتے ہی اُس نے ایک درد بھری چیخ ماری اور اُسکی آنکھوں سے آنسوں کے قطرے چھلکنے لگے۔ وہاں بوڑھی اماں کی روح بھی قفس عنصری سے پرواز کرگئی اور اسکی گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی اس کے ساتھ مُنہ میں موجود پانی کا ایک ایک قطرہ واپس ٹپک پڑا۔۔۔۔
رابطہ؛موبائل نمبر؛9419629933