Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں!

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: July 14, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
20 Min Read
SHARE
  لیجئے یہ ہمارے سامنے روح پرور غار ِثور ہے ۔ اس مقدس مقام کی کتابی زیارت کی تھی لیکن اب نظریںتاریخ اسلام کے اس سدابہار مر کزامتحان سے براہ ِ راست ٹکرائیںتودل کی کیفیات کا حال بنا، شاید لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا ۔ جونہی گاڑی مختصر وقفہ کے لئے یہاں پارک ہوئی ، شوق کا پنچھی غار سے بغل گیر ہونے کے لئے جھٹ سے محوپرواز ہوا۔ میں سوچنے لگا جبل ثور کی چمک دمک کا کیا حال رہاہو گا جب رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم اپنے ہمرازو دمساز یارِ غار صدیق اکبر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ اس کمیں گاہ میں امتحان ِو فا دینے گھس گئے ؟ دشمن کا تعاقب ہے ، سامنے سنگین خطرات کا اژدھا پھن پھیلائے ہے، غیر یقینیت کا عالم ہے مگر تسلیم ورضا کا پیکر اللہ کا رسول ؐ مولا کی مدد وحمایت پر غیر متزلزل ایمان کی زرہ لئے یہ جان گسل امتحانی پر چہ نہایت ہی طمانیت ِقلب سے حل کر رہے ہیں ، نہ کوئی غم کی پرچھائی نہ کوئی ڈر کاسایہ، نہ کوئی وسوسہ نہ کوئی تذبذب۔ پہاڑ کی چوٹی سے ذرا سا نیچے غار ِثور ہے ۔ اس غار تک چڑھنا ہمت طلب شغل ہے مگر شوق والے زائرین یہاںحاضری دینے میں پس وپیش نہیں کرتے۔ شوقِ دیدار کے ساتھ کوہ پیمائی کا جذبہ بھی ہو تو ڈیڑھ گھنٹے میں یہ سفر طے ہوسکتا ہے ۔ اوپر جانے کی رہ گزر سنگلاخ، ڈھلوان اور دشوار گزار ہونے کی بنا پر اکثر زائرین دور سے ہی عشق ووفا کی اس مقدس یادگار کے پتھر وںکو چومتے اور سنگ ریزوں کو آنکھوں پر ملتے ہیں۔ غارِحرا کی طرح غار ثور بھی زمانے کی دست برد سے محفوظ ہے ۔ تاریخ میں تغیر وتبدل ہو ا، موسم بدلے، زمانے کامزاج بدلا،حکومتیں بد لیں، حکمران بدلے مگر یہ دونوں مقدسات جوں کے توں اپنی اصل حالت میں محفوظ ہیں ۔ مسجد حرام سے تقریباً چار کلومیٹر جنوبی سمت میں واقع پتھروں کی اس کوٹھری کے مغرب ومشرق میں دودہانے ہیں۔ مغربی دہانے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوکر تین روز تک صدیق اکبر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ روپوش رہے۔ نصرتِ خداوندی کے زیر سایہ نبوت وصدیقیت کا یہ ملن تاریخ اسلام کے حسین ماتھے کا جھومر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نویں صدی ہجری سے لے کر تیرہویں صدی تک مغربی دہانے کی وقتاًفوقتاً توسیع ہوتی رہی جب کہ مشرقی دہانہ نسبتاً کشادہ ہے ۔ ان دونوں دروازوں کا درمیانی فاصلہ ۳ عشاریہ ۵ میٹر ہے۔
 غارِ ثور ہجرتِ مدینہ کے فیصلہ کن مر حلے کا عینی شاہد ہے ۔پیغمبراسلام ؐ اور آپ ؐکے چند گنے چنے جانثارصحابہ ؓ کے سوا مکہ کی سرزمین سے شیدایانِ اسلام۔۔۔مہاجرین ۔۔۔ رفتہ رفتہ مدینہ منتقل ہو رہے ہیں ۔ مہاجرین کی روانگی کا سلسلہ نیم خفیہ طریقے پر انجام پارہا ہے تاکہ کفاران ِ مکہ میں بوکھلاہٹ اوراشتعال کی چنگاریاں مزید شعلہ زن نہ ہوں ، انہیں بے سروسامان مکی مسلمانوں کو ستانے کا ایک اور حیلہ بہانہ ہاتھ نہ آئے۔ اُدھر مدینہ کے نو مسلم  ۔۔۔انصار۔۔۔ مہاجرین ِمکہ کی کھلی بانہوں سے آؤ بھگت کر کے ان کے تئیں محبت واپنائیت کے ایسے ایسے نادرنمونے پیش کرتے ہیں کہ مہاجرین کے قلب وذہن سے اپنے گھر بار، رشتہ و پیوند اور وطن سے دوری کاغم یکسر کافور ہوجا تا ہے۔ مسلمانان ِمدینہ کا بے لوث پیاراور سہارا پاکر مسلمانانِ مکہ اسلام کی اس دادودہش کی معجز نمائی اورایمانی برادری پر اللہ کا شکر ہی ادا نہیںکرتے بلکہ اپنے مدنی میزبانوں پر جان بھی چھڑکتے ہیں۔ کفارانِ مکہ یہ دیکھ کر جل بھن جاتے ہیں کہ جن مسلمانوں کا ہم نے مکہ میں ناک میں دم کر رکھا تھا،وہ اب آرام و اطمینان سے مدینہ کے اوس وحزرج کے لا ڈلے بن بیٹھے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بت پرستی کے نامی گرامی سرغنوں کو یہ اندازہ بھی ہونے لگتا ہے کہ ہجرتِ مدینہ ان کے لئے گھاٹے کا سود ا ہے جو دیر سویر یہ ان کی معاشی شکست وریخت پر منتج ہوگی ۔ مشرکین ِمکہ ہر چیز کو چونکہ دنیوی سورو زیاں کے ترازو میں تولنے کے عادی ہیں،اس لئے وہ یہ نوشتۂ دیوار صاف لفظوں میں پڑھ لیتے ہیں کہ مدینے کا دارالالسلام بننے کا دوسرا مطلب ہے کہ جو تجارتی شاہراہ یمن سے شام تک بحر احمر کے کنارے کنارے مکی تاجرین کی گزر گاہ ہے ، ہجرت مد ینہ کے سبب اس پرا ب مسلمانوں کی بالا دستی قائم ہونی ہے۔ وہ یہ پیش بینی بھی کر لیتے ہیں کہ نئی صورت حال کے نتیجہ میں صرف شام کے ساتھ ان کی سالانہ ڈھائی لاکھ طلائی دینار مالیت کی تجارت داؤ پر لگ جائے گی جو اس شاہراہ پر امن کی برقراری سے مشروط ہے۔ بالفاظ دیگر اب تک منکرین ِمکہ کی مسلمانانِ مکہ سے جو لڑائی بت پرستانہ عقائداور جاہلی اوہام کے دفاع میں چل رہی ہے ، نئے حالات کے پیش نظر اب اس میں معاشی مفادات بھی براہ ِ راست جڑگئے ہیں ۔یہ چیز کافروں کے لئے موت وحیات جیسی کشمکش بن چکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جو مسلمان حکم ِخداوندی سے مدینہ منوہ نقل مکانی کر تے ہیں اُن کے حاشیۂ گمان میں بھی ابتداً یہ تصور نہیں کہ مذکورہ شاہراہ کی ناکہ بندی کر کے وہ مکہ کے تاجروں کو ادلے کا بدلہ  چکادیںگے ۔ یہ چیزیں بعد میںتاریخ کی گردش میں خود بخود رونما ہوتی ہیں ۔ 
 یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آپ ؐ نے اپنے وطن ِمالوف سے جس کی محبت حرمِ کعبہ کی وجہ سے بھی آپ ؐ کے رگ وپے میں رچی بسی تھی ، کیونکر ہجرت اختیار کی؟ اس اہم فیصلے کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما تھے؟ اس کے اہداف کیا تھے ؟ علمائے قرآن و حدیث بتاتے ہیں کہ اصولی طور جہاں کہیں بھی مسلمان مکہ جیسی جان لیوا فضا میں بہ حیثیت داعی جی رہے ہوں ، وہاں سے اتما مِ حجت کی تمام شرائط پوری کر نے کے بعد ان کے لئے مخصوص حالات میں ہجرت ایک اہم دینی فریضہ بنتی ہے ۔ خالص اسلامی مہاجرت داعی ٔ حق کے لئے نصرت ِالٰہیہ (قرآنی ا صطلاح میں مراغم ِکثیرۃ) کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ نہ سمجھا جائے کہ اسلامی ہجرت میدان ِ دعوت سے فرار ، شرک و کفر کے سامنے پسپائی ، باطل وطاغوت سے خوف زدگی ، ابتلاء وآزمائش سے کنارہ کشی کا ہم معنی ہے ، قطعی نہیں، بلکہ اسلام کی خاطر نقل مکانی کی غایت ِ اولیٰ تحفظ ِایمان، بقائے ذات ، دعوت وتبلیغ کے لئے نئے چہروں کا انتخاب اور نئے امکانات کی تلاش ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی سرزمین پر کئی برس مسلسل مظلومیت ومغلوبیت کے عالم میں اپنا پیغمبرانہ مشن بتمام وکمال چلاتے رہے ۔ کار ِ نبوت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے حال یہ تھا کہ آپ ؐ کے لئے کاشانہ ٔ نبوت سے قدم باہر رکھنا خطرات سے خالی نہ تھا، نماز اداکرتے تو مردہ اونٹ کی اوجڑی سر مبارک پر ڈالی جاتی ، وعظ و نصیحت کرتے تو منکرین شور و ہنگامہ، بدکلامی، مارکٹائی ، کٹ حجتی پر اُترآ تے، اللہ کی آیات سناتے تو ابو لہب اور ابو جہل جیسے شقی القلب کافر العیاذ باللہ کاذب ، ساحر ، کاہن ، مجنون جیسے بُرے القابات سے یادکر تے ، یہ لوگ اسلام کی مخالفت و معاندت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ کے جو پچھتر خوش بخت لوگ(تہتر مرداور دو خواتین ) بیعت ِعقبہ ثانی کے وقت موسم ِحج میں دیگر حاجیوں میں گھل مل کر خفیہ طور بیعت علی الاسلام اور آپ ؐ کو ہجرت مدینہ کی دعوت دینے کے لئے مکہ تشریف لائے ،وہ اس حقیقت کا فہم وادراک رکھتے تھے ،اسی لئے دوران ِ سفر باہم دگر پوچھنے لگے کہ آخرہم کب تک رسول اللہ صلعم کو یونہی مکے کے پہاڑوںکی خاک چھانتے ، ٹھوکریں کھاتے اور تخویف و ہراسانی کے تیر سہتے تنہا چھوڑ دیں ؟ ان نازک حالات میں یہ باتیں اس حقیقت پر پر دلالت کر تیں کہ مکہ میں پیغمبر اسلامؐ کس طرح دعوت اسلامی کی راہ میں کفار کی ریشہ دوانیوں کا مردانہ وارمقابلہ کر رہے تھے۔ آپ ؐ کے ساتھ ساتھ جانثارصحابہؓ پر بھی منکرین اسلام بے تحاشہ جبر وتشدد ڈھاکر انہیں لات ومنات کی خدائیت کا اقرار کرنے پر دباؤ ڈالا جاتا۔ وہ احد احداحد کی صداؤں سے ایمان کی لاج رکھتے ہوئے نئی ایذاء رسانیوں کی کڑی سزا ئیںپا تے مگر پھر بھی ایمان و استقامت کی راہ سے رتی بھر بھی نہ ڈگمگاتے ۔ 
 اسلام مکی دور میں ناموافق اور حوصلہ شکن حالات میں اپنے جمال۔۔۔ غیر متزلزل ایمان ، صالحات، صبر وثبات اور دعوت اسلامی۔۔۔ کا بھر پور مظاہرہ کرتارہالیکن اسلام جمال کے ساتھ ساتھ کمال کا بھی نام ہے، یہ دین دائیں گال پر تھپڑ کھانے کے بعد بایاں گال پیش کر نے کی راہبانہ ادا بھی سکھاتا، یہ کوئی تخیلات یا قیاسی تھیوری کا مجموعہ بھی نہیں بلکہ یہ خداکا واحد پسندیدہ ضابطہ  ٔحیات ہے اورا سی مناسبت سے اپنے عدل اجتماعی ، مساوات ،نظم ِمملکت اور امن پسندانہ عالمی نظام کی برکات و انوارات کا نزول چاہتا ہے ۔ اس عظیم مقصد کے حصول میں مکہ کی سر زمین سے جتنے نارد ونایاب لعل وجوہر ، فقیدالمثال انسانی کردار اور خدائی خدمت گار موجود تھے، اسلام نے انہیںجاہلی سماج سے فرداًفرداً کشید کر کے اپنے سر کا تاج بنا دیا۔ اب یہاں کچھ بچا تھا تو وہ خالی بھوسے کی بوریاں تھیں، گلی سڑی بوسیدہ منفی سوچیں تھیں، بت پرستی کے بے آب و گیا صحرا تھے۔ان تینوں کو اسلام کے عطر بیز جمال سے کوئی سروکار نہیں تھا بلکہ یہ صرف دین ِ حق کے جلال سے ہی زیر ہوسکتے تھے۔ ہجرت مدینہ اسی جلال کی جانب جادہ پیمائی کی منظم خدائی منصوبہ بندی تھی۔ اس منصوبے کی تکمیل میں مکہ سے اہل ِاسلام کاہجرت کرکے مدینہ منتقل ہونا وقت کا اہم ترین تقاضا تھا ۔ا للہ نے یہ بات اَزل سے مقدر کی ہوئی تھی کہ پورے کرہ ٔارض میں مدینہ پاک میں آ پ ؐ کی قیادت وسیادت میںپہلی اسلامی ریاست تشکیل پائے جو تاقیامِ قیامت ایک ماڈل اسٹیٹ بن کر انسانی دنیا پر خدا وند قدوس کے بڑے بڑے انعامات وا کرامات کی آئینہ دار بنے ۔اس کے لئے مسلمانوں کومحکومیت کی حالت سے نکل کر حاکمیت کی مسند پر لانا لازمی تھا ، خلافت کی تاسیس ناگزیر تھی، قرآن کے دئے ہوئے رہنما خطوط پر اُمت کی شیرازہ بندی ہونی شرط اول تھی ، شریعت اسلامی کے تحت معاشرتی، اخلاقی ، سیاسی ،معاشی ، تہذیبی ، تمدنی اور عائلی قوانین کا وجودپانالازم وملزوم تھا ، عالمی امن وآشتی کے اصول و مبادی طے ہو نے تھے ، جنگ کے ضابطے ، صلح کے اصول ، معاہدات کی پاسداری سکھلانا مطلوب تھا ، انسانی بستیوں میں اخوت ا ورمحبت کی بہاریں چھا جانی تھیں ، عقائد ،رنگ ونسل، زبان و قومیت سے ماوراء میثاقِ مدینہ کی بنیاد پر ایک دولت مشترکہ معرض ِ وجود میں آناتھا۔ ان سارے جمالیاتی خصوصیات کی جلوہ نمائی کے لئے ہجرتِ مدینہ گویا خشت ِاول تھی۔
  اِدھر مشرکین ِ مکہ کے سر میں یہ سودا سماگیاہے کہ ہجرت اسلام کی برق رفتار ترقی وعروج کی ضامن اور ہمارے دنیوی تنزل کا نکتۂ آغاز ہے ۔وہ کسی بھی قیمت پر اسلام کی پیش قدمی کو روکنا چاہتے ہیں۔ابوجہل، ابو سفیان بن حرب ، نضر بن حارث سمیت سات مکی قبائل کے چیدہ چیدہ نمائندہ چہرے دارلندوہ میں اسی گتھی کو سلجھانے کے لئے جمع ہیں۔ اس موقع پر ابلیس موجودنہ ہو تو ابلیس کی یہ مجلس شوریٰ آدھی ادھوری رہے گی ۔ چنانچہ وقت مقررہ پر بزرگانہ وضع قطع رکھنے والا عبا اوڑھا ہوا ایک شخص شیخِ نجد کے نام سے ابلیس کی مجلس میںاپنی’’ خیرخواہانہ مشاورت‘‘ کیلئے آن ٹپکتا ہے ۔دشمنان ِ اسلام ا س اجنبی کو اپنے اجلاس میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ فتنہ پرور شوریٰ کا یک نکاتی ایجنڈا یہ ہے کہ اسلام کی اُڑان فضائے بسیط میں روکنے کے لئے پیغمبر اسلام ؐ سے کس طرح بہ عجلت چھٹکارا پایاجائے ، دعوت اسلامی کاروشن چراغ کیسے گل کر دیا جائے۔ ابوالاسود تجویز دیتا ہے ہم آپ ؐ کو جلا وطن کریں، سارا معاملہ اپنے آپ سدھر جائے گا بلکہ پہلی جیسی یگانگت قوم میں پیداہوگی۔ شیخ نجد مداخلت کر تا ہے : نہیں ، بخدا یہ معقول رائے نہیں ، تم لوگ دیکھتے نہیں کیا کہ اس شخص کی بات کتنی بھلی اور بول کتنے شریں ہیں ؟ جو کچھ لاتا ہے، اس کے ذریعے کس طرح لوگوں کا دل فتح کرجاتا ہے ۔ خدا کی قسم اگر تم نے ایساکیا تو کچھ بھی بعید نہیں کہ یہ عرب کے کسی دوسرے قبیلے میں نازل ہو،ا نہیں اپنا پیرو بنا ئے اور بعدازاں تم پر یورش کرکے تمہیں تمہارے ہی شہر میں روندکر تم سے جیسی اس کی مرضی ،ویسا سلوک کرے۔ کوئی متبادل تجویز سوچو۔ ابولبختری کی باری آتی ہے ، وہ مشورہ دیتا ہے: اسے لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر زندان خانے میں دکھیل دو، باہر سے دروازہ مقفل کردو اور اس کی موت کا منتظر اسی طرح رہو جیسے پہلے ہی زُہیر اور نابغہ جسیے شعراء وغیرہ کا انجام ِبد دیکھ چکے ہو ۔ شیخ نجدی اپنے ویٹو کاا ستعمال کر کے بولتا ہے، واللہ یہ رائے بھی قابل قبول نہیں۔ بالفرض اگرتم لوگ اسے قید کر تے ہیں اور یہ خبر بند دروازے سے نکل کر اس کے ساتھیوں تک پہنچتی ہے تو بعیدازامکان نہیں کہ وہ لوگ تم پر حملہ زن ہوکر اس شخص کو تمہارے چنگل سے چھڑا دیںاور اس کی مدد سے اپنی تعداد بڑھا کر تم لوگوں کو مغلوب کریں۔ کوئی اور تجویز سوجھ لو۔ دونوں تجاویز مسترد ہوئیں تو اب آخری تجویز جاہلیت کے پیشوا ور ضلالت کے رہنما ابوجہل کو سوجھتی ہے۔ اپنی ذلیل وپست سوچ کے سمندر میں ڈبکی مار کر کبر ونخوت کا یہ شاہکار بولتا ہے: اس شخص کے بارے میں میری ایک واضح رائے ہے اور میں محسوس کرتاہوں کہ ابھی تک تم میں سے کوئی اس پر نہ پہنچے۔ شرکاء بیک زبان پوچھتے ہیں : ابولحکم وہ کیا ہے ؟ ابوجہل اپنی خباثت کا کھیسا کھولتاہے: میری یہ جچی تلی رائے ہے کہ  ہم ہر ہر قبیلے سے ایک مضبوط وتوانا، عمدہ حسب ونسب والا بانکا نوجوان منتخب کرلیں، ہرایک کو تیز تلوار سے مسلح کریں، اس کے بعد یکبار پورا جتھا اس شخص پر اس طرح ٹوٹ پڑے جیسے ایک ہی آدمی نے اسے تلوار ماری ہو۔ ایسا ہونے سے ہم میں سے ہر شخص کو قتل ِعمد سے راحت ملے گی۔ قتل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس شخص کا خون سارے قبائل کے سر آئے گااور خاطر جمع رکھو اس شخص کا قبیلہ بنو عبد مناف تمام مکی قبائل سے جنگ مول نہیں سکے گا ۔ لہٰذا خوں بہا کے لین دین پر رضامندی ہوگی اور ہم دیت بھی ادا کریں گے۔ یوں بات آئی گئی ہوجائے گی۔
 یہ شیطانی تجویز سن کر شیخ ِنجد کی باچھیں کھل جاتی ہیں ، ابوجہل کی پذیرائی میں بولتا ہے : یہ ہوئی نا بات، معقول تجویز ہے جو اس بہادرجوان کو سوجھی۔ اگر کوئی تیر بہدف بات ہوسکتی ہے تو یہی ہے یہی ہے ۔
  محمد عربی صلی ا للہ علیہ وسلم کو قتل کر نے کی اس بدبختانہ تجویز پر دارلندوہ میں مکمل اتفاقِ رائے ہوتا ہے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ کے تمام شرکاء ابوجہل کے منصوبے کی مکمل حامی بھرتے ہیں اور اس مجرمانہ قرارداد پرعزم صمیم کے ساتھ عمل درآ مد کا قول وقرار کر تے ہیں ۔
( بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں، اِن شاء ا للہ)
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

یمن میں سزائے موت کا سامنا کرنے والی نمشا پریا کو بچانے کی ہر ممکن کوشش جاری، حکومت ہند کا بیان
برصغیر
جی ایم سی جموں میں جونیئر ڈاکٹروں کی ہڑتال دوسرے روز بھی جاری، طبی خدمات بری طرح متاثر
تازہ ترین
کویندر گپتا نے بطور لیفٹیننٹ گورنر لداخ حلف اٹھایا
برصغیر
ہندوستان نے ٹی آر ایف کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے امریکی فیصلے کا کیا خیر مقدم
برصغیر

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 17, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?