زندگی کا ارتقا ء نئے نئے تجربات میں مضمرہوتا ہے ۔ادب بھی زندگی کا ایک ایسا شعبہ ہے جو تجربات و مشاہدات کی فنی عکاسی کرتا ہے اور اس میں بھی نئے نئے تجربات سے نکھار آجاتا ہے۔اردو افسانہ بھی ارتقاء کی منزلیں طے کرتا ہوا جن نئی اصناف سے روشناس ہورہا ہے ‘ان میں فلیش فکشن ‘مائیکرو فکشن ‘نینو فکشن وغیرہ شامل ہیں۔اردو میں عام طور پر مختصر افسانہ اور افسانچہ پر ہی گفتگو ہوتی رہتی ہے، اس لئے فلیش فکشن ‘مائیکرو فکشن اور نینو فکشن وغیرہ کی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔دراصل مائیکرو فکشن ‘فلیش فکشن کی ایک ذیلی شاخ تصور کی جاتی ہے جوکہ ہیتی اعتبار سے ۱۰۰ سے ۳۰۰ الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے‘اگرچہ الفاظ کی تعداد میں اختلاف رائے بھی موجود ہے۔لیکن تکنیکی اور موضوعی طور پر مائیکروفکشن یا مائکروف کا دارومدار صرف الفاظ کی تعداد پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ اسلوب اور ہیت کے لحاظ سے مائکرو فکشن کاپلاٹ‘ الفاظ و معنی اور خیالات کی معنی خیزپیش کش پر استوار ہوتا ہے۔اس میں نہ تو افسانے کی طرح تمہیدی منظرنگاری کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ ہی حکایتی اسلوب کی یکسانیت کے لئے جگہ ہوتی ہے بلکہ اس کا بیانیہ تخلیقی نوعیت کا ہوتا ہے یعنی ہر جملہ اور مکالمہ تخلیقی رچاؤکا حامل ہوتا ہے۔موضوعاتی تناظر میں دیکھیں تو مائیکروف میں کسی بھی خیال یا واقعہ کو تخئیل کی بنیاد پر پیش کیا جاسکتا ہے ‘لیکن پیش کش میں صحافتی انداز یا لطیفہ گوئی کے برعکس عنوان سے لیکر پنچ لائن تک حیرت انگیز کیفیت طاری رہنی چاہئے۔اس کے ہرجملے یا مکالمے میں احساس و خیالات کا دلکش تخلیقی برتاؤموجود ہوناچاہئے۔مائکروفکشن کا متن چاہئے راست بیانیہ میں ہو یا علامتی اسلوب میں لیکن ایک کامیاب مائیکروف کی تشکیل فنی تناظر الفاظ و معنی کے تخلیقی برتائو سے ہی ہوسکتی ہے۔مائیکروف کے پلاٹ میں بیان (Description)کےبرعکس بیانیہ (Narration) کازیر نظر رہنا ضروری ہے اور پلاٹ چست ہونے کے ساتھ ساتھ کہانی میں خیالات کا ربطہ ہونا ضروری ہے۔ کہانی میں ابہامی کیفیت کا اثر بھی سود مند رہے گا لیکن حد سے زیادہ تجریدیت ترسیل کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔مجموعی طور پر مائیکروفکشن میں کہانی کے ماحول‘ تخلیقی اسلوب اور جملوں کی ساخت کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔
انگریزی ادب میں اگرچہ مائیکروفکشن پہلے سے ہی موجود ہے تاہم اسلوب اور ہیئت کے پیش نظر یہ اردو میں ایک نئے تجربے کی دلالت کرتا ہے۔اردو میں منظم طور پر مائیکروفکشن لکھنے کارجحان تقویت پارہا ہے۔ سوشل سائٹس پرمائیکروف کوعام قاری تک پہنچانے میں سید تحسین گیلانی (پاکستان)کی فکری و عملی کاوش سراہنے کے قابل ہے۔ان کی توجہ سے فیس بک کے انہماک فورم پر سیکڑوں مائکروف پیش ہوئے‘ جس میں عالمی سطح کے فکشن رائٹرس اور قارئین نہ صرف عملی طور پر دلچسپی دکھارہے ہیں بلکہ کئی رسالے اور اخبارات خصوصی طور پر مائیکروفکشن کو شائع بھی کررہے ہیں اب تو کئی تعلیمی ادراروں میں اس صنف پر تحقیق بھی ہورہی ہے۔فی الحال نمونے کے طور پر ایک مائکروفکشن پیش کرنا مفید رہے گا۔
خوف کا ڈر
گھر سے لیکر باہر تک اس کے سائے کا تعاقب ایک اور سایہ کرتا رہتا ۔کبھی کبھی اسے ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے دونوں سائے ایک دوسرے کو بھینچ رہے ہوںاوروہ سوچتارہتا کہ اس کا سایہ توکسی کے سائے سے ٹکرانا بھی پسند نہیں کرتا تو پھرکیوں اس کے سائے کو کالے سایوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اب تو دن کی چمکتی روشنی ہی کیا رات کے سکون بھرے لمحات پر بھی خوف کی یلغار ہی طاری رہتی‘جیسے نیند کی دیوی بھی کالے اور سفید دیوؤں کی دہشت سے نیند کانام تک بھول گئی ہو۔
اس کی منتشرسوچ تو یہ گتھی سلجھانے سے قاصر نظر آرہی تھی کہ گرمی کی تپش چاہئے کہیں پر بھی بڑھ جائے یا سردی سے کیوں نہ کہیں پر پانی منجمد ہوجائے تو اسی کا وجود ہی کیوںکالے اور سفید دیوؤں کی نظروں میںمشکوک موسم بن جاتا ہے اور وہ اس کے وجود کو کالا دھواں ہی سمجھنے لگتے ہیںجیسے خود ان دیوؤں کا وجود اوزون کی تہہ ہوجو صرف مضر شاعوں سے ہی محفوظ رکھتی ہو۔اب تو اس کی سانس اورسوچ بھی سینسر سے پرکھی جارہی تھیں۔اگر کبھی درد کے کراہنے سے آہ نکلنے کی بھنک بھی پڑجاتی تو میڈیا اور سوشل سائٹس پر ہاہاکار مچ اٹھتی کہ ماحول کو بگاڑنے کی سازش ہورہی ہے ۔اس گھٹن زدہ ماحول میں وہ سوچتا رہتاکہ یہ خوفناک دیو کیوں اس حقیقت سے منھ موڑ لیتے ہیں کہ دھواں اسی جگہ اٹھتا ہے جہاں پر پہلے آگ جلائی جاتی ہے‘اور جب آگ کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں تو وہ لوہے کو بھی پگھلا کر موم بنا دیتے ہیں۔
اس کا وجود کئی موسموں سے خود اسی آگ کی آنچ سے پگھلتا آرہاتھااوروہ اس آگ کو بجھانے کا احساس بھی رکھتا تھا لیکن وہ ان دیوؤں کی دہشت زدہ سوچ پر حیران تھا کہ ایک تو یہ پہلے خود ایندھن کا انتظام کرجاتے ہیںاور پھر آگ لگنے کے بعد دھویں کی گھٹن سے کھانسنے لگتے ہیں۔وہ سوچتا رہتا کہ یہ کوردماغ دیو کیوں نہیں سمجھتے ہیں کہ آگ تو آگ ہے چاہئے کوئی بھی لگائے‘تباہ تو ہر چیز کو کر جاتی ہے۔
اپنی زخمی شناخت کے کرب کا احساس اسے صرف اپنے وجود کو زندہ رکھنے کا حوصلہ دیتا رہتا ۔اسے یاد آیا کہ زخمی شیر جب شکاری کے گھیرے میں پھنس جاتا ہے تو وہ اپنے وجود کو زندہ رکھنے کے لئے شکاری پر حملہ بھی کردیتا ہے۔کالے اور سفید دیوؤں کی دہشت جاری تھی۔خوف کے سائے مسلسل رقص کررہے تھے۔کالے سایوںکے وحشت ناک رقص کودیکھتے ہی اس کے وجودمیںامید و بیم کی لہروںنے ایک انوکھا احساس جگا دیاکہ خوف جب روز دھمکی دیتا ہے تو خوف کا ڈر ختم ہوجاتا ہے۔
���
وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر193221
موبائل نمبر؛9906834877