سرینگر// وادی میں2010کی ایجی ٹیشن کے دوران جان بحق ہوئے طلاب کے والدین نے احتجاج کرتے ہوئے امرناتھ یاتریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے اپنوں سے بچھڑنے کا کرب اور درد محسوس کر سکتے ہیں۔2010 میں ایجی ٹیشن کے دوران شہر خاص کے رعناواری سے تعلق رکھنے وامق فاروق،سیدہ کدل کے طفیل متو اور صورہ کے عمر قیوم نامی کمسن طلاب کے والدین نے سنیچر کو پریس کالونی میں خاموش احتجاجی دھرنا دیا اورکہا کہ سرکار انصاف دینے میں ناکام ہوئی ہے جبکہ انہوں نے عالمی اداروں سے حصول انصاف کی دہائی کی۔جموں کشمیر میں 1989 سے ہوئے تحقیقاتی عمل اور جانچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے جاں بحق طلاب کے والدین نے کہا کہ حکومتوں کی طرف سے وقت وقت پر تحقیقاتی عمل کا اعلان لوگوں کے غصے کو سرد کرنے اور عوام کو دھوکہ دیکر مجرموں کو مکمل آزادی دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔طفیل متو کے والد محمد اشرف متو نے گزشتہ دنوں امرناتھ یاتریوں پر بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم جانتے ہیں جب اپنے لوگ بچھڑ جاتے ہیںتو کیسا محسوس ہوتا ہے۔انہوں نے کہا ’’2010 میں 120 لوگوں کو فورسز نے جان بحق کیاتاہم7سال گزر جانے کے باوجود بھی ابھی تک ان اہلکاروں کے خلاف کوئی بھی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی جو معصوموں کے قتل میں ملوث تھے‘‘۔محمد اشرف متو کہا کہ2010سے ابھی تک متاثرہ کنبے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حال ہی میں سرحدی حفاظتی فورس کے کورٹ مارشل میں کمانڈنٹ بریدی اور کانسٹبل لکھوندر سنگھ کو بھی بری کیا گیا۔محمد اشرف متو نے کہا کہ2010کی ہلاکتوں کیلئے کی تحقیقات کیلئے جسٹس(ر) کول کمیشن بھی قائم کیا گیا جنہوں نے63متاثرہ کنبوں کے بیانات کو بھی قلمبند کیا تاہم رپورٹ سونپنے کے بعد بھی متاثرہ کنبوں کو ایک بھی رپورٹ کی ایک کاپی نہیں دی گئی۔انہوںنے اقوام متحدہ بشری حقوق کمیشن سے ان واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔