جموں سرینگر شاہراہ پر بانہال سے 9کلو میٹر کے فاصلے پر ناچی نالہ کے نزدیک اتوار کی دوپہر کو سڑک کے المناک حادثہ میں امر ناتھ یاترا کیلئے کشمیر آرہے 17یاتری ہلاک جبکہ28زخمی ہوگئے ۔یاتری سٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی ایک بس میں سوار تھے جو مقامی لوگوں کے مطابق ٹائر پھٹ جانے کے نتیجہ میں سڑک سے لڑھک کر 150 فٹ گہری کھائی میں نالہ بشٹلری میں جاگری اور یوں یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا۔وزیراعظم سے لیکر پوری مرکزی قیادت اور ریاستی حکومت نے اس المناک حادثہ پر افسوس کا اظہا ر کیا جو بالکل جائز تھا۔ وزیراعظم دفتر کی جانب سے مہلوکین وزخمیوں کیلئے معائوضہ کا اعلان بھی ہوا ۔مہلوک و زخمی امرناتھ یاتری واقعی معائوضہ کے حقدار ہیں کیونکہ وہ ایک ناگہانی حادثہ کاشکار ہوئے ہیں اور انہیں حکومت کی جانب سے جتنا زیادہ معائوضہ دیا جاتا ہے ،اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے تاہم اس سارے حادثہ کے دوران اور اس کے بعد مقامی لوگوں نے جس طرح بچائو اور راحت کارروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،وہ نہ کسی مین سٹریم میڈیا کیلئے خبر بنی اور نہ ہی ارباب اقتدار و اختیار نے اُس بے لوث انسانی ہمدردی کا اعتراف کیا۔عینی شاہدین کہتے ہیں کہ اس بس حادثہ کے بعد سب سے پہلے مقامی لوگوں اور رضاکاروں نے ہی بچائو اور امدادی کارروئیاں شروع کیں اور نہ صرف زخمیوں کو گہری کھائی سے نکال کر بانہال ہسپتال پہنچایا بلکہ وہاں خون کا عطیہ دینے کیلئے بھی ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کی ۔یہ الگ معاملہ ہے کہ بانہال ہسپتال میں بلڈ بینک کی سہولت دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگ اور رضاکار زخمی یاتریوں کو خون نہ دے سکے تاہم سوشل میڈیا پر اس حادثہ سے متعلق وائرل ہوئی تصویریں اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ بانہال کے کشمیری لوگوں نے کس دیدہ دلیری کے ساتھ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر زخمی یاتریوں کو بچانے کی کوشش کی اور انہیںن گلو کوز کی بوتلیں ہاتھوں میں لیکر زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے ۔بانہال سے 8کے قریب زخمیوں کو شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ منتقل کیاگیا تھا،یہاں بھی خون کا عطیہ کرنے کیلئے مقامی نوجوانوں کی بھیڑ لگ گئی ۔ا س سے چند روز قبل جب بوٹینگو اننت ناگ میں یاتریوں پر مسلح حملہ کا واقعہ پیش آیا تو اُس وقت بھی نہ صرف ضلع ہسپتال اننت ناگ بلکہ سرینگر میں کشمیری نوجوانوں نے یاتریوں کیلئے خون کا عطیہ پیش کیا ۔کچھ برس قبل جب ڈگڈول کے نزدیک ایک یاتری بس ایسے ہی حادثہ کا شکار ہوئی تھی تو تاریخ گواہ ہے کہ اُس وقت بھی کشمیری عوام نے انسانیت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر بچائو اور راحت کاروائیوں میں حصہ لیاتھا۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کشمیری عوام نے ہمیشہ یاترا کے حوالے سے اپنے انسانی فرائض نبھائے اور ہمیشہ یاتریوں کی دلجوئی کی اور ضرورت پڑنے پر اپنا خون بھی پیش پیش رکھا تاہم بدقسمتی سے کبھی بھی کشمیریوں کے اس جذبہ ایثار کو سراہا نہیں جاتا ہے اور نہ ہی ملکی میڈیا یا ملکی قیادت اس جذبہ کا اعتراف کرتی ہے ۔بوٹینگو یاترا حملہ پر جس طرح کشمیریوں نے برہمی کا اظہار کیاتو مرکزی اکابرین کو مجبوراً کشمیری احتجاج کو اکنالج کرنا پڑا تاہم روایت یہ رہی ہے کہ ایسے معاملات میں کشمیر یوں کے جذبہ ایثار و ہمدردی کو زیر بحث لانا تو دور ،اس کا اعتراف بھی نہیں کرنا ہے جو واقعی افسوسناک ہے ۔کشمیری عوام کو منفی وجوہات کیلئے زیر بحث لانا جیسے نئے سیاسی بیانیہ کا جزو لاینفک بن چکا ہے اور اب میڈیا سے لیکر سیاسی گلیاروں میں کوئی ایسا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیاجاتا ہے جب کشمیریوں کی کردار کشی اور ان کی شبیہ بگاڑ نے کی کوشش نہ کی جاتی ہو۔سیاسی اختلافات اپنی جگہ تاہم اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ ایک قوم کو کچھ اس طرح پروجیکٹ کریں جیسے یہ ساری قوم ہی ایک مخصوص طبقہ کے خون کی پیاسی ہو اور اس قوم کی دیدہ دلیری اور جذبہ ایثار کی ایسی کہانیوں کو اس بیانیہ کا حصہ ہی نہ بننے دیں جو اس کا عظیم ورثہ رہی ہے ۔کشمیریوں کے حوالے سے منفی رائے قائم کرنے کی کوشش کرکے ملکی میڈیا وقتی طور ملکی رائے عامہ کو کشمیری عوام کے خلاف بھڑکا تو سکتا ہے لیکن ایسا کرکے وہ قطعی ملک کا بھلا نہیں کررہے ہیں اور نہ وہ سیاستدان یا حکمران ملک کی کوئی خدمت کررہے ہیں جو کشمیری عوام کو صر ف منفی انداز میں پیش کرنے میں فخر محسوس کررہے ہیں ۔امر ناتھ یاترا کے حوالے سے کشمیری عوام کا رول بھارتی رائے عامہ کیلئے چشم کشا ہونا چاہئے اور انہیں میڈیا پروپگنڈا میں آئے بغیر کشمیر کے اصلی چہرے ،جو اس پروپگنڈا سے یقینی طور بالکل مختلف ہے ،سے روبرو ہونے کیلئے وادی کی سیر کرنی چاہئے تاکہ وہ بچشم خود دیکھ سکیں کہ کشمیری عوام مہمان نواز ہی نہیں بلکہ انسانیت کے علمبردار بھی ہیں اور وہ کسی بھی طو ر کسی قوم یا طبقہ کے خلاف نہیں ہوسکتے ہیں۔حکومتی اکابرین کو بھی چاہئے کہ وہ کشمیر کے حوالے سے تعصب کی عینک اتاردیں اور اُس منفی پروپگنڈا سے باز آجائیں جو اب ان کا اوڑھنا بچھو نا بن چکا ہے جبکہ میڈیا کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کشمیر کی اصل کہانی اپنے عوام تک پہنچائیں تاکہ دوریاں مٹ سکیں اور مفاہمت کی راہیں کھل سکیں جس میں سبھی کی فلاح پنہاں ہے۔