ہوشیارباش
اکثر والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ رویہ ہتک آمیز ہوتا ہے ،بچوں کو نہایت تکلیف دہ تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے ۔ بہت سے گھروں میں تو یہ روز کا معمول ہے اور بچوں سے اس طرح کے جملے کہے جاتے ہیں۔
’’میں نے تمہارے لئے کیا کچھ نہیں کیا ‘‘۔’’جائو جو تمہارا دل چاہے کرو،اگر میں مر بھی رہا ہوں تو تمہیں کوئی پرواہ نہیں ہوگی۔‘‘’’جس طرح کا تم برتائو کرتے ہو ،کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے تو میرا خون ہی نہیں۔‘‘
’’تم بھی اپنے باپ پر ہی گئے ہو۔‘‘’’تم کوئی بھی کام ٹھیک ڈھنگ سے نہیں کرتے ہو۔‘‘’’جب تک تم اپنی ماں کی بات نہیں مانو گے کبھی کامیاب نہیں ہوگے۔‘‘
ماہرین عمرانیات جسمانی تشدد کے مسئلے پر زیدہ زور دیتے ہیں لیکن جذباتی بدسلوکی یا جذبات کو ٹھیس پہنچانا بھی اہم مسئلہ ہے۔اس طرح کا برتائو بچے کے جذبات اور اس کی شخصیت کو مجروح کرتا ہے ۔یہ ایسا تشدد ہے جو نظر نہیں آتا ۔ اس طرح کا تشدد بہت عام ہے مگر اس کے اثرات برسوں کے بعد ظاہر ہوتے ہیں۔
بہت سے والدین اپنے بچوں پر اس طرح کا ظلم مسلسل جاری رکھتے ہیں ۔اس کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں ،ایک وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ اُن کی اپنی پرورش بھی اسی طرح ہوئی ہے یا وہ خوشیوں سے محروم رہے ہیں اس لئے وہ نادانستہ طور پر بچوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھتے ہیں ۔آج کے معاشرے میں ہمارا جس طرح کا ماحول بن گیا ہے ،دوسرے لوگوں کو یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ والدین کو بتا سکیں کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کیا ظلم کررہے ہیں اور انہیں نفسیاتی طور پر کتنا شدید نقصان پہنچا رہے ہیں ۔اکثر لوگ دوسرے کے معاملات میں دخل نہیں دیتے ،اسی لئے کوئی شخص کسی بچے کے والدین کو یہ کیسے بتا سکتا ہے کہ وہ تربیت کے دوران خود اپنے بچوں کا خون چوس رہے ہیں ۔یورپ کی ایک تنظیم نے جذباتی تشدد کی تعریف اس طرح کی ہے۔’’جذباتی بد سلوکی میں وہ تمام عمل شامل ہیں جن کا والدین یا سرپرستوں کی طرف سے کرنا یا جن کا نہ کرنا کمیونٹی کی مشترکہ قدروں اور پیشہ ور ماہرین کے مطابق بچوں کی شخصیت کی تعمیر کے لئے نامناسب اور نقصان دہ ہوتا ہے ۔‘‘بچوں سے بدسلوکی میں اُن پر تنقید کرنا بھی شامل ہے،بچوں کی پرورش کے دوران منفی رد عمل میں کسی بچے کو شرمندہ کرنا یا اُس کا مذاق اُڑانا بھی شامل ہے۔اگر بچہ امتحان میں ایسی امتیازی حیثیت حاصل نہیں کرتا جیسی کہ اس کے والدین اپنی خواہش اور انا کی تسکین کے لئے چاہتے ہیں تو وہ اس پر طنز کرتے ہیں ۔بچوں پر مسلسل تنقید کبھی کبھی تو اُن کے اندر نفرت پیدا کردیتی ہے ،مگر اکثر معاملات میں اُن کے اندر احساس کم تری پیدا ہوجاتا ہے جو زندگی بھر جاری رہتا ہے اور وہ خود کو اپنے والدین کی نظر میں اہل ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔کبھی کبھی تو بچے والدین کے انتقال کے بعد بھی یہ کوشش جاری رکھتے ہیں۔
بہت سے والدین بچوں کے ساتھ اس لئے بدسلوکی کرتے ہیں کہ وہ اُن پر اپنا کنٹرول قائم رکھ سکیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ بچوں پر تنقید کرکے انہیں بے عزت کرکے اور اُن سے محبت کا سلوک ختم کرکے انہیں ایک مخصوص طرز عمل اختیار کرنے پر راغب کرسکتے ہیں۔ایسی صورت میں وہ بچوں کے ساتھ دوستانہ برتائوختم کردیتے ہیں اور گھر کے دوسرے افراد کو بھی اُن کے ساتھ بے تکلفی سے پیش آنے سے منع کردیتے ہیں تاکہ ان کی سوچ میں تبدیلی آسکے۔اگر بچوں کی جذباتی ضروریات پوری نہ کی جائیں تو انہیں سخت مایوسی ہوتی ہے۔ایسی چیزوں کے بارے میں بچوں کو مورد الزام قرار دینا جن پر اُن کا کوئی اختیار نہیں ہے اُن کی زندگی میں زہر گھول دیتا ہے ۔وہ کشمکش کا شکار رہتے ہیں ۔ گھر کا کشیدہ ماحول ،جہاںوالدین ہر وقت لڑتے رہتے ہوں اور طلاق کی دھمکیاں دیتے ہوں ،بچوں کے لئے جذباتی تشدد کا باعث بنتا ہے ۔اپنی لڑائی میں والدین بچوں کو بھی شامل کرلیتے ہیں۔ایک کہتا ہے ’’کاش میرے بچے نہ ہوتے تو میں کب کا تمہیں چھوڑ چکا ہوتا ۔‘‘دوسرا کہتا ہے کہ’’تم رکھو اپنے بچوں کو ‘‘بچے یہ سب سنتے ہیں اور سسکیاں بھرتے ہیں۔
والدین کی طرف سے سخت و سست کہنے سے بچوں پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اُس سے سبق سیکھنا چاہئے ، بچوں کی پرورش ایک مشکل کام ہے ۔اگر چہ بچوں پر تنقید انہیں درست رکھنے کا ایک طریقہ ہے مگروالدین کو پرورش کے اہم اصولوں کو نہیں بھلانا چاہئے۔بہت سے والدین اس سلسلے میں کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے ۔ اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ ہم بھی بچوں کو تکلیف پہنچا سکتے ہیں تو پھر ہم اپنی تعمیری اور تخریبی تنقیدکے درمیان فرق محسوس کرسکتے ہیں ۔والدین کو چاہئے کہ بچوں کے جذبات کا احترام کریں۔اُن میں نہ صرف عزت نفس بلکہ ذمے داری کا احساس پیدا کریں ،اعتماد پیدا کریں ،اُن میں جو اچھی باتیں ہیں اُس کا اظہار کریں ،اُنہیں یہ اختیار بھی دیں کہ وہ کچھ چیزوں میں انتخاب کرسکیں ۔آپ اُن پر جو تنقید کرتے ہیں اُنہیں اُس کی وجوہ بھی بتائیں۔
والدین کی حیثیت سے آپ کے دل میں اُن کے لئے جو محبت ہے ،اُس میں کمی نہیں کریں۔بچو ں کو یہ احساس رہے کہ آپ کی محبت ختم نہیں ہوگی ،اس سے انہیں تحفظ کا احساس ہوگا ۔یہ بات خاص طور پر ٹین ایج بچوں کے لئے ضروری ہے ۔کبھی یہ تصور نہ کریں کہ آپ کا بچہ ہر اعتبار سے مکمل ہے اور جب تک پچاس سال کی عمر نہ ہوجائے انہیں مکمل او ر میچور نہ سمجھا جائے ۔کبھی آپ بچوں کی عمر سے زیادہ اُن سے توقع نہ کریں۔ایسی صورت میں وہ نہیں سمجھ سکیں گے کہ اُن سے کیا توقع ک جارہی ہے اور جب انہیں ناکامی ہوتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ اب والدین ہم سے محبت نہیں کرتے ۔بچوں کو اپنی طرح زندگی گزارنے پر مجبور نہ کریں ۔انہیں اس ہی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش نہ کریں ۔اچھے والدین اس طرح کی خواہش سے گریز کرتے ہیں۔