حد متارکہ پر ہندوپاک افواج کے درمیان پائی جارہی کشیدگی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہوتاجارہاہے اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ شہری آبادی شدید عدم تحفظ کا شکار ہو رہی ہے۔ پچھلے چند دنوںسے حد متارکہ پر ایسے حالات ہیں جو ماضی قریب میں کبھی نہیں دیکھے گئے اور گزشتہ روز پونچھ و راجوری سیکٹروں میں اس قدر شدید فائرنگ اور گولہ باری کی گئی کہ لوگوں کیلئے 1947،1965اور1971کی جنگوں کی یادیںتازہ ہوگئیں ،جب دونوں ممالک کی افواج کی گولہ باری کی زد میں شہری آبادیاں تاخت و تاراج ہو گئی تھیں۔حد متارکہ پر ایک دوسرے کی فوجیوں چوکیوں اور کیمپوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ تو کافی عرصہ سے چلاآرہاہے لیکن شہری آبادی والے علاقوں پر گولہ باری تشویشناک ہے جس سے لوگوں میںانتہائی خوف و حراس کا ماحول پایاجانے لگاہے اور وہ ڈرے و سہمے ہوئے ہیں ۔ منگل کےدن مینڈھر کے بالاکوٹ، جھنگر نوشہرہ اور سائوجیاں سیکٹر میں پورے دن رک رک کر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رہا جو بدھ کے روز بھی نہیںتھما ۔اس دوران حد متارکہ کے قریب واقع تمام تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا تاہم اس سے پہلے کہ انتظامیہ سکولوں کو بند کرنے کا حکم جاری کرتی ،راجوری کے نوشہرہ سیکٹر میں3سکولوں میں زیر تعلیم217بچے اس وقت اپنے اپنے سکول کے کمروں میں محصور ہو گئے جب ان کا علاقہ شدید گولہ باری کی زد میں آگیا، تاہم خدا کا شکرہے کہ گولہ باری کے سائے میں محصور ان طلباء کو انتظامیہ اور پولیس کی بچائو ٹیموں نے دو گھنٹے کی تگ ودوکے بعد بحفاظت نکال لیا۔سرحد پر کشیدگی بڑھنے کے ساتھ شہری ہلاکتوں میں بھی اضافے کا خدشہ ظاہر کیاجانے لگاہے اور ہزاروں کی آبادی متاثر ہورہی ہے ۔ اگرچہ انتظامیہ کی طرف سے نوشہرہ میں راحت کیمپ قائم کئے گئے ہیں جن میں لگ بھگ پانچ ہزار افراد کو ٹھہرایابھی گیاہے جبکہ راجوری اور پونچھ کے دیگر سیکٹروں میں بھی ہنگامی حالات کی صورت میں انتظامات کئے جارہے ہیں لیکن پونچھ سے لیکر اوڑی اورکرناہ تک ایل او سی کے قریب مقیم آبادی کو ہجرت کرواکے راحت کیمپوں یا محفوظ مقامات پر منتقل نہیں کیاجاسکتاہے اور نہ ہی ساری آبادی اپنا گھر چھوڑنے کیلئے تیار ہوسکتی ہے ۔اگر ایسا ہوتاہے تو یہ ایک المیہ ہی ہوگا۔سرحد کے موجودہ حالات شہری آبادی کیلئے جان لیوا ہیں اوراگر ان میں سدھار کے بجائے مزید خرابی کاسلسلہ اسی طرح سے جاری رہاتو لوگوں کے پاس جان بچانے کے علاوہ کوئی متبادل بھی نہیں رہے گا۔اس کشیدگی سے نہ ہی تو پاکستانی فوج ہندوستان کے ایک انچ علاقے پر قبضہ جماسکی ہے اور نہ ہی بھارتی فوج بھی آگے بڑھ پائی ہے ۔حد متارکہ پر کھینچی گئی لکیر کو دونوں ممالک میںسے کوئی بھی عبور نہیں کرپایاہے اور دونوں کے پاس وہی علاقے ہیں جو دہائیوں قبل تھے ۔ جنگ و جدل اور حد متارکہ پر ہنگامی حالات پیدا کرکے لوگوں کا امن و سکون لوٹنے سے کچھ حاصل نہیںہوگا بلکہ دونوں جانب شہری ہلاکتیں ہوںگی اورلوگوں کی جائیداد یںتباہ ہونگی جس کی حمایت کرنے کیلئے کوئی تیار نہیںہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حد متارکہ پر گن گرج کے بجائے امن و سکون کی فضا قائم کی جائے اور ان مسائل کو بات چیت کے ذریعہ حل کیاجائے جن کی بدولت برصغیر کی دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کیخلاف صف آرا ہیں ۔