سیول//شمالی کوریا کی حکومت نے عوام کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کے لئے فیکٹری سے تانبے کا سامان چرانے ، جسم فروشی ، جنوبی کوریا کے ساتھ میڈیا پروگراموں کا تبادلہ کرنے اور دیگر معمولی جرائم کے لئے قصورواروں کو سرعام موت کی سزا دی ہے ۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے جاری ایک میڈیا رپورٹ میں یہ اطلاع دی گئی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق جن جگہوں پر لوگوں کو سزائیں دی گئی ہیں ان میں ندیوں کے ساحل ، اسکولوں کے میدان اور مصروف بازار شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس طرح کے معمولی جرائم کے لئے سزا دینا یہ اشارہ ہے کہ اس طرح کا حکم دینے والے شخص کی پرورش و پرداخ کس طرح کے برے ماحول میں ہوئی ہے یا پھر یہ لوگوں میں چور¸ کے واقعات اور دیگر عادت کو روکنے کے لئے خوف پیدا کرنے کے طریقے ہیں۔ تنظیم "دی ٹرانزیشنل جسٹس ورکنگ گروپ" (ٹی جے ڈبلیو جی) نے اپنی یہ رپورٹ شمالی کوریا سے فرارہونے والے ان 375 قیدیوں کے انٹرویو کی بنیاد پر تیار کی ہے جنہیں مختلف جرائم میں جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔اگرچہ شمالی کوریا نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے شہریوں کو آئین کے تحت مکمل آزادی ہے اور امریکہ دنیا میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا مجرم ہے ۔ سال 2014 میں اقوام متحدہ کے ایک کمیشن کی رپورٹ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے کئی ممالک نے اس کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں کیس لے جانے کا مشورہ دیا تھا کہ اس طرح کے جرائم انسانیت کو شرمسار کرنے والے ہیں۔کمیشن نے کہا تھا کہ بڑی جیلوں میں قیدیوں کو غیر انسانی اذیتیں دی جاتی ہیں ، انہیں بھوکا رکھا جاتا ہے اور اس طرح کی اذیتیں دی جاتی ہیں جو جرمنی میں نازی کیمپوں میں قیدیوں کو دی جاتی تھیں۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ جیلوں میں قیدیوں کو شدید اذیتیں دی جاتی ہیں تاکہ دوسرے قیدیوں کے ذہنوں میں خوف پیدا ہو سکے اور وہ فرار ہونے کے منصوبے نہ بنا سکیں۔ کھیتوں سے دھان اور مکا چرانے کے الزام میں لوگوں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ سرکاری افسران کو بدعنوانی کے الزامات، جاسوسی کے معاملات اور خفیہ اطلاعات کو دوسرے ممالک کے ساتھ اشتراک کرنے جیسے جرائم کی سزا موت ہے اور ایسے مجرموں کو گول¸ مار دی جاتی ہے ۔