س:۱- کئی صاحبان آپ سے سوال کرتے ہیں جن کا جواب ہر جمعۃ المبارک کے اخبار’’کشمیرعظمیٰ‘‘ میں آتا ہے۔مسلمان لوگ اس صفحہ کی قدر کرکے یا تو دریا میں ڈال دیں گے یا کہیں پاک جگہ مگر غیر مسلم ان کی قدرکیا جانیں ! جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بھی ان سوالات میں آتاہے ۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ غیر مسلم حضرات اور اَن پڑھ خواتین ان صفحات کی قدر نہیں کرپاتیں۔میرے خیال میں اگر اخبار کے بجائے کوئی رسالہ شائع ہوتا تو ٹھیک تھا۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟
س:۲-ایک شخص محکمہ بجلی میں بطور لائن مین ہے دوسرا پی ایچ ای میں چوکیدار ہے تیسرا شخص محکمہ ایری گیشن میں ملازم ہے ۔ یہ تینوں شخص نماز پانچ وقت پڑھتے ہیں اور خدا کا خوف بھی رکھتے ہیں مگر مہینے میں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ ڈیوٹی دیتے ہیں ۔ ان سے معلوم کیا جائے تو کہتے ہیں کہ بجلی چل رہی ہے ،پانی چل رہاہے،نہر چل رہی ہے ۔ جب کسی طرف سے کوئی شکایت آتی ہے فوراً ڈیوٹی پر جاتے ہیں ۔20یا 22دن گھربیٹھے جو وہ تنخواہ حاصل کرتے ہیں کیا وہ اُن پر حلال ہے؟
سوال:۳-ایک شخص اے ٹی سی کی تحت ایک گائوں میں لگا ہے مگر خود اس گاؤں میں رہائش پذیر نہیں ہے ۔ کہیں بازار میں خود رہائش کرتاہے ۔ تنخواہ اس کی ماہوار 3000روپے ہے۔1500روپے وہاں گائوں کے لڑکے کو تنخواہ دیتاہے وہ اس کے بجائے سکول جاتاہے ۔ جب سنتا ہے کہ کوئی آفیسر برائے معائینہ سکول جارہاہے ، کم از کم دو گھنٹے قبل وہاں پہنچ جاتاہے ۔ اس بارے میں قرآن اور سنت کا کیا حکم ہے ؟
س:۴-میں ملازم ہوں ۔ نماز پانچ وقت اداکرتا ہوں۔ روزہ بھی رکھتاہوں ، زکوٰۃ بھی ادا کرتاہوں ۔ ہر جمعہ واعظ وغیرہ سنتاہوں مگر رشوت بھی کھاتاہوں ۔ جب نوکری سے سبکدوش ہوجاتاہوں تو حج کے لئے فارم بھی بھرتا ہوں۔ کیا حرام کی اس کمائی سے حج ادا ہوگا۔
س:۵-گائوں میں کوئی گھرغریب ہوتاہے ۔ماتم داری کی صورت میں چار دن گائوں والے راشن پانی وغیرہ کا انتظام خودکرتے ہیں۔ مگر گائوں والے ہی قبرستان پر اعلان کرتے ہیں کہ ہم کوئی لین دین نہیں کرتے ،جس گھر میں ماتم ہوا ہے وہاں لوگ دُور دُورسے کم از کم 40دن تک چلتے آتے ہیں ،خودصاحب تعزیت غریب ہوتاہے۔ اب لوگ اس کی مدد کرناچاہتے ہیں ۔ اس نیت سے نہیں کہ جب ہمارے گھر کوئی مرجائے تویہ احسان ادا کرے گا۔جب یہ لوگ نقدی نہیں لیتے پھر پُرسا دینے والے جنس کی صورت میں مثلاً کھانڈ، دال اورایسی ہی چیزیں لے کرجاتے ہیں۔یہ سلسلہ شرعاً دُرست ہے کہ نہیں؟
غلام نبی کچلو
اخباری صفحات پر مسائل کا خلاصہ کرنا دینی ضرورت
جواب:۱-اخبارات میں دینی کالم اور اسلام کے متعلق مضامین لکھنے کا سلسلہ پورے عالم میں جاری ہے ، ان کالموں میں قرآن کریم کی آیات یا آیات کا ترجمہ احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا ان کا ترجمہ حضرات انبیاء کرام کے اسماء گرامی بلکہ حضرت رسول علیہ السلام کا نام مبارک اور اللہ جل شانہ کے اسماء حسنیٰ وغیرہ سب کچھ ہوتاہے ۔ اخبارات میں اشاعت دین کے لئے یہ سلسلہ قائم کرنا ایک دینی ضرورت ہے اور اس لئے پورے عالم کے علماء کے اتفاق واجماع سے یہ ہرجگہ جاری ہے البتہ آیاتِ مبارکہ کا متن نہیں بلکہ صرف ترجمہ اور آیات کا حوالہ اس طرح احادیث کا عربی متن نہیں بلکہ صرف ترجمہ اور حوالہ پر اکتفا کرنے کا اصول مقرر کیا گیا ہے ۔ اگر یہ سلسلہ بند کیا گیا تو یقیناً اشاعت دین کا ایک اہم اور وسیع ترین میدان خالی رہے گا ۔ اسی لئے یہ سلسلہ بند تو نہیں کیا جاسکتا البتہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس کا احترام کرے ۔ حضرت نبی کریم علیہ السلام غیر مسلم سلاطین کو اسلام قبول کرنے کے جودعوتی خطوط ارسال فرماتے تھے اُن میں بھی آپ نے قرآنِ کریم کی آیت تحریر کرائی تھی۔ چنانچہ قیصر روم کے نام بھیجے گئے مکتوب گرام میں آیت (پارہ نمبر۳،آیت:…) لکھی گئی ۔ملاحظہ ہو بخاری میں وحی کا بیان۔ ظاہر ہے وہاں بھی بے حرمتی کاخدشہ تھامگر آپ نے دعوتی پہلو کو ملحوظ رکھا اور آیت قرآنی درج فرمائی ۔ شاہ ِ ایران کسریٰ نے تومکتوب گرامی کے ساتھ نازیبا روّیہ برتا تھا جس کا انجام خود اس کی تباہی کی صورت میں ظاہرہوا۔ اس کی تفصیل کتب سیرت میں موجود ہے ۔
اخبارات میں قابل ِ احترام کلمات والفاظ سے پرہیز ممکن بھی نہیں اس لئے کہ اگر سیاسی ،سماجی ،اخلاقی ،تاریخی یا ادبی مضامین بھی ہوںتو اُن میں بھی مقدس کلمات آتے رہتے ہیں ۔مثلاً اس خبر پر غورکرلیں ’’سعودی عرب کے بادشاہ شاہ عبداللہ نے خانۂ کعبہ کی توسیع کی منظوری دی۔ شاہ نے پہلے کعبۃ اللہ کا طوف کیا پھر قرآن کی آیات الٰہی کی تلاوت کی پھر امام حرم محمد بن سہیل کی موجودگی میں پہلا پتھر رکھا۔‘‘۔ دیکھئے اس خبر میں اللہ ،محمد ، قرآن ، تلاوت ، طواف ، آیاتِ الٰہی جیسے قابل احترام کلمات آئے اور دنیا بھر کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی۔بہرحال اس کا لم میں حسب مسائل دینیہ کے جوابات لکھے جاتے ہیں اس میں آیات واحادیث کا متن نہیں بلکہ صرف ترجمہ شائع ہوتاہے اور ساتھ ہی نوٹ لکھاجاتاہے ۔اس صفحہ کا احترام کیا جائے۔اب جس شخص کے ہاتھ میں یہ اخبارات پہنچے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا احترام کرے اور اگر کہیں توہین پائی گئی تو ایمان کا تقاضہ یہی ہے کہ مسلمانوں کادل دُکھ جائے۔لیکن یہ تجویز دُرست نہیں کہ سرے سے ہی دینی مسائل لکھنے کا سلسلہ ہی موقوف کردیا جائے ۔
سرکاری ذمہ داریاں اور معا وضہ
جواب:۲-اگرمحکمہ کی طرف سے مفوضہ کام کے انجام دینے کے متعلق یہ حکم نہیں ہے کہ و ہ چوبیس گھٹنے یا بارہ گھنٹے موقعہ پر موجود رہیں بلکہ محکمہ کی طرف سے یہ ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ بجلی اور پانی کی سپلائی بحال رہے اور جونہی بجلی یا پانی منقطع ہوجائے تو یہ ملازم فوراً بجلی ،پانی کی بحالی کے لئے موقعہ پر حاصر ہوجائے تو اس صورت میں ملازم کا ہروقت موجود رہنا لازم نہیں ہے ۔ دراصل اس طرح ملازم کی تنخواہ کام کے عوض ہے نہ کہ کسی وقت مخصوص کے لئے چوبیس گھٹنے پانی بجلی برقراررہے اس کی تنخواہ اُن کو دی جاتی ہے ۔
جواب:۳-کسی ملازم کا اپنی ڈیوٹی کی جگہ کسی دوسرے کو بھیجنا خیانت بھی ہے دھوکہ بھی اور جیسے یہ شرعاً درست نہیں ایسے ہی اخلاقاً وقانوناً بھی درست نہیں ۔ اپنی تنخواہ کا وہ حصہ جو اُس نے ڈیوٹی دیئے بغیر اپنے لئے حلال قرار دیا ، اس کے لئے حلال نہیں اس لئے تنخواہ کام کا معاوضہ ہے جب اس نے کام کیا ہی نہیں تو معاوضہ کیسے حلال ہوگا۔بہرحال یہ حرکت شریعت کی رُو سے حرام ہے اور متعلقہ محکمہ کے قانون کی رو سے بھی جُرم ہے ۔
رشوت کا لین دین جہنم کا باعث
جواب:۴-رشوت لینا حرام ہے ۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر لعنت ہے۔ایک حدیث میں ہے رشوت لینے والا رشوت دینے والا اور رشوت کا معاملہ کرانے والا تینوں جہنم میں ہوں گے ۔
رشوت لے کر رقوم جمع کرکے کوئی حج کرے تو ہرگز وہ حج ادا نہ ہوگا۔ اگر رشوت لینے والا نماز ، روزہ کا اہتمام بھی کرے تو بھی رشوت پرملنے والی سزا سے وہ بچ نہیں سکے گا۔ اس لئے کہ رشوت خوری حقوق العباد کی خلاف ورزی ہے اور حقوق العباد نماز روزے سے معاف نہیں ہواکرتے ،رشوت کی رقم سے حج کرنے والا انسانوں کے گمان میں توحاجی بن جائے گا مگر اللہ کی نظر میں ایسا حج قابل قبول کجا ایسے پر بھی اس کا مواخذہ ہوگا۔ اس لئے کہ حرام مال سے حج کرنا خود ایک مصیبت ہے اور قابلِ جرم ہے ۔
تعزیت پُرسی کرنے والوں کو کھلانے پلانے کی ذمہ داری اہل میّت پر نہیں
جواب:۵-جب کسی کے گھر میں وفات کاحادثہ پیش آئے تو شریعت اسلامیہ نے تعزیت کرنے کا حکم دیاہے۔تعزیت کے معنی تسلی دیناہے ، غم زدہ گھرانے سے اظہارِ ہمدردی اور فوت ہونے والے فرد کے لئے دعائے مغفرت اور پسماندگان کو صبر کی تلقین کرنا تعزیت کہلاتاہے۔
اس میں کھانے پینے اور کھلانے پلانے کا کہیں کوئی تصور نہیں ہے ۔تعزیت کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ مستحق تعزیت افراد کے لئے کھلانے پلانے کا بوجھ بن کر نہ جائیں اور غیرت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ تعزیت کرنے والے بھوکا رہنا گوارہ کرلیں مگر اُن پر بار نہ ڈالیں ۔وہ ایک طرف غمزدہ دوسری طرف رواداری یا مسلط رواج کی بنا پر کھلانے پلانے کا انتظام کرنے کے لئے بادلِ خواستہ ہی سہی آمادہ ہو جاتے ہیں ۔دراصل شرعی طور پر تعزیت کے لئے آنے والے افراد کے کھانے پینے کا انتظام کرنا کسی طرح بھی اہل میت کی ذمہ داری نہیں ہے اگر کوئی تعزیت کرنے والا دُور سے آئے تو وہ مہمان نہیں ہے اس کی خود کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کھانے اور رہنے کا کسی دوسری جگہ پروگرام میں رکھے یعنی مہمان کے طور پر کسی اورشخص کے پاس جائے مگر یہاں صرف تعزیت پر اکتفا کرے۔
اگر دوسری جگہ انتظام نہ ہو سکے یا یہ تعزیت والوں کو ناگوار ہونے کا خدشہ ہو توپھر اُسی گھر میں قیام کرسکتاہے ۔ اب گھروالوں کو بھی تکلف برطرف رکھ کر آسانی سے جیسے کھانے کا انتظام ہوسکتاہو کریں۔ تعزیت والوں کا نقدی یا کوئی جنس مثلاً چاول، کھانڈ ، دالیں وغیرہ لینا اور دینے والوں کا اس ارادے سے دینا کہ کل آئندہ ہمارے گھر جب تعزیت ہوگی تو ہم کو بھی اسی طرح یہ اشیاء پیش کی جائے گی۔یہ طریقۂ کار غیر شرعی ہے ۔قرآن کریم میں ارشاد ہے : وہ احسان مت کرو جس میں مقصد اس سے بڑے احسان کو وصول کرناہو ۔(المدثر)
سوال:۱-سردیوں میں کچھ لوگ عموماً تنگ دراز ٹانگوں میں پہن کرنماز ادا کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں ۔ کچھ جواز نکالتے ہیں ؟
س:۲-کچھ مسجدوں میں متولی مسجد بغیر ٹوپی نماز پڑھنے نہیں دیتے خاص کر نوجوانوں اور بچوں کو ۔اگرچہ خود داڑھی نہیں رکھتے ، راہنمائی کریں ۔
س:۳-مولوی یا پیش امام نماز داڑھی کالے رنگ سے رنگتے ہیں ۔ کچھ اعتراض کرتے ہیں ۔ کچھ حمایت کرتے ہیں ۔
س:۴-کچھ لوگ غیرریاستی عورتوں یا لڑکیوں سے بغیر ولی کے نکاح کرتے ہیں ۔ کچھ حضرات خود کو عالم ٹھہرا کر نکاح پڑھا کر معقول رقم لیتے ہیں۔ کیا نکاح ہوگا؟ عورتوں کو اپنے شہر میں طلاق بھی نہیں ملی ہوتی ہے۔کہ یہاں نکاح باندھتے ہیں ۔ رہنمائی کریں ۔ہم نے بہت سے غیرریاستی عورتوں کو وہاں کے شوہر اور طلاق کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے یہاں سے یہ طلاق بھیجی ہے ۔ کیا یہ طلاق اور نکاح ثانی درست ہے۔ ایسے جوڑے کے ساتھ ہمسایہ یا رشتہ دا ر کیا سلوک کریں۔
ابوالمبشر علی
نماز اور تنگ لباس
جواب:۱-وہ تنگ اورچست لباس جس سے جم کے اعضاء ،خصوصاً ران اور سُرین کا حجم ،نمایاں طور پر محسوس ہو۔ اس لباس کو پہن کر نماز پڑھنامکروہ ہے ۔لہٰذا صرف دراز پہن کر یا ستھنا پہن کر جونماز پڑھی جائے وہ مکروہ ہے ۔ جس لباس کو پہن کر کسی دفتر یا کسی معزز تقریب میں نہ جاسکیں وہ لباس پہن کر نماز کیسے ادا ہوگی۔
ننگے سر نماز پڑھناخلاف سنت
جواب:۲-ننگے سر نماز پڑھنا سراسربدعت اور سنت کے خلاف ہے ۔ حضرت نبی کریم علیہ السلام نے پوری زندگی میں کبھی کوئی نماز ننگے سر نہیں پڑھائی ہے ۔ نہ حضرات صحابہ کرامؓ سے کبھی اس کا کوئی ثبوت ملتاہے کہ انہوں نے کوئی فرض نماز یا سنت ننگے سر ادا کی ہو۔ اس لئے قرآن کریم کے حکم کے مطابق نماز کی ادائیگی کے لئے زینت اختیار کیاجائے ۔سورہ اعراف آیت 31میں اس کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور زینت میں جب مسنون لباس کے مطابق ہی عمل کرنا ہوگا تو حکم قرآن پورا ہوگا۔
جواب:۳-خالص کالا رنگ استعمال حدیث کی رو سے منع ہے ۔ چنانچہ حضرت نبی کریم علیہ السلام نے کالا خضاب کرنے سے منع فرمایا ہے ۔(مسلم نسائی)۔
جواب:۴-ایسی عورت جس کے متعلق یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ مسلمان ہے یا غیر مسلم، پہلے سے منکوحہ ہے یا غیر منکوحہ ، پھر اگر پہلے کوئی نکاح تھا تو طلاق ہوئی ہے یا نہیں اور یہاں کیسے پہنچی ۔
جب تک ان تمام باتوں کی اچھی طرح تحقیق نہ ہوجائے اُس وقت نکاح کرنا مختلف غلطیوں بلکہ حرام کاریوں کا سبب بن سکتاہے ۔ لہٰذا نکاح پڑھنے والے خطیب ، گواہان اور نکاح کرنے والے مرد پر اولاً ان تمام امور کی تحقیق لازم ہے ۔
عورت طلاق دے توطلاق واقع نہیں ہوتی
جواب:۵-عورت اگر شوہرکوطلاق دے تو وہ طلاق واقع نہیں ہوتی۔اس لئے اگر کسی عورت کا اپنے علاقہ میں نکاح ہے اور وہ وہاں سے بغیر طلاق کے یہاں آئی اور پھر یہاں کسی شخص سے نکاح کیا تو وہ نکاح دُرست نہیں ۔ اور اگر عورت نے اپنے شوہر کو طلاق بھیجی ہے تو بھی نہ وہ طلاق واقع ہوئی نہ اسکا پہلا نکاح دُرست ہوا اور نہ ہی اس عورت کا یہاں کیا گیا نکاح صحیح ہے ۔ایسے مرد اور اس کے پورے خاندان اور اس احباب واقارب کو اس سے باخبر کرنا ضروری ہے ۔ ٭٭
……………
صدر مفتی دارالافتاء
دارالعلوم رحیمہ بانڈی پورہ