قرآن مجید نے اسلامی ریاست کے لیے امر بالمعروف و نہی عن لمنکر کو بنیادی فریضہ قرار دیا ہے۔ اسلامی سیاست کے بنیادوں میں سے بھی امر بالمعروف و نہی عن لمنکر کو ایک اہم ریاستی وظیفہ ٔ عمل تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا میں جو سیاسی ہلچل، بے چینی، اقتدار کی حوص اور اضطراب دیکھنے کو مل رہی ہے، طاقت ور قوموں کا کمزور قوموں پر غلبہ اختیار کر کے انہیں ظلم و جبر،بربریت، قتل و غارت گری اور استحصال کر دینا، اخلاقی قدروں کا پامال ہونا، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، عزت و آبرو کا تحفظ فراہم نہ کرنا، امن و امان جس طرح درہم برہم ہو رہا ہے، اس سب کی وجہ سے یہ احساس بہرحال عمومی سطح پر اُبھر رہا ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں کوئی بڑی خرابی ضرور واقع ہوئی ہے جس سے بدل ڈالنے کے لئے ایک منظم جدوجہد شروع کرنے کی اشد ضرورت ہیں۔اس فاسد اور فاسق نظام کے متبادل کوئی ایسا نظام تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس میں احساسِ زمے داری سے انسان لرزتا ہو، جہاں سیاست مادی مفادات کے حصول کا ذریعہ نہ ہو، جہاں خلفائے راشدین کا نمایاں کردار عیان ہو۔ اس میدان میں اگر دنیا میں موجودہ تمام مذاہب پر غور و فکر (Research)کیا جائے تو اسلام کے بغیر کوئی بھی مذہب ایک متبادل نظام پیش نہیں کر سکتا جہاںانسان کے بنیادی حقوق کی حفاظت، آزادی فکرو نظر،فتنہ فساد سے صاف ، عدل و انصاف، مساوات و بھائی چارہ، فلاح و بہبود، ترقی و خوشحالی، امن و امان، جیسے رہ نما اصولوںسے بھرا ماحول پایا جائے اور اﷲ کے رسول ﷺ کے ذریعے تشکیل دی گئی ،مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کی طرح ایک اسلامی طرز کی عادلانہ ریاست قائم ہو جہاں امیر و غریب، کمزور و ضعیف، مرد و زن،،صغیرو کبیرغرض ہرایک کے لیے انصاف کے قاضی چوبیس گھنٹے چوکنا بیٹھے ہوں، جہاں معروفات عوام الناس کے لئے ترغیبات ہوں اور منکرات اُن کے ہر مرض کی دوا ہو۔
معروفات کو عام کرنے اور منکرات سے پاک و صاف رہنے کی جدوجہد اورترغیب و ترتیب دینی تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین پر اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔‘‘(الحج ۴۱) اسلام کے نزدیک اقتدار ِ اعلیٰ (Soverignty) کا حق صرف اﷲ ذوا لجلال کی ذاتِ مقدس کو ہی حاصل ہے۔ اس لیے کہ وہی تمام مخلوقات کا مالک ہے اور وہی امر و نہی کا حق رکھتا ہے۔اس کے بتائے ہوئے احکام، دئے ہوئے دستور ، منشور اور آئین یعنی قرآنِ مجید کے مطابق ہی زمین پر موجودہ بندوں یعنی خلیفہ (Vicegerant) کو فیصلہ کرنا واجب ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’فیصلے کا سارا اختیار اﷲ کو ہے‘‘(الانعام: ۵۷) اﷲ کے قانون کے مطابق جو کوئی فیصلہ ہوگا وہ اﷲ کے یہاں قابل قبول نہیں اور فیصلہ کرنے والا خلیفہ(جج، قاضی، حاکم،امام،پنچ و سرپیچ، نمبردار و چوکیدار، استاد ، وغیرغرض جو بھی ہوگا) جرم کا مرتکب بھی قرار پائے گا۔
جنابِ سرورِ کونین خیر الانام رحمتہ اللعالمین حضرت محمد مصطفیﷺ کے دعوت و تبلیغ کے ذریعے جولوگ اُس کے دعوت کو قبول کرتے تھے،اُن کو آپؐ دین کے بنیادی اصول و احکام بتانے اور سکھانے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی تلقین فرماتے تھے کہ دین ِاسلام کی حمایت ونصرت اور اﷲ کے دوسرے بندوں کی اصلاح و ہدایت کا جوکام اور اس راہ میں جو جدوجہد آپؐ کر رہے ہیںتمہیں بھی اپنے حالات و امکانات کے مطابق اس میں آپؐ کا معاون و مددگار بننا ہوگا اور اس کام کو اپنی منصبی ذمے داری بنانا ہوگا۔ آپؐ کے اس دنیا میں رونق افروز رہنے تک اُ مت نے آپؐ کے زیرِ قیادت، زیِر ہدایت اور زیرِ احکام میں دین ِاسلام کی حمایت و نصرت کی اِس پیغمبرانہ مشن میں اپنے جان و مال سے پوری قوت کے ساتھ آپؐ کے شریک و رفیق کار ہونے کا زندہ ثبوت دیا۔ دعوتِ حق، تبلیغِ دین، تعلیم قرآن اور امر بالمعروف و نہی عن ا لمنکر کے سبھی شعبوں میں اور جہادی معرکوں میں آپؐ کے زیرِ سایہ اپنا یہ فرضِ منصبی ادا کرتے رہے۔ آپؐ کے دُنیا سے تشریف لے جانے اور اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملنے کے بعد اِس پورے پیغمبرانہ مشن کو جاری و ساری رکھنا اور اِس کے تمام شعبوں کے تقاضوں کو پورا کرنااب اِس اُ مّت کا ہی فریضہ بن گیا ہے اور اب قیامت برپا ہو جانے تک دین کی حمایت و نصرت اور امر بالمعروف و نہی عن ا لمنکر کا کام داعی اعظم ؐ، محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیؐ کی اُ مّت ہی کو آپؐ کی قائم مقام داعی بن کر داعیانہ کردار ادا کرنا ہوگا، جو پیغمبرانہ مشن اور کارِ نبوت کی نیابت ہے۔اب اُ مّتِ محمدیؐ کو یہ خاص شرف حاصل ہوا ہے کہ رسول اﷲﷺ کی نیابت میں وہ اس مقدس مشن اور منصب و ذمہ داری کو تا قیامت آنے والے انسانوں کے لیے جاری و ساری رکھیں۔ بقولِ انیس احمد خان انیسؔ ؎
خدا سے جڑ گئے ہیں آدمی سے جوڑ کرنا تھا
نہ اتنا بھی کرتے تو ہم جانے کہاں جاتے
معجزہ شق القمر بھی دعوت و تبلیغ کا ہی ایک حصّّہ تھا جس کی تاریخ یہ ہے کہ حج کے موسم میں آنحضور ﷺ اپنے محبوب و جانثار صحابہ ؓکے ساتھ رات کے وقت مکہ کے قبائل میں تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے۔ اتفاقاً ابوجہل جیسے چند رئوسائے قریش راستہ میں مل گئے وہ آپؐ کو قبائل کی طرف جاتے دیکھ کر کہنے لگے اے محمد! تم چپکے چپکے باہر کے لوگوں کو اپنے پیرو بناتے ہو لیکن ہم لوگوں کو اپنی سچائی کی کوئی نشانی دکھا کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش نہیں کرتے؟ (حالانکہ رحمت للعالمین خیرالانام ﷺ نے انہیں کب کی اپنی دعوت پیش کی تھی مگر عقل پر تالہ لگائے بیٹھے رئوسائے قریش یہ کہاں سمجھتے تھے)۔آپؐ نے ان سے جواباً فرمایا کہ تم لوگ تو میری بات ہی نہیں سنتے، ایسی حالت میںتمہیں میرے حق و صدق کا کیونکر یقین ہو سکتا ہے؟ جاہل سرداروں نے مطالبہ کیا کہ کوئی نشانِ صدق دکھائو تو ہم ضرور آپ ؐ کی دعوت کو مانیں گے۔ اس طرح کچھ سوچ کے بعد ہی ابوجہل نے چاند کی طرف اشارہ کر کے کہا، اچھا اگر تم سچے ہو تو ہمارے سامنے اس چاند کو دو ٹکڑے کر کے دکھا دو۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر ایسا ہو جائے تومجھے سچا نبی تسلیم کرو گے؟ ابوجہل اور دوسرے قریشی سرداروں نے مثبت جواب دے دیا۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ذرا آسمان کی طرف دیکھو معاً چاند دو ٹکرے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا کوہِ حرا کے مشرق کی طرف اُتر آیا اور دوسرا مغرب کی جانب ہوگیا اور ان دونوں کے بیچ میں تھا، پھر دونوں حصے اوپر کی طرف چڑھے اور آپس میں دوبارہ مل گئے۔قرآن کا ارشاد ہے:’’اور چاند شق ہوگیا۔ اور یہ لوگ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے۔‘‘(القمر:۱تا۲) اس طرح کفر کی نجاست میں لت پت، آنکھوں پر جہالت کی پٹی لگائے بیٹھے، سیاہ دل اور غبی قریشی سردار اتباعِ حق کے بجائے نبی برحق ؐ کو جھٹلاکر(العیاذ بااﷲ) ساحر کہنے لگے اور اس حق سے منہ موڑا جس سے ان کی دین و دنیا کا بھلا ہو جاتا۔
داعی ٔاعظم حضرت محمد مصطفی ﷺنے اپنی اُ مّت کو قبل ازوقت ہوشیار کر دیا کہ امر بالمعروف و نہی عن ا لمنکر کا فریضہ انجام دیتے رہو نہیں توتم تنزلی اور پستی کا شکار ہوجا ئو گے۔آج وقت کا یہی تقاضا ہے کہ اُ مت دوبارہ اپنی منصبی ذمہ داری ( امر بالمعروف و نہی عن ا لمنکر) کی طرف اپنی توجہ مبذول کرے۔اگر براہِ راست نہ سہی توکم از کم اس سے اﷲ کے دین میںداخل ہونے والوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے بلکہ اِن کا معاون و مددگار ثابت ہو جائے۔اس کے برعکس اگر ہمارا مقصدصرف دنیا بن گیا تو اﷲ ہمیں غم و پریشانیوں میں مبتلا کرے گا۔اﷲ کے آخری نبی ؐسے مروی ہے کہ جس شخص کا دنیا مقصدبن جائے، اﷲ اس کے دل پرتین چیزیں مسلط کردیتے ہیں: ایک ایسا غم جو کبھی ختم ہونے والانہ ہو اور ایسا مشغلہ جس سے فراغت نصیب نہ ہو اور ایسا فقر جس کا کبھی خاتمہ نہ ہو۔(تنبیہ الغافلین)
دین کی حمایت و نصرت بھی فرائض دینیہ میں شامل ہے لیکن نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی طرح اس کی شکل و ہیبت مقرر ومتعین نہیں کی گئی بلکہ جس طرح تعلیم دین پر چلنے، سیکھنے اور سکھانے کے لئے ضروری ہے، اسی طرح دین کی حمایت و نصرت، دین کی حفاظت اور ترویج و اشاعت بھی ضروری ہے۔ ہم سے پہلی اُمتوں میں جس طرح مدت گزر جانے کی وجہ سے جو تغیرات پیدا ہوئے اُن میں سے ایک بڑا تغیر اُن کی عبادات میں رسمیت آجانا بھی قابل ِ ذکر ہیں۔اُسی طرح حضرت نبی اکرمﷺ کی اُ مت میں بھی رفتہ رفتہ یہ غیر ضروری تغیرات پیدا ہوتے گئے ۔ آج ہم مسلمانوں کا عام حال یہ ہے کہ ہمارے پاس اعمال کا صرف ظاہری خاکہ باقی رہا ہے اور اُس کی روح نکل چکی ہے۔ بہت ہی کم وہ بندہ خدا بھی ہوں گے جن کا حال اس عمومیت سے مختلف ہو۔اس وقت اسلامی ارکان میں روح پیدا کرنے کی کوشش کی جانے کی اہم ضرورت ہے اور ان اعمال کو ظاہر و باطن کے لحاظ سے اﷲ کے آخری نبی خیر الانامﷺ کے مبارک اعمال کے منہاج پر لانے کے لیے ایک جدوجہد کی ضرورت ہے۔
نبوت کا سلسلہ ختم ہونے والے کے بعد اُمت مسلمہ کو پوری انسانیت کو فتنہ و فساد سے بچانے کا کام از روئے قرآن وحدیث تفویض ہوچکا ہے اور اسے راہِ راست دکھانے اور اپنی کوشش کے ذریعے زمین پر معروف کو فروغ دینے اور منکر کو مٹانے کا کام کرنا ہوگااور دوسری طرف خود اُمت مسلمہ کو راہِ راست پر قائم و دائم رہنے کے لیے فرمایا گیا ہے۔ گویا اُمت مسلمہ، انسایت کی اصلاح و رہنمائی پر مامور ہے اور مجددین اس اُمت کی اصلاح پر مامور ہیں۔قرآنِ کریم نے وہ آیتیں واضح طور پیش کیں جن میں دین کی مطلق حمایت و نصرت، خدمت اور جدوجہد (To support,help, service and struggle) کرنے کی بہ طورِ عمومی تاکید کی گئی ہے اور ترغیب دلائی گئی ہے ،خواہ وہ کسی طور پر اور کسی بھی شرعی شکل میں ہو۔ اﷲ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور اﷲ تعالیٰ کا قرب ڈھونڈو(یعنی ایسے اعمال کرو جن سے اس کی رضا حاصل ہو اور وزخ سے نجات ہواور وہ خاص الخاص عمل یہ ہے کہ) اس کے دین کی راہ میں جدوجہد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جائو ۔‘‘(المائدہ: ۳۵)
درحقیقت صحیح اور سیدھی راہ صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اِ س دُنیا میںحق ( یعنی دین ِاسلام) کو اپنا کر تمام زحمتوں، پریشانیوں، تکالیف اور آزمائشوں کے باوجود زندگی کی آخری سانسوں تک اسی حق کی راہ پرجما رہے۔ اگر یہ راہِ حق نہ پائی تو ناکام ہوا، اور اگرپاکر نہ اپنائی تو بھی ناکام، اور اگراپناکر درمیان میں چھوڈ دی تو پھر بھی ناکام ہو گیا۔راہِ حق کو اپنانے کے بعد ہر مسلمان زندگی کے آخری مرحلے تک پوری ثابت قدمی کے ساتھ اس کے ساتھ چمٹا رہے اور حق کے تقاضے پورے کرنے میں اپنے آپ کوتمام تر صلاحیتوں، قابلیتوں، ہنر مندیوں، دانش مندیوں، حکمتوں اور قوتوں سمیت پورا کرنے میں پیش پیش رہے،خواہ اِس کی جان چلی جائے یا اِس کے اولاد کو کوئی گزند پہنچے یا اِس کے خاندان کو کوئی تکلیف پہنچے یا اِس کا مال و دولت تباہ و برباد ہو جائے یا اِس پر کوئی ظالم حاکم مسلط ہو جائے اوراُس سے طرح طرح کے تکالیف دیں۔ اِس طرح ایمان لانے کے بعد ایمان ویقین پر ڈٹ کر رہنا (استقامت اور ثابت قدمی دکھانا) اور اس کے تقاضے پورے کرنے میں ہی دُنیاو آخرت کی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔
سورۃ الحج کی ایک اور آیت ِ مبارک میں جس کے اصل اور اولین مخاطب صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہ اجمعین ہیں، یوں ارشاد فرمایاگیا کہ: ’’جدوجہد کرو اﷲ کی راہ میں اور اس کے دین کے راستے میںجیسی جدوجہد کرنے کا اس کا حق ہے اﷲ نے تم کو (اور ا ُ متوں ) سے ممتاز فرمایا۔‘‘(الحج:۷۸) حالانکہ اﷲ رب العزت نے قرآنِ مجید کے سورۃ الصف میں بھی یہ اعلان فرمایا ہے کہ تم لوگ بھی اﷲ اور اﷲ کے آخری نبیﷺ کے دین کے لیے معاون و مددگار بن جائو جس طرح حضرت عیسیٰؑ کے حوارین ، اﷲ کے دین کے مددگارثابت ہوئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے ایمان والو! تم اﷲ کے (دین کے)مددگار ہو جائو جس طرح عیسیٰ کے حوارین نے عیسیٰ سے بولا کہ ہم اﷲ کے دین کے مددگار ہیں۔‘‘(الصف:۱۴) اﷲ کا اصول و ضوابط اور وعدہ بھی یہی ہے کہ جو کوئی اﷲکے دین کا معاون و مددگار ہوگا، حمایت و نصرت کرے گا، اﷲ اِس کے بدلے اُس کی مدد اور ایمان پر ثابت قدمی عطا فرمائے گا جس کے بعد اُس سے کسی کے مدد کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ارشاد باری ہے:’’اے ایمان والو! اگر تم اﷲ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔‘‘(محمد:۷)
سورۃ الصف کی آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان میں جس جہاد اور نصرت کی اہل ِایمان کو دعوت و ترغیب دی گئی ہے، اُس سے مراددین کی عام کوشش اور مدد مراد ہے جس سے بہترین کاروبار کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور ایسا کام کرنے والے واقعی بہترین تاجر جو بہترین سودا بیچنے والے ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں اس سے دین ِ اسلام کا پھیلائو کرنا مرادہے۔اﷲ کا ارشاد ہے: ’’’اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایک ایسا کاروبار بتادوں جو درد ناک عذاب سے نجات دلادے؟(سنو وہ یہ ہے کہ) تم ایمان لائو اﷲ اور اس کے رسولؐ پر اور اپنے جان و مال سے اﷲ کے راستے میں اور اس کے دین کے لیے جدوجہد کرو، یہ تمہارے لیے سراسر خیر ہے۔ اگر تم کو حقیقت کا علم ہو۔‘‘(الصف:۱۰ تا ۱۲)
اِ ن سب آیتوں میں اہلِ ایمان کو جہاد یا نصرت کے لفظ سے دین کی حمایت و نصرت، جدوجہد و خدمت کی جو دعوت دی گئی ہے، اس میں ہر وہ سعی و کوشش اور ہر وہ محنت و خدمت، حمایت و نصرت اور ہر وہ قربانی داخل ہے جو دین کے فروغ کے لیے اور اﷲ کے بندوں کی ہدایت و اِصلاح ا ﷲ کی خوشنودی حاصل کرنے کے غرض سے کی جائے خواہ وہ تعلیم و تربیت، دعوت و تبلیغ، ترویج و اشاعت یا اعلائے کلمتہ اﷲ کی سربلندی کی خاطر جدوجہد کی شکل میں ہو۔ اب جن آیتوں میںخدمت ِدین کے خاص خاص شعبوں کے لیے تاکید یا ترغیب دلائی گئی ہے، وہ سورۃ آلِ عمران کی آیت مبارکہ ہے جس میں یوں ارشاد فرمایا گیا کہ:’’ضروری ہے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو لوگوں کو خیر کی طرف بلایا کریں، نیکی کے لیے لوگوں سے کہے اور برائی سے روکے، اور یہ کام کرنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔‘‘(آل عمران:۱۰۴)
یہاں پیغمبرانہ مشن پوری اُ مت کے ذمے نہیں ہے بلکہ اس کے ایک خاص طبقے اور خاص گروہ کو یہ کام انجام دینا ہے اور وہی طبقہ اس کے لیے ذمہ دار ہے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ جوشخص امر بالمعروف و نہی عن ا لمنکر پر قادر ہویعنی قرائن سے غالب گمان رکھتا ہو کہ اگر میںامر و نہی کروں گا تو مجھ کو کوئی ضرر معتد بہ لاحق نہ ہوگا اس کے لیے امور واجبہ میں امر و نہی کرنا واجب ہے اور امور مستحبہ میں مستحب۔اِسی طرح دوسری آیت میں اس اُ مت کے ظہور کی غرض و غایت ہی یہ بتائی گئی ہے کہ اس کو ایمان با اﷲ کے ساتھ امر بالمعروف ونہی عن لمنکر اور لوگوں کی اصلاح و ہدایت کی خدمت انجام دیناہے یہ خطاب تمام اُ مت محمدؐیہ کو عام ہے،۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ تم لوگ اچھی جماعت ہو کہ وہ جماعت لوگوں (اصلاح و ہدایت )کے لیے ظہور میں لائی گئی ہے، تمہارا کام یہ ہے کہ نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو، اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘(آل عمران:۱۱۰)
ان آیتوں کی رُو سے اس مقدس مشن کی انجام دہی کی ذمہ داری تو پوری اُ مت کی ہے، لیکن اس مشن کے کاموں کی خاص نوعیت ایسی ہے کہ ان کی انجام دہی کے لیے اکثر حالات میںاُ مت کے ہر فرد کا ان میں لگنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ ان کاموں کی اہلیت اور صلاحیت رکھنے والے لوگ بہ قدر کفایت اگر ان کاموں میں لگ جائیں اور باقی افراد اُ مت کی تائید اور تعاون دے تو بھی کام پورا ہو جاتا ہے یعنی داعی کے ساتھ مدعو ہونا بھی ضروری ہیں ۔ ارشاد ہے: ’’ آپ اپنے رب کی راہ (یعنی دین )کی طرف علم کی باتوں اور اچھی نصیحتوں کے ذریعہ سے بلائیے اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بحث کیجئے۔‘‘(النحل:۱۲۵)
اس مقدس کام کو اس درجہ فرضیت حاصل ہے کہ اس سے غفلت برتنے اور ترک کرنے کی وجہ سے ہی بنی اسرائیل کا قوم قابلِ لعنت ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ اُمت مسلمہ کو بھی یہ آگاہی دی گئی کہ اگر یہ اُمت بھی وہی غفلت برتنے لگی تو بنی اسرائیل کی طرح یہ بھی ا ﷲ کی رحمت و نصرت سے محروم اور عذاب کی مستحق ہو جائے گی۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم امر بالمعروف اور نہی عن ا لمنکر کا فریضہ ادا کرتے رہو، اور اگر ایسا نہیں کروگے تو ضرور ایسا ہو گا کہ اﷲ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیجے، پھر تم(اس عذاب سے نجات کے لیے) اُس سے دعا کرو گے، اور تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔‘(جامع الترمذی) اس حدیث کا اشارہ مذکورہ درج بالا تحریر کردہ آیات مبارکہ کے مفہوم کی طرف ہی ہے۔ بقول علامہ اقبال ؒ ؎
اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم ِاذاں، لا اِ لہ الا اﷲ
قرآنِ کریم کے اعلان کے مطابق اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے نزدیک سب سے اچھی بات اس بندے کی ہے جو ایمان اور عملِ صالح کا ذاتی سرمایہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اﷲ کے دوسرے بندوں کو بھی اس کی طرف بلاتا ہو اور ان کی اصلاح کی کوشش کرتا ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور اس سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے جو لوگوں کو اﷲ کی طرف بلا ئے اور خود بھی نیک عمل کرے اور کہے کہ میں فرمان برداروں میں سے ہوں۔‘‘(حٰم السجدۃ:۳۳) اُ مت مسلمہ کی اسی ذمے داری کو داعی اعظمﷺ نے اپنے ایک مختصر اور جامع قولِ مبارک میں اس طرح بیان فرمایاکہ:’تم میں سے ہر ایک اپنے حلقے کا نگران ہے اور ہر ایک اپنے زیر نگرانی حلقے کی بابت اﷲ کے سامنے جواب دہی کرنا ہے۔‘(صیح البخاری)
پیغمبر آخر الزمانؐ کے بعد اُمت مسلمہ پر صرف تبلیغ کی ذمے داری ہے، رہی ہدایت تو وہ صرف اﷲ جل مجدہٗ کے ذمے ہیں، وہ جس سے چاہتا ہے، ہدایت بخشتا ہے۔ یہاں اپنا فرض ادا کرنا ہے اور لوگوں کا کام ہے کہ حق بات کو قبول کریں یا رد کریں، اس چیز کی پریشانی مول لینا داعی کا کام نہیںکیوں کہ اگر لوگ ان کی قدر نہ کریں، اﷲ اور رسولؐ کی بات نہ سنئے یا انہیں برُابھلا کہیں تو اس کا خمیازہ خود اُنہی کو بھگتنا ہوگا، داعی بری الذمہ ہے۔ارشاد ہے’’ان کی ہدایت تمہارے ذمہ نہیں ہے،بلکہ اﷲ جس سے چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے۔‘‘(البقرہ:۲۷۲)
ایک دن داعی اعظمﷺنے اپنے خطبہ میں اﷲ کی تمہید و تعریف کے بعدمدنیہ کے کچھ قبیلوں کو بھی امر بالمعروف و نہی عن ا لمنکر کا فریضہ انجام دینے کی طرف تاکید اً ارشاد فرمایا:’’بعض دوسرے گروہوں اور قبیلوں کا یہ کیا حال ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں میں دین کی سمجھ اور اس کا شعور پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور نہ وہ ان کو تعلیم دیتے ہیں، اور نہ نصیحتیں کرتے ہیں، اور امر با لمعروف و نہی عن لمنکر کا فرض بھی وہ نہیں کرتے اور بعض گروہوں کا یہ کیا حال ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے دین کا علم اور اس کا فہم و شعور حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے، اور نہ وہ ان سے نصیحتیں لینے کے لیے جاتے ہیں۔ اﷲ کی قسم! ہر گروہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کی تعلیم کا اہتمام کرے، اور ان میں دین کی سمجھ پیدا کرنے کی کوشش کرے، اور ان کو وعظ و نصیحت کیا کرے، اور بری باتوں سے ان کو روکا کرے، اور اچھی باتوں کے لیے ان سے کہا کرے اور اسی طرح ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے علم رکھنے والے پڑوسیوں سے علم حا صل کیا کریں، اور نصیحت کیا کریں، اور دین کو سمجھنے کی کوشش کیا کریںاور اگر کسی گروہ نے اپنے اس فریضے کی ادائیگی میں غفلت اور کوتاہی کی، تو میں ان کو جلدی سزا دلوائوں گا،‘‘(المعجم الکبیرللطبرانی)
اس طرح درج بالا آیات مبارکہ اور احادیث سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ دین اسلام کی حمایت و نصرت اور جدوجہد کرنے کے لیے اس اُ مت پر کتنی عظیم اور مقدس ذمے داری سونپی گئی ہے ۔ اﷲ اور اس کے آخری رسولؐ کی طرف سے کتنی سخت تاکید فرمائی گئی ہے کہ اس سے کبھی بھی غفلت نہ برتنا ورنہ رحمتِ الٰہی سے محروم ہو جائو گے، کیونکہ اس مشن کو انجام دینے والوں کا بہت ہی اونچامقام و مرتبہ ہے اور اس مشن کو انجام دینے کے بدولت ہی معاشرے سے تمام برائیاں دور کی جاسکتی ہے اور ہر طرف امن وامان کا گہوارہ ہوگا، فسق و فجور اور فتنہ و فساد برپا نہیں ہوگا، اخوت و محبت ، حق و صداقت، ایثار و ہمدردی کا بول بالا ہوگا، عدل و انصاف ہوگا، کوئی ظالم اور مظلوم نہیں ہوگا، کسی کا مال و جان نہیں لٹا یا جائے گا، کسی کی عزت و آبرو پامال نہیں ہوگی، کسی بچے کو یتیم اور کسی عورت کو بیوہ نہیں بنایا جائے گا، کسی مرد کو لاپتہ اور کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا، حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں بنایا جائے گا، اور سرِ راہ کسی انسان کے حقوق کو پامال نہیں کیا جائے گا ، یہاں تک کہ فیر مسلموں کو اقلیت یا اکشریت میں ہوتے ہوئے بھی اپنے حقوق دئے جائیں گے۔ قرآن ہمارا دستور ہوگا،اسلام ہمارا منشور ہوگا ، نبی اکرم ﷺ ہمارا رہبر و رہنما ہوگا،اور امر با لمعروف و نہی عن المنکر ہمارا مشن ہوگا۔اﷲ ہم سب کو دین ِحق کے داعی بنا کر تمام عالم میں اسلام کا بول بالا فرمائے ۔ آمین
رابطہ : ہاری پاری گام ترال
9858109109
ای میل [email protected]