جموں//ریاستی حکومت نے مورخہ 19 جون 2017کوآرڈرنمبر333 کے تحت کشمیری، ڈوگری اور بودھی زبانوں کودسویں جماعت تک لازمی مضمون کے طورپرتعلیمی نصاب میں شامل کیاجس کے بعد سکھوں، گوجروں اورپہاڑی لوگوں نے بالترتیب پنجابی، گوجری اورپہاڑی کوتعلیمی نصاب سے باہررکھنے کے خلاف مظاہرے شروع کیے اورمذکورہ زبانوں کوفوری طورپرتعلیمی نصاب میں شامل کرنے کی مانگ بڑے پیمانے پر بلندہوئی ۔ بعدازاں ریاستی وزیراعلیٰ نے سرینگرمیں مورخہ 12 جولائی 2017 کومنعقدہ ہائرایجوکیشن کونسل کی چوتھی میٹنگ کے دوران پہاڑی اورگوجری کونظراندازکرتے ہوئے سکھوں کی مانگ کوپوراکرتے ہوئے پنجابی زبان کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کی افسران کوہدایات جاری کیں جس پر گوجراورپہاڑی عوام حکومت کے جانبدارانہ فیصلے پرآگ بگولہ ہوگئے ۔حکومتی کے غیردانشمندانہ فیصلے سے نالاں گوجروں اورپہاڑی لوگوں نے جموں،راجوری اورپونچھ اضلاع میں حکومت کے خلاف شدیدمظاہرے کرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کامنصفانہ استعما ل کرتے ہوئے راجوری پونچھ کے قانون سازوں پربھی چوطرفہ نشانے سادھے گئے۔اخبارات بالخصوص کشمیرعظمیٰ میں اس حوالے سے یکے بعددیگرے رپورٹوں جن میں گوجربکروال اور پہاڑی طبقوں سے تعلق رکھنے والے کابینہ وزراء اورممبران اسمبلی کوشدیدہدف ملامت بیایاگیا اورا ن پرعوام کی نمائندگی کاحق اداکرنے میں ناکام رہنے کاالزام عائد کیاگیا اوریہاں تک کہاگیاکہ محبوبہ مفتی کی کابینہ میں شامل دووزراء اس زیادتی کیلئے نہ صرف ذمہ دار ہیں بلکہ وہ کارہائے نمایاں کیلئے مبارکبادکے مستحق بھی ہیں ۔ اخبارات کی رپورٹ کے ذریعے قلمی مارنے راجوری پونچھ کے ممبران اسمبلی نیزدیگر سیاستدانوں کی نیندحرام کردیںجس کانتیجہ یہ نکلاکہ گوجری اورپہاڑی زبانوں کے تئیں سنجیدہ فکررکھنے والے ممبران اسمبلی بشمول ایم ایل اے مینڈھرجاویدرانا، ایم ایل اے راجوری قمرچوہدری ، ایم ایل اے سرنکوٹ چوہدری محمداکرم، ایم ایل اے پونچھ شاہ محمدتانترے اپنے تئیں عائد عوامی نمائندگی کے فرض کی ادائیگی کیلئے آمادہ ہوگئے اورانہوں نے اخبارات میں نہ صرف اپنے موقف کوشائع کروایابلکہ گذشتہ روز رکن اسمبلی مینڈھر جاویدراناکی قیادت میں ایم ایل اے راجوری قمرچوہدری اور ایم ایل اے گول گلاب گڑھ چوہدری ممتازخان اوردیگر سماجی کارکنان پرمشتمل وفدنے ریاستی چیف سیکریٹری بی وی ویاس اوروزیرتعلیم الطاف بخاری کوآرڈرنمبر333 کے تحت گوجری اورپہاڑی زبانوں کے ساتھ کی گئی زیادتی سے دونوں طبقوں کے لوگوں میں حکومت کے خلاف پیداہوئی شدیدناراضگی اورغم وغصے کی لہرسے متعلق جانکاری دی۔ اس موقعہ پرجاویدرانا اور دیگرممبران اسمبلی نے حکومت کے آرڈرنمبر 333 کے تحت گوجری اور پہاڑی زبانوں کے ساتھ شدیدزیادتی قراردیا اور حکومت سے مذکورہ آرڈرنمبرمیں فوری طورپرترمیم کرکے گوجری اورپہاڑی زبانوں کوتعلیمی نصاب میں شامل کرنے کاپرزورمطالبہ کیااورساتھ میں انتباہ بھی دیاکہ اگرحکومت نے گوجراورپہاڑی عوام کی جائزمانگ پوری نہ کی تو وہ ریاست گیراحتجاجی مہم چھیڑیں گے۔قابل ذکربات ہے کہ ابھی تک راجوری پونچھ کے بہت سے قانون سازگوجری اورپہاڑی زبانوں کے ساتھ ہوئے امتیازی سلوک پرخاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اوران کی زبانوں پر لگے تالے جوں کے توں ہیں اوروہ اپنی زبان کھولنے کانام نہیں لے رہے ہیں ۔وہ کھلے طورپر حکومت کی سرزنش کرنے سے کترارہے ہیں ۔غوروفکرکامقام ہے کہ اگروہ حکومت کے پہاڑی اورگوجری کے ساتھ امتیاز پرخاموش ہیں تواس کامطلب صاف ہوجاتاہے کہ وہ حکومت کے گوجری اورپہاڑی زبانوں کوتعلیمی نصاب سے باہررکھنے پرمطمئن ہیں اوراندرون خانہ حکومت کی پیٹھ تھپھپارہے ہیں ۔راجوری پونچھ کے قانون سازوں کوسمجھ لیناچاہیئے کہ عوام طاقت کاسرچشمہ ہوتی ہے اوران کی خاموشی سے عوام بالکل باخبرہے اوران کے اس بے وقت کی خاموشی کاجواب آنے والے وقت میں دیں گے اوران کااحتساب کریں گے ۔کیونکہ یہ پبلک ہے یہ سب جانتی ہے یہ پرانے زمانے کی فلم کے ایک گانے کے بول ہیں ۔راجوری پونچھ کے سنجیدہ فکرلوگوں کاکہناہے کہ گوجری اورپہاڑی زبانوں کوتعلیمی نصاب سے باہررکھنا گوجروں اورپہاڑیوں کی امیر ثقافت کواہمیت نہ دے کرختم کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہاکہ ابھینوتھیٹرجموں میں منعقدہ دوروزہ گوجری اورپہاڑی کانفرنسوں میں حکومت کے ترجمانوں یعنی وزراء نے بہ بانگ دہل اعلان کئے تھے کہ وہ علاقائی زبانوں کی ترویج کیلئے اقدامات اٹھائے گی لیکن کیاترویج کی جارہی ہے یہ عوام کی سمجھ سے بالاترہے۔