سرینگر+سوپور//مشترکہ مزاحمتی قیادت کی طرف سے جمعہ کو مبینہ زیادتیوں، قتل و غارت گری ، مار دھاڑ ، پکڑ دھکڑ اور حقوق انسانی کی سنگین پامالیوں کے خلاف دی گئی ہڑتال اور سونہ وار میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصر کے دفتر چلو کی کال کے پیش نظر شہر سرینگر کو سیل کیا گیا جبکہ پوری وادی میں ہوکا عالم رہا۔اس دوران مرکزی جامع مسجد سرینگر میں تیسرے جمعہ کو بھی نماز نہیں ادا کی جاسکی۔نماز جمعہ کے بعد کئی علاقوں میں جلوس نکالے گئے جس کے دوران محمد یاسین ملک کو حراست میں لیا گیاجبکہ سوپور میں جھڑپیں ہوئیں۔
ناکہ بندی
انتظامیہ اور پولیس نے ایک روز قبل ہی کمر کستے ہوئے سرینگر کے پائین شہر اور سیول لائنز کو حفاظتی حصار میں تبدیل کیا تھا۔جمعرات شام سے ہی سونہ وار میں قائم اقوام متحدہ کے فوجی مبصر دفتر کو گھیرے میں لیتے ہوئے شاہراہ کو بھی یک طرفہ ٹریفک کیلئے بند کیا گیا جبکہ ڈلگیٹ اور سونہ وار میں بھی سڑک پر خار دار تار بچھا کر سڑک کو بند کیا گیا۔جمعہ کو بھی اسی طرح کی صورتحال جاری رہی جس کے پیش نظرا قوام متحدہ کے فوجی مبصر دفتر کی طرف کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ مذکورہ دفتر کے متصل پہاڑی پر بھی فورسز اور پولیس کو تعینات کیا گیا۔ ناکہ بندی اور بندشوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ’یو این ائو‘ آفس کے نزدیک حضرت سید یعقوبؒ صاحب کے آستان عالیہ کی مسجد میں بھی نماز محدود کی گئی۔ڈلگیٹ، گپکار ، سونہ وار اور ٹی آر سی کے نزدیک بلٹ پروف گاڑیاں کھڑی کی گئیں تھیں جبکہ فوجی مبصرین کے دفتر کی طرف کسی بھی عام شہری کو جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ لالچوک میں ریذیڈنسی روڑکے ایک حصے کو گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے بند رکھا گیا تھا۔ اس دوران لالچوک سمیت پورے سیول لائنز علاقہ کو سیل رکھنے کے ساتھ ساتھ سخت سیکورٹی حصار میں رکھا گیا جبکہ گھنٹہ گھر اور اسکی نزدیکی گلیوں،ریگل چوک،آبی گذر،کورٹ روڑ کی تار بندی کر دی گئی تھی۔ جگہ جگہ تار بندی اور دیگر بندشوں کی وجہ سے لالچوک سمیت پور ا سیول لائنز علاقہ سکوت کے عالم میں رہا ۔ ایسی ہی صورتحال ریذیڈنسی روڑ پر بھی نظر آئی جس کو ریڈیو کشمیر اور پولو ویو کراسنگ پر گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے بند کردیا گیا تھا۔ لالچوک کو حفاظتی حصار میں رکھا گیا تھا اور گھنٹہ گھر کی طرف جانے والی تمام راستوں کو خار دار تاروں سے بند کیا گیا تھا۔لالچوک اور متصل علاقوں میں فورسز اور پولیس اہلکاروں کو چپے چپے پر تعینات کیا گیا تھا جبکہ تمام گلیوں کوچوں اور راستوں کو بند رکھا گیا تھا۔ سخت ترین ناکہ بندی کی وجہ سے لالچوک میں دکانیں بندی تھی جبکہ مولاناآزاد روڑ پر اکا دکا نجی اور مسافر گاڑیاں چل رہیں تھی۔ اس دوران حساس علاقے مائسمہ کی بھی تمام گلیوں اور کوچوں پر تار بندی کی گئی تھی اور اندرون علاقے میں فورسز اور پولیس کا گشت جاری رہا۔ پائین شہر میں ہو کا عالم تھا اور حساس علاقوں میں اضافی فورسز اور پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔انتظامیہ اور پولیس نے جمعرات کو ہی8پولیس تھانوں،رام منشی باغ ،خانیار،نوہٹہ،مہاراج گنج،رعناواری،کرالہ کھڈ، مائسمہ اور صفاکدل میں سختی کے ساتھ بندشیں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان بندشوں اور قدغنوں کی وجہ سے شہر سیل تھا جبکہ حساس علاقوں کی تار بندی کی گئی تھی۔پورا نالہ مار روڑ سنسان پڑا ہوا نظر آیا ۔ پائین شہر کے نوہٹہ، گوجوارہ، حول، خواجہ بازار، رانگر اسٹاپ، بابہ ڈیم اور دیگر علاقوں کے لوگوں نے بتایا کہ اْن کے علاقوں میں تعینات سیکورٹی فورس اہلکار انہیں اپنے گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔اس دوران پائین شہر اور سیول لائنزکے صفاکدل ،سکہ ڈافر، نواب بازار، نوہٹہ ، جمالٹہ، خانیار، رعناواری، راجوری کدل ، علمگری بازار، لالبازار، حول ،بہوری کدل ، مہاراج گنج کے علاوہ سیول لائنز کے مائسمہ ،حبہ کدل، زالڈگر، بسنت باغ، گائو کدل،، ، درگاہ، صورہ، زونی مر، اور شہید گنج سمیت کم وبیش تمام علاقوں میں سڑکوں پر فورسز اور پولیس کا پہرہ بٹھا دیا گیا تھا۔ ممکنہ احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر مائسمہ میں صبح سے ہی سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے گئے تھے حساس علاقوں میں پولیس اور سی آر پی ایف اہلکاروں کو تمام ضروری ساز و سامان سے لیس کرتے ہوئے تعینات کر دیا گیا تھا۔ احتجاجی مظاہروں اور اقوام متحدہ فوجی مبصرین کے دفتر تک مارچ میں شامل ہونے کی مناسب سے سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق،شبیر احمد شاہ،محمد اشرف صحرائی کی خانہ نظر بند ی جاری رہی جبکہ گزشتہ روز ہی درجنوں مزاحمتی کارکنوں جن میں امتیاز حیدر،حکیم عبدالرشید، عمر عادل بھی شامل ہے، کو خانہ و تھانہ نظر بند رکھا گیا تھا۔اس دوران مزاحمتی جماعتوں کی طرف سے دی گئی ہرتال کال کے پیش نظر وادی کے جنوب و شمال میں ہو کا عالم رہا۔وادی کے اطراف و اکناف میںدکانیں،بازار،تجارتی و کاروباری مراکز کے علاوہ اسکول اور تعلیمی ادارے بھی بند رہیں جبکہ سرکاری دفاتر میں ملازمین کی حاضری بھی متاثر ہوئی۔ لال چوک ،ریگل چوک ،کوکر بازار ،آبی گذر ،کورٹ روڈ ،بڈشاہ چوک ،ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ ،مہاراجہ بازار ،بٹہ مالو اور دیگر اہم بازاروں میں تمام دکانیں اور کاروباری ادارے مقفل رہے اور ٹرانسپورٹ سروس معطل رہی۔ شہرمیں ہڑتال کے سخت ترین اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پٹری فروشوں نے بھی جمعہ کو شہر میں اپنی دکانیں نہیں سجائی تھی۔ جنوبی اور شمالی کشمیر میں بھی مزاحمتی جماعتوںکی طرف سے دی گئی ہڑتال کے پیش نظر عام زندگی معطل ہوکر رہ گئی جبکہ کاروباری سرگرمیاں ٹھپ پڑ گئیں۔پلوامہ، شوپیان، کوگام، اننت ناگ،بڈگام، گاندربل، بانڈی پورہ، بارہمولہ اور کپوارہ اضلاع میں ہر قسم کی آمد و رفت معطل رہی اور تمام کاروباری و تجارتی سرگرمیاں بند رہیں۔عازم جان کے مطابق اجس، حاجن، نائدکھے، صدر کوٹ بالا ،کلوسہ، وٹہ پورہ ،آلوسہ، اشٹنگو ،کہنو سہ بانڈی پورہ میں نماز جمعہ کے بعد اگرچہ کوئی احتجاج نہیں ہوا البتہ ہڑتال جاری رہی ۔
ملک گرفتار
مشترکہ مزاحمتی قیادت کی کال پر لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک بچھوارہ ڈلگیٹ کی جامع مسجد سے بعد از نماز جمعہ نمودار ہوئے اور اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے دفتر کی پیش قدمی کرنے کی کوشش کی۔ ملک کے ہمراہ فرنٹ کے کئی دیگر اراکین بھی موجود تھے۔تاہم پولیس نے انکی کوشش ناکام بناتے ہوئے ملک کو کئی ساتھیوں سمیت حراست میں لیا۔تاہم ملک نے اس سے قبل مسجد کے باہر اور مرکزی چوک میں لوگوں سے خطاب کیا۔
سوپور میں جھڑپیں
سوپور قصبے کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد چند نوجوان جمع ہوئے اور بھارت مخالف اور آزادی کے حق میں نعرہ بازی کرنے لگے۔نامہ نگار غلام محمد کے مطابق مظاہرین نے خشت باری اور ٹیر گیس شلنگ کے درمیان مین چوک سوپور کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی تاہم وہاں موجود فورسز اہلکاروں نے انہیں جاننے سے روکنے کیلئے ٹیرگیس شلنگ کی جس کے نتیجے میں وہاں مظاہرین اور فورسز اہلکاروں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جو رات دیر گئے تک جاری تھا۔