سرینگر//حریت (گ)چیئرمین سید علی گیلانی نے کہا ہے کہ پنڈت ہمارے سماج کا ایک حصہ ہیں اور کشمیر میں کوئی بھی فردِ بشر ان کی واپسی اور بعض آبادکاری کا مخالف نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہزاروں پنڈتوں نے تحریک کے دوران ہجرت نہیں کی اور وہ آج بھی یہاں امن وسکون کے ساتھ مقیم ہیں اور مسلمان ہمسائیے ان کے دُکھ سُکھ اور غم و خوشی میں برابر کے شریک ہوتے ہیں اور جب کسی کی موت واقع ہوتی ہے تو اُس کی آخری رسومات میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ پنڈتوں کے ایک وفد نے گیلانی کے ساتھ ان کی رہائش گاہ واقع حیدرپورہ پر ملاقات کی اور ان کی خیروعافیت پوچھنے کے علاوہ پنڈتوں کی وادی واپسی کے حوالے سے تبادلہ خیالات کیا۔ کشمیری رہنما نے وفد کو بتایا کہ ہمارا پہلے دن سے یہ اسٹینڈرہا ہے کہ تمام مہاجر پنڈتوں کو واپس آکر اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اُسی طرح سے رہنا بسنا چاہیے، جس طرح وہ صدیوں سے رہتے آئے ہیں۔ کسی پنڈت بھائی نے اپنی پُشتنی زمین وجائیداد اور مکان کو بیچا ہے تو حکومت اس کی بعض آبادکاری میں بھرپور مدد کرے اور اس کو نئے سرے سے بسانے میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔ مسلمان ہمسائیے بھی اس سلسلے میں اپنے پنڈت بھائیوں کو ہر ممکن تعاون فراہم کریں اور وہ انہیں کسی قسم کی پریشانی لاحق نہ ہونے دیں۔ گیلانی نے البتہ کہا کہ ہم پنڈت بھائیوں کو سماج سے الگ تھلگ کرانے اور کشمیریوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرانے کے روادار نہیں ہیں، لہٰذا ہم ان کے لیے الگ کالونیاں تعمیر کرانے پر اعتراض اٹھاتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر میں جو تحریک جاری ہے، وہ کوئی ہندو مسلم مناقشہ نہیں ہے اور اُس کا فرقہ واریت کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ پنڈت لیڈروں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ہزاروں پنڈتوں نے کوئی ہجرت نہیں کی اور انہیں آج بھی کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے علاقے کے بارے میں اعدادوشمار کی روشنی میں بتایا کہ آج بھی نُنر گاندربل میں 5، منیگام یں 3، لار میں 6، تولہ مولہ میں 4، واکورہ گاندربل میں 4، اگلر میں 6، اجس میں 3، واہی بگ میں 12اور زیون میں 18پنڈت گھرانے سکونت پذیر ہیں اور یہ کُل تعداد ساڑھے تین ہزار کو بھی تجاوز کرتی ہے۔