واشنگٹن//جموں وکشمیر کوغیر مستقل مزاجی کے بطور بیان کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے امریکا نے ایک مرتبہ واضح کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اُنکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ واشنگٹن میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کشمیر پر مذاکرات کیلئے رفتار، دائرہ کاراور کردار کا تعین کریں۔واشنگٹن میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر کو بیان کرنے میں امریکا نے مستقل مزاجی کا مظاہرہ نہیں کیا ،تاہم کشمیر کے حوالے سے امریکا کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر امریکا کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جبکہ ہم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہماری پالیسی کشمیر کے معاملے میں واضح ہے کہ دونوں ممالک کشمیر پر مذاکرات کیلئے رفتار، دائرہ کاراور کردار کا تعین کریں اور ہم بھارت اور پاکستان کے درمیان خوشگوار رشتے پیدا کرنے کیلئے متمنی ہیں۔ان کا کہناتھا کہ کشمیر کے مسئلے پر بات کو شروع کرنا بھارت اور پاکستان دونوں کی ذمے داری ہے، کشمیر کے مسئلے پر مثبت پیش رفت ہوگی تو حوصلہ افزائی کریں گے۔امریکا کی جانب سے یہ رد عمل ایسے میں وقت میں جب اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان سے پوچھا گیا امریکا نے جموں وکشمیر کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے اور کشمیر پر امریکا کی کیا پالیسی ہے؟۔یاد رہے کہ حال میں امریکا نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے جموں وکشمیر کو بھارتی زیر انتظام خطہ قرار دیا تھا لیکن اس ہفتے امریکا نے جموں وکشمیر کو بھارتی ریاست کہا ۔جون میں امریکا نے حزب سپریمو اور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین کو عالمی شدت پسند قرار دیا تھا ۔اس سے قبل بھی امریکا کے کشمیر پر کئی بیان سامنے آئے ،جن میں سے ایک بیان میںسابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے کہا تھاکہ کشمیر کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ، کشمیر کے مسئلے پر بات کو شروع کرنا بھارت اور پاکستان دونوں کی ذمے داری ہے، کشمیر کے مسئلے پر مثبت پیش رفت ہوگی تو حوصلہ افزائی کریں گے ۔مارک ٹونر کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں خطے کے کے اہم ملک ہیں اور امریکا دونوں ممالک میں بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ کشمیر پر امریکا کا تازہ بیان ایسے وقت میں جب بھارت اور چین اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کافی سر حدی کشیدگی پائی جاتی ہے ۔گزشتہ دنوں چین نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی جسے بھارت نے مسترد کیا ۔سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے چین یا امریکہ سے مدد مانگنے کا مشورہ دیا ہے۔ا±نہوں نے کہا ہے کہ اس معاملے کو لیکر کسی کی ثالثی حاصل کرکے اسے حل کردیا جانا چاہئے۔ دلی میںنامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اپنے مخصوص انداز میں مرکزی سرکار کو مشورہ دیا کہ اسے تنازعہ کشمیر کے حل کےلئے کسی تیسرے ملک کی خدمات حاصل کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں بھارت کے ایسے کئی دوست ممالک ہیں جن سے مسئلہ کشمیر کے حل کےلئے بھارت اور پاکستان کے مابین درمیانہ دار کا رول ادا کرنے کےلئے مدد لی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا تھا’آپ کب تک انتظار کرینگے؟کبھی کبھی آپ کوسخت فیصلے لینا پڑتے ہیں۔مذاکرات ہی راستہ ہے۔ہندوستان کے ساری دنیا میں بہت سارے اتحادی ہیں،انسے ثالثی کیلئے کہا جاسکتا ہے۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے خود کہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتے ہیں جبکہ چین نے بھی کہا ہے کہ وہ اس مسئلے میں ثالثی کرنا چاہتا ہے۔کسی نہ کسی سے تو مدد لینا ہی ہوگی‘۔