نئی دہلی// وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے آج کہا کہ بیرون ملک کالا دھن رکھنے والے اس کو سفید بنا کر ملک میں لانے کے لئے روایتی طور پر فرضی کمپنیوں کا استعمال کرتے رہے ہیں اور جتنی جلداس طریقہ کار کو ختم کیا جائے گا اتنی ہی جلدی معیشت صاف ستھری ہو جائے گی۔مسٹر جیٹلی نے آج یہاں ساتویں دہلی اکانامکس کنکلیو میں یہ بات کہی۔ انہوں نے کہا، "کالا دھن کو سفید بنانے کا سب سے آسان ذریعہ فرضی کمپنیاں تھیں۔ کاروباری اور سیاسی افراداس کا یکساں طور پر اس کا استعمال کر رہے تھے ۔ اس میں کئی کمپنیوں سے ہوکر پیسہ بالآخر حقیقی مالک کے پاس سفید دولت کے طور پر پہنچ جاتا تھا جو اس کے بعد اس رقم سے سرمایہ کاری کرتا تھا۔ جتنی جلد یہ نظام ختم ہو جائے گا اتنی جلدی معیشت صاف ستھری ہو جائے گی۔ "وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ تین سال میں ایک ایک کر کے تین بڑی تبدیلیوں کے ذریعے بڑی حد تک اس پر لگام لگانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ سب سے پہلے اس نے کالا دھن (غیر اعلانیہ غیر ملکی آمدنی اور اثاثہ) اور ٹیکسیشن ایکٹ، 2015 لاگو کیا جس سے لوگوں کے لئے بیرون ملک کالا دھن رکھنا مشکل ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے دوالیہ سے متعلق قانون بنایا جس سے بڑے امیر طبقوں کے لئے بینکوں سے قرض لے کرہضم کر جانا ممکن نہیں ہوگا۔ تیسرے مرحلے کے تحت کومت نے نوٹ بند¸ کی جس میں متوازی معیشت ختم ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ بند¸ سے پہلے ٹیکس چوری اور متوازی معیشت ملک میں عام بات ہو گئی تھی۔ اس میں اہم تبدیلی کے لئے حکومت نے قدم اٹھائے ہیں جس کے طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے ۔ سنگاپور کے نائب وزیر اعظم تھرمن شان موگارتنم نے گڈس اینڈ سروس ٹیکس(جی ایس ٹی)،یونیفائیڈ پیمنٹس انٹرفیس (یوپ¸ آئی) اور اقتصادی ثقافت میں ہندوستان میں آئی تبدیلیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہے ، لیکن انفراسٹرکچر کے میدان میں سرمایہ کاری کم ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی معیشت کے سامنے بھی دیگر ممالک جیسے ہی چیلنجز ہیں، لیکن یہاں کے چیلنجز زیادہ پیچیدہ ہیں۔مسٹر شان موگارتنم نے تین اہم نکات پر زور دیا جن پر کام کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شہروں کی انتظامیہ کو زیادہ مقامی بنانا چاہیے اور سب کے لئے یکساں مواقع پیدا کئے جانے چاہیے ۔ ملک میں ریاستوں کی بجائے شہروں کی سطح پر باہمی مقابلہ جاتی ذہنیت کو فروغ دینے کی وکالت کرتے ہوئے صرف اقتصادی شمولیت ہی کافی نہیں ہے بلکہ سماجی شمولیت بھی ہونی چاہیے ۔