بھدرواہ//بھدرواہ میں کیلاڑ سڑک پچھلے 15برس سے تشنہ تکمیل ہے ، پردھان منتری گرام سڑک یوجنا PMGSYکے تحت تعمیر کی جانے والی لودھر بین ۔کھوروا اور بیرو بستی سے ڈوگلی کیلئے16کلو میٹرطویل یہ وادی چناب کی پہلی ایسی سڑک ہے جس کی تعمیر پی ایم جی ایس وائی کے تحت16سال قبل شروع کی گئی تھی لیکن یہ سڑک ابھی تک15 ہزارنفوس پر مشتمل آبادی کے لئے ہنوز ایک خواب ہی ہے۔مجوزہ سڑک خوبصور ت وادی کیلاڑ ،جسے عام طور سے خطہ چناب کی شالی کی کٹوری بھی کہا جاتا ہے ،کی 4 پنچایتوںکی آبادی کو جوڑنے کا ایک اہم رابطہ ہے ،جسے پی ایم جی ایس وائی نے2002میں در دست لیا گیا تھا۔ اس کی تکمیل کیلئے18 ماہ کی مدت مقرر کی گئی تھی لیکن 15برسوں کا طویل عرصہ ختم ہونے کے بعد بھی اس سڑک پر تارکول بچھانے کا کام ابھی تک شروع نہیں کیا گیا ہے جسکی وجہ سے عام لوگوں خصوصاً طلبا و طالبات او رزراعت سے منسلک افراد کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بھدرواہ کے کیلاڑ علاقہ کے 4 پنچایتوں بشمول ملوٹھی، گھجوٹ اور کھیلانی کو جوڑنے والی اس سڑک کی خستہ حالی سے لوگوں کے صحت پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے۔اس علاقہ کے مکینوں اور تاجروں نے 15کلو میٹر کی پی ایم جی ایس وائی سڑک کی دیکھ ریکھ کرنے میں ناکام رہنے پر حُکام کی نکتہ چینی کی ہے۔اس سڑک پر ایسے گڑھے بن گئے ہیں جن میں کافی پانی جمع رہتا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ملوٹھی ۔کھوروا اور کھیلانی ۔ڈگلی سڑک ایک مچھلی تالاب ہے نہ کہ کوئی سڑک ہے۔کافی عرصہ سے سڑک کی خستہ حالی سے ٹرانسپورٹر بھی اس سڑک پر گاڑی چلانے سے منع کرتے ہیں،نتیجتاً عام لوگوں خاص طور سے طلبا کو کافی پریشانیاں ہوتی ہیں۔پنچایت گھجوٹ کے یک بزرگ شہری کرتار سنگھ نے کشمیر اعظمیٰ کو بتایا کہ علاقہ کے لوگوں نے سڑک کا معاملہ مقامی ایم ایل اے کے ساتھ بھی اُٹھایا تھا ،جس پر جگہ جگہ گڑھوں کی زینت بنی ہے ،لیکن ہماری درخواستوں کا اُن پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ سیاست دان ہمیں کھلونوں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔الیکشن کے دوران وہ جھوٹے وعدے کرکے ہمیں بیوقوف بناتے ہیں،اسکے بعد چھ برسوں تک وہ حلقہ کی طرف نظر بھی نہیں دیتے ہیں۔بھدرواہ بھالہ کے کیلار علاقہ کے لئے بارشیں رحمت ہوتی ہیں خصوصاً زرعی شعبہ کے لئے لیکن مسافروں کیلئے یہ ایک تباہی ہوتی ہے کیونکہ بارشوں کے پانی سے پہلے ہی خستہ ہوئی سڑک کا بُر احال ہو جاتا ہے اور ان سڑکوں سے کیچڑ میں سے چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں اس سڑک پر پیدل چلنے والوں کو گاڑیوں کے چلنے سے بھی پریشانی ہوتی ہے کیونکہ کیچڑ کا پانی انکے کپڑوں پر آتا ہے۔بھالہ کے ایک ڈرائیور نذیر حُسین نے کہا کہ مقامی باشندہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اکثر و بیثتر اس سڑک پر مجبوراً چلنا پڑتا ہے لیکن بارشوں کے موسم میں گاڑیوں کو کیچڑ میں سے چلانا ہمیں کافی مہنگا پڑتا ہے اور ہمیں کمائی کے بجائے نُقصان ہو جاتا ہے کیونکہ ہمیں گاڑیوں کی دیکھ ریکھ کے لئے دوگنا رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔یو پی ایس گجھوٹ میں تعینات ایک سرکاری استاد طارق حُسین نے کہا کہ سڑک کی خستہ حالی سے طلبا کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی پریشانیاں اُٹھانی پڑتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سڑک کی خستہ حالی اس سے عیاں ہے کہ میں بھالہ سے موٹر بائیک پر 8:30 بجے سکول کے لئے روانہ ہوتا ہوں لیکن میری بائیک ملوٹھی کے نزدیک کیچڑ میں پھنس جاتی ہے جسکی وجہ سے مُجھے سکول کے پانچ کلو میٹروں کی دوری طے کرنے میں کافی وقت لگتا ہے اور میں کبھی بھی11:30 بجے سے قبل سکول نہیں پہنچتا ہوں۔بارشوں کے موسم میں یہی حال دیگر طلبا و سٹاف کا بھی ہوتا ہے۔سڑک خستہ ہونے کی وجہ سے ا س سڑک پر ٹریفک کی کوئی سہولیت نہیں ہے۔ پھول بانی کرنے والے گجھوٹ کے ایک شہری نے کہا کہ سڑک کی یہ حالت عرصہ دراز سے ہے اور پی ایم جی ایس وائی کے اہلکار اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے ہیں،تاکہ اس سڑک پر تار کول بچھایا جائے جس سے عام لوگوں کو فائدہ ہو۔اُس نے کہا کہ سڑک کی خستہ حالی سے ہم زمانہ قدیم کے بے گھر لوگوں کی جیسی زندگی گُذارنے پر مجبور ہیں۔جب چیف انجینئر پی ایم جی ایس وائی ست پال منہاس سے سا بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مقامی باشندہ ہونے کی وجہ سے میں اس سے بخوبی واقف ہوں لیکن مسلہ ہے کہ یہ سڑک پی ایم جی ایس وائی سکیم کے مرحلہ8 کے تحت آتی ہے جس کے تحت ریٹ 2012 سے قبل منظور کئے گئے ہیں۔اور تب سے مزدوری اور میٹیریل کے قیمتوںمیں کافی اضافہ ہونے کی وجہ سے اس سڑک پر کوئی بھی ٹھیکہ دار کام کرنے کو تیار نہیں ہے ،حالانکہ ہم نے اس کے لئے16مرتبہ ٹینڈر اجرا کئے۔انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے مو جودہ ریاستی سرکار نے ا پنے وسائل سے اضافی لاگت ادا کرنے سے اتفاق کیا ہے اور اسکے ساتھ ہی ہم نے اپنے ٹھیکہ داروں کو متحرک کیا ہے ا ور توقع ہے کہ اس سڑک پر تار کول بچھانے کا کام ایک ماہ کے اندر اندر شروع ہو جائے گا۔