کیا پُرکیف سماں اور روح پرور مناظر ہیں کہ دنیا کے ہر گوشے سے اقبال مندانِ ازلی گروہ در گروہ کعبتہ اللہ کے گرد پروانہ وار جمع ہورہے ہیں ، مشتاقانِ دید پورے شوق وانہماک کے ساتھ ارض القرآن میں جوق درجوق وارد ہورہے ہیں، اللہ کے اس مبارک گھر کی زیارت و طواف اور سعی کے لئے اور لبیک کی صداؤں کیلئے وہ دیوانہ وارچلے آرہے ہیں ۔ یہ سلسلہ کعبتہ اللہ کی تاسیں سے قیام قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔کون سا اہل ِ ایمان ہوگا جس کا دِل اس خواہش کو لے کر بے قرار نہیں کہ کم از کم زندگی میں ایک بار حج بیت اللہ کی سعادت اُسے حاصل ہو۔یہ تمنا دِل میں لئے اَن گنت لوگ سفر آخرت پر روانہ ہوئے اور بے شمار خوش نصیبوں کی یہ مراد حین حیات میں بر آئی ۔اس مقدس گھر کے جوار میں صرف ہزاروں برس سے جاری زم زم ہی تشنہ کامانِ حق کی پیاس نہیں بجھا رہا ہے بلکہ ازلی و ابدی ہدایت کا سرچشمۂ نور بھی یہاں متلاشیانِ حق کو فیض یاب و سیراب کررہا ہے۔ارشادِ ربانی ہے۔’’بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لئے تعمیر ہوئی ہے، وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے ،اس کو برکت دی گئی اور تمام جہانوں کے لئے مرکز ہدایت بنایا گیا ،اس میںکھلی نشانیاں ہیں‘‘۔ان آیات میں اطاعت وبندگی ،وفاداری و جاں نثاری کے وہ نقش ونگار ہیں جو رُشد و ہدایت کے امام ِالناس سیدنا ابراہیم ؑ نے یہاں کے درودیوار میں ثبت کئے اور اس مقدس گھر کی تعمیر جس پیغمبرانہ جلال اور موحدانہ خلوص سے عظیم باپ اور سعادت مند فرزند( سیدنا اسمعٰیلؑ) نے کی ،اُسے اس حد تک بارگاہ الہٰیہ میں شرف ِ قبولیت حاصل ہوا کہ جب تک آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہو ،راہ رواں حق ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہر خطہ زمین سے کھینچ کھینچ کے یہاں آکے مستانہ وار کعبے کے گرد گھومنے اور طواف کرنے کا لذیذ عمل جاری رکھیں گے ۔بیت اللہ ۔۔۔ہاں مرکز امن و امان ،جو بھی اس میں داخل ہوا محفوظ و مامون ہوا (آل عمران)
یہ بات قرآن مجید میں الم نشرح ہے کہ سیدنا ابراہیم ؑ حنیف تھے،یک رو بھی اور اپنے توحیدی مشن کے ساتھ یکسو اور وعدہ بندبھی۔آپؑ نے ماسوا اللہ سے کٹتے ہوئے اللہ سے رشتہ جوڑ کر وفاداری اور اطاعت کی جو بے مثال تاریخ رقم کی ،اُس کا حرف حرف تاباں اور لفظ لفظ درخشندہ ہے۔ آپ نے ؑحیاتِ مستعار کا رُخ کلی طور اللہ کی جانب موڑ لیا ،اُسے ہی طلب و سعی کا مرکز بنالیا ،اسی پر اپنی مبارک نگاہیں مرکوز کرلیں ، جاں و تن سب اُسی کے سپرد کرلیا تھا ، والد سے والہانہ رشتہ ،وطن کی محبتیں ،گھر ،زوجہ محترمہ ،فرزند دل بندغرض اپنی ساری دنیا اور متاع ِحیات صرف اُسی کے حصول رضا کے لئے وقف کی …..مولا کے ہر ارشاد کی تعمیل میں ہر آن مستعد رہے۔نار ِ نمرود میں کودنے کا ارشاد ہو ،وطن مالوف چھوڑنے کا حکم ہو،باپ کے لئے استغفار تک ترک کرنے کی ہدایت ہو یا اپنی عفت مآب شریک حیات اور شیر خوار بیٹے کو وادی ٔغیر ذی زرع میں عالم تنہائی میں چھوڑنے کا حکم ہو ،کعبہ کی تعمیر کا ارشاد ہو یا شباب کی دہلیز پر کھڑے جوانِ رعنا فرزند کی قربانی کا حکم ۔۔۔ہر آن لبیک اللھٰم لبیک کی عملی صدائیں اُن کے روح و دِل سے نکل کر تعمیل وتکمیل کی ایک لازوال تاریخ رقم رتی رہیں۔حیرت کا عالم یہ کہ کسی بھی حکم کے تعلق سے اُس کی علت اور صِلہ و بدلہ کے بارے میں بھی کوئی سوال نہیںکیا بلکہ بے چوں وچرا ع ’’ سر تسلیم ِ خم ہے جو مزاج یار میں آئے‘‘ للہیت و عبدیت کی ایک ایسی تابناک سنت وضع کی کہ دنیا ئے محبت آج بھی سر دُھن رہی ہے اور َوالذین َا ٓمنو اشدُ حُبا للہ کی اس عملی تصویر و تفسیر کو دیکھ کر ہر زمین و زمن سے سلامُ‘ علیٰ ابراہیم کی صدائیں سُنائی دے رہی ہیں۔
بیت اللہ۔۔۔ رب ِجلیل کا آزاد و آباد وشاداب گھر ۔۔۔اس گھر کی تعمیر کا حکم دینے والے اللہ تبارک وتعالیٰ نے پہلے ہی اس بات سے آگاہ کردیا تھا کہ میری بندگی میں کسی کو شریک و سہیم نہ بنانا (الحج)اور جواب میں اس پیکر خلوص و وفا پیغمبر ؑنے کہا: ’’ہماری ذریت بھی تیری ہی فرمانبردار رہے‘‘اور اس مقدس گھر کی تعمیر کے دوران یہ دعا و مناجات لب ہائے مبارک پر تھی :’’اے ہمارے رب !ہم سے ہماری یہ خدمت قبول فرما،تو سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘اس گھر کے طواف کے ساتھ ساتھ حج کے جملہ مناسک میں حکمتوں کا ایک خزینہ مخفی ہے ۔یہ صفا و مروہ کا قرنوں سے چلا آرہا راہِ روان ِراہِ حق کی بھاگم دوڑ بھی کچھ یوں ہی نہیں بلکہ ایک عظیم المرتبت خاتون( بی بی ہاجرہؑ) کی اُس بے قراری کا برملا اظہار بھی ہے جو اپنے معصوم اور شیر خوار بچے کی تشنہ لبی کو برداشت نہ کرتے ہوئے تلاشِ آب میں اِدھر سے اُدھر اور وہاں سے یہاں عالم ِاضطراب میں سعی کررہی ہیں، انہیں رضائے ربانی کے حصول کے لئے اپنے شوہر نامدار ابراہیم خلیل اللہ ؑ نے اس لق و دق صحرا میں یکہ و تنہا چھوڑاتو نہ صرف یہ کہ جبین ِ نازپہ کوئی شکن تک نہ لائی بلکہ اس فیصلہ پر مطمٔن اور فرحاں و شاداں رہے ۔ اندازہ کیجئے شوہر نامدار اس لق ودق صحرا میں چھوڑ کے جار ہے ہیں ،پلٹ کر دیکھنے کی اجازت نہیں ،پلٹ کر دیکھ لیتے تو شاید شفقت ِپدری غالب آجاتی اور سیدہ ہاجرہؑ کی درماندگی بحر قلب میں تلاطم بپا کردیتی ،آپ ؑ تو تھے ہی رقیق القلب ،(وہ قلب مبارک جس کی مدح سرائی قرآن کرتا ہے )شوہر نامدار باذن اللہ جار ہے ہیں اور وفا شعار اہلیہ محترمہ بس اتنا پوچھنے پر اکتفا کرتی ہے کہ کیا ایسا کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہے؟سیدنا ابراہیم ؑ کے یک لفظی جواب ’’ہاں‘‘نے قلب ِہاجرہ کو سکینت ومصابرت اور اطمینان کی دولت سے مالا مال کردیا ،پھر ایمان و ایقان کی دولت نے ایسا کو ہِ استقامت بنا کے رکھ دیا، فرمایا پھر کوئی غم نہیں ’’اللہ ہمیں ہلاک نہیں کرے گا‘‘۔ حب ِ الٰہی سے سرشار ا س مادر ملت کی صفا و مروہ کے درمیان مضطربانہ دوڑ دھوپ اور اُچھل کودمولا کو اتنی بھائی ،اِسے اس قدر عرش ِالٰہی سے سند قبولیت حاصل ہوئی کہ قیامت تک آنے والے عمرہ و حج کے سعادت کے حصول کے خواہش مند کے لئے یہ دوڑ اور اسی انداز کی دوڑ لازمی قرار پائی ،آنے والا میر و فقیر ہو شاہ و گدا،اس ادائے ہاجرہؑ کو دہرانا حج کی ذمہ داریوں اور فرائض میں گردانا گیا ۔ ایک لطیف اور غور طلب نکتہ یہ ہے کہ کعبے کا طواف خلیل اللہ ؑ اور ذبیح اللہ ؑ سے منسوب ہوجب کہ سعی صفا ومروہ بی بی ہاجرہؑ کے نام لکھا گیا۔ اس نازک نکتے پر ان سرپھروں کو غور کرنا چاہیے جو اہل اسلام میں طبقہ ٔ نسواں کے ساتھ امتیاز بر تنے کی پھبتی کستے ہیں ۔
ہاجرہ ؑ۔۔۔اپنے شیر خوار بچے ( اسمعیلؑ) کے ساتھ صحرا و بیاباں میں ہیں، بھیانک اور ڈراؤنی راتیں ہیں ،شدت کی گرمیاں ہیںاور موذی جانوروں کے خطرات ہیں ، خوراک ناپید ہے ، لیکن قلب ِ مطمئنہ والی یہ امت کی ماں اس قدر دنیا و مافیہا کی فکروں سے آزاد، اپنے مولا پر اس قدر توکل واعتماد کہ کوئی سبیل ضرور پیدا ہوگی اور یہی یقین و توکل کی دولت تھی کہ چاہ ِزمزم پھوٹ پڑا اور اتنا بے تابانہ اور بے محابہ پھوٹ پڑا کہ رکنے کانام نہ لیا، تب سے اب تک تشنہ کاموں کی سیرابی ہورہی ہے اور ہوتی رہے گی۔اس سعی کا پیام واضح طور پر آج بھی یہ سنائی دے رہا ہے کہ جب بندگانِ خدا بس اپنے کو کامل طور اُس کے سپرد کریں،دِلوں کی دنیا کے لئے ماسواء اللہ کے لئے کوئی جگہ نہ رکھیں اور بس اُسے ہی آرزئووں اور اُمیدوں کا مرکز و محور بنائیں تو پھر انسانی عقل و فہم کو حیران کرنے والی امداد ونصرت مقدر بن کے رہ جاتی ہے۔من کان للہ کان ا للہ لہ(جو اللہ کا ہوا، اللہ اس کا ہوجاتا ہے)کا ارشاد اس سبق کو تر وتازہ کررہا ہے ۔
مسلم اُمہ آج جس گرد آب بلا میں پھنس چکی ہے ،بے کسی اور بے بسی کا عالم ہے،غیر یقینی صورت حال ہے،نہتے اور بے بس پیرو جواں پر قہر وستم کی بجلیاں گر رہی ہیں، تو کیا ابراہیم ؑ و ہاجرہ ؑ کی طرح اللہ پر کامل توکل و اعتماد کئے بغیر گلو خلاصی ہوگی ؟اُس کی اطاعت کا قلادہ گردن میں ڈالے بغیر اور راہِ حق میں اپنا سب کچھ تج دینے کا عملی اظہار کئے بنا ،اُسے عظمت ِ رفتہ حاصل ہوجائے گی ؟کیا یہ ممکن ہے؟ہمارے حالات کیسے بدلیں گے ؟پتھریلے اور سنگلاخ معاشروں میںصالحیت اور نیکیوں کے چشمے کیسے پھوٹیں گے ؟جو رو ظلم کے خار زاروں سے راستہ کیسے نکلے گا ؟ قہر و استبداد کی سیاہ راتوں سے سپیدۂ سحر کی نموداری کیسے ہوگی ؟کمزورکاوشیں کیسے پروان چڑھیں گی ؟ دنیا کی اُن طاقتوں کا جو اس وقت فرعونیت اور نمرودیت کے تخت شاہی پہ بیٹھ کر دھاڑ رہے ہیں اور اُمت مسلمہ کی بے بسی اور بے کسی دیکھ کر اس کی ہوا اُکھاڑنے میں مست ہیں ،انہیں آپس میں لڑنے اور باہمی جدال و قتال میں مصروف رکھنے کے لئے مارِآستین کا خوب استعمال کررہے ہیں ،باہمی اختلافات کی بھٹیاں سلگاکر کدورتوں ،نفرتوں اوررقابتوں کی ایسی فضا بنا رہے ہیں کہ مسلمان ایک دوسرے کو دشمنوں کی طرح تیکھی نظروں سے گھور ر ہے ہیں ،باہمی رنجشوں نے دلوں کو زنگ آلودہ بنا دیا ہے اور مکاروعیار حریف نے اب ہمیں وہاں لاکھڑا کردیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دین وایمان پر شک کرنے سے بھی احتراز نہیں کر تے۔۔۔ آخر یہ ہمیں ہو کیا گیا ہے ؟؟؟ذہن نشین رہے کہ وہ مولا جو سنگلاخ زمین سے زم زم کا چشمہ جاری کرسکتا ہے، آج کیوں ہمارے دلوں سے محبت ،مودت اور اخوت کے دریا بہا نہیں سکتا ؟اصل میں ہم سے جو اخلاص و وفا مطلوب تھی ، وہ ہم میں مفقود ہوئی ہے۔یاد رہے انتشار و افتراق کی سے زمین کے نیچے راحت،امن ،سکون ، مودت، محبت کا سرچشمہ تو موجود ہے لیکن ہم اسے ایک ساتھ نکالنے ،کھوجنے اور دھونڈنے کی سعی توکریں نا ۔ہماری پہچان بس ایک مسلم کی ہے ( اور یہ نام اور شناخت بھی ہمیں ابراہیم خلیل اللہ ؑکے طفیل ملاہے ) ،ہم نہ عجمی ہیں نہ عربی،کالے نہ گورے کیونکہ ان نسبتوں میں کوئی عزت و وقار نہیں اور اللہ کے یہاں وہی قوم سرفراز و سر بلند جو اُس کے رنگ ( صبغۃ اللہ)میںرنگ جائے اور بس۔
بیت اللہ تو ایک شعائر اللہ ہے ،علامت ِ وحدت ہے ،مرکز ِ دِل اور مطلوب و مقصود تو صرف اللہ ہے اور مشیت الٰہی یوں بیان کی گئی ہے،ترجمہ:’’جو اللہ کے دامن کو مضبوطی سے تھامے گا وہی راہِ راست پائے گا ‘‘(آل عمران۱۰۱۔۳)۔
حاصل کلام یہ کہ مشتاقان ِدید کے قافلوں کے قافلے ارض مبارک کی جانب روں دواں ہیں ،منیٰ عرفات ،مزدلفہ میں قیام اور رمی جمار کا عمل ہمیں نفس کے بے لگام گھوڑے کو لگام دینے کچھ اختلافات کے باوجود اکٹھے رہنے اور ہر آن شیطانی شرور سے آگاہ رہ کر ان سے بچنے کا سامان کرنے کا درس زریں فراہم کرتے ہیں ،اس سفر میمون پر روانہ ہونے والوں کو یہ روانگی ہر لحاظ سے مبارک ہو اور ان کی واپسی بھی اس انداز سے ہو کہ سرتاپا سے ایمان کی انقلاب انگیز تبدیلیاں ان کی سیرتوں سے صاف جھلک جھلک رہی ہوں اور رمی جمرات کا عمل تو بس اسی بات کا تقاضا کرتا ہے کہ شیطان جو ہمارا ازلی حریف ہے، اس سے بچائو کا ہر سامان کرنے کے ساتھ ساتھ تازیست اس کے خلاف نبر آزما رہیں گے اور واپسی پر پھر اس دشمن سے مقابلہ ہوگا ۔یاد رہے شیطا ن ِ مردود زاہد پہ زہُد کے طریقے سے ، عالم پر علم کے دروازے سے اور جاہل پر جہالت کے راستے سے چھپ کر وار کرتا ہے اور یوں اپنے اصل ہدف تک دل پسند طریقے سے پہنچتا ہے۔عالم عرب کے ایک نامور مفکر نے اس کے ہتھکنڈوں کو کس بھلے انداز میں بیان کیا ہے:
(۱)کہ یہ مسلمانوں کے درمیان لڑائی جھگڑے اور فتنے پیدا کردیتا ہے ،وہ بدگمانی پھیلاکربغض نفرت اور اختلاف پیدا کردیتا ہے(۲)وہ بدعات کو خوش نما بناتا ہے ،وہ ’’جدید عبادت ‘‘کے نام پر مسلمانوں کو اُکساتا ہے۔(۳)تاخیر ۔وہ سنجیدہ اور با مقصد کام کرنے والوں کو تاخیر پر آمادہ کرتا ہے ،نیکی کرنے والوں سے کہتا ہے کہ بعد میں کرلینا ،وہ سستی اور کاہلی پر اُکساتا ہے۔(۴) تکبر و غرور، یہ شیطان کی ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے وہ جنت سے نکالا گیا ۔(۵)شک۔شیطان انسان کو شک میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ نیکی ترک کریں۔(۶)ڈرانا۔ اہل ایمان کو اپنے لشکروں ،پیرو کاروں اور ساتھیوں سے ڈراتا رہتا ہے ،وہ صدقہ،خیرات کرنے والوں کو ڈراتا رہتا ہے کہ تم نادار ہوجائو گے۔
شیطان کے طور طریقوں اور مکارانہ حربوں کے بارے میں علامہ ابن قیم ؒنے چھ تدریجی مراحل بیان کئے ہیں:٭ شیطان کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ انسان کفر اور شرک کرے ،اگر شکار مسلمان ہو تو پھر شیطان دوسرا مرحلہ اختیار کرتا ہے کہ وہ بدعت پر کاربند ہوجائے اور اگر مسلمان سنت پر سختی سے کاربند ہو تو شیطان اُسے گناہ کبیرہ پر اُکساتا ہے ۔اگر انسان اس سے بھی اپنے آپ کو بچالے تو شیطان مایوس نہیں ہوتا اب وہ اُسے چھوٹے گناہوںپر آمادہ کرتا ہے ،اگر وہ چوتھے مرحلے میں بھی اس کا شکار نہ بنے تو شیطان انسان کو زیادہ تر مباح کاموں میں مشغول رہنے پر اُکساتا ہے تاکہ وہ اہم اور سنجیدہ کاموں کو نظر انداز کردے۔چھٹا مرحلہ یہ ہے کہ وہ انسان کو افضل کے بجائے غیر افضل کام میں مشغول کردے مثلاًوہ سنت کا تو اہتمام خوب کرے لیکن فرض کو نظر انداز کردے۔نفلی نمازیں تو پابندی کے ساتھ ادا کرے مگر فرض نماز ترک کردے۔علامہ فرماتے ہیں:ہر عقل مند جانتا ہے کہ انسان پر شیطان تین جہتوں سے حملہ کرتا ہے:٭ اسراف و زیادتی:انسان کو زائد از ضرورت سہولت حاصل کرنے پر اُبھارتا ہے ،اس کا توڑ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو مطلوب سہولیات مکمل طور فراہم کرنے سے بچے ،وہ غذا،نیند ،لذت ،راحت ہر ایک سہولت سے ضرورت کے مطابق ہی فائدہ اُٹھائے ،شہوات و ممنوعات سے دور رہے ،یوں وہ دشمن کی مداخلت سے محفوظ ہوجائے گا۔٭غفلت: اللہ کو ہر وقت یاد کرنے والا گویا قلعہ بند ہوجاتا ہے ،جب انسان ذکر سے غفلت برتتا ہے تو قلعہ کا دروازہ کھل جاتا ہے ،دشمن اندر آجاتا ہے ۔٭لایعنی امور میں مشغولیت :شیطان انسان کو لایعنی معاملات میں گھسیٹنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا انسان کو تمام فضول اور غیر تعلق امور سے الگ تھلک رہنا چاہئے۔ان سبھی ہتھکنڈوں اور شرور کو حدیث نبویؐمیں یوں سمیٹ لیا گیا ہے ۔’’شیطان فرزند آدم میں خون کی طرح دوڑتا ہے‘‘۔اُم المومنین سیدہ عائشہ ؒفرماتی ہے کہ آپؐ بہ کثرت یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔’’اے دلوں کے پھیرنے والے !میرے دل کو اپنے دین اور طاعت پر ثابت و برقرار رکھ ‘‘۔(مسند احمد)
زائرین حرمین شریفین یہ بھی یاد رکھیں کہ حج نفوس انسان کی تربیت کا ایک عالمی مدرسہ ہے ۔اپنے نفس کو خوب صورت بنانے کا یہ زریں موقع ہے ۔یہ بخل سے دو ر رہنے اور انفاق و ایثار کا درس بھی دیتا ہے کیونکہ اس سف کے لئے اُسے مالی لحاظ سے بھی بہ طیب خا طر ایک قربانی کا اظہار کرنا ہوتا ہے ،اغرہ و اقارب سے ایک خاص مدت تک دوری اور سفر کی مشقت اُٹھا نے سے اُس کا عزم و ارادہ بھی مستحکم بن جاتا ہے اور اُسے صبر و برداشت کی تربیت بھی حاصل ہوتی ہے ۔میر و فقیر کے ایک ساتھ چلنے پھرنے اور سجدہ ریز ہونے سے مساوات و برابری کا درس بھی ملتا ہے اور تکبر کا بت ِپندار بھی پاش پاش ہوجاتا ہے۔اس مبارک سفر پر روانہ ہونے والے سعادت مند رخت سفر باندھ رہے ہیںلیکن خیال رہے کہ غرور و تکبر کہیں پاس بھی نہ پھٹکے، بیم و و رجا کے درمیان اس سارے عمل کی قبولیت کے لئے بہ دیدہ تر دست بہ دعا رہا جائے اور احباب و اقارب جو نمائشی دعوتیں سجاتے ہیں،اُن میں اپنا وقت صرف کرنے کے بجائے حج کے مناسک کی کلی تر بیت اور اس کے حکمت و فلسفہ سے آشنا ہونے کے لئے مستند علماء سے مستفید ہونے میں مشغول رہیں۔روانگی اور واپسی کے وقت کسی ایسے ریا کارانہ عمل کا ارتکاب کرنے کی کسی کو اجازت نہ دیں جو شریعت کی مطہر تعلیمات سے میل نہ کھاتا ہو۔جاتے وقت بے جا نعرے بازیوں اور تالیاں پیٹنے کے غیر شرعی افعال سے اجتناب ہو،اور اس موقع پر’’ وَنہ وُن‘‘ کی جس رسم قبیح کا کہیں کہیں اہتمام ہوتا ہے ایسا کبھی نہ ہونے دے،نہ واپسی پر خیر مقدم اور استقبال کے نام پر کسی ایسی حرکت کا ارتکاب ہو جو شیطان کی محبوب و مقصود تو ہولیکن رحمان کی رحمت سے دور لے جانے والی ہو۔اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو سوائے ماتم کے کیا کیا جاسکتا ہے!!!!
یاد رہے کہ اس مبارک سفر میں اپنے مولا کو پہچاننا اور اسی کو معبود ومسجود اور رازق و رزاق ماننے کے عہد کی تجدید کرکے ہی حاجی صاحبان کوواپس لوٹنا ہے اور اُس کے حدود شرعی کی پابندی کا اقرار ہی روحِ حج ہے ۔بندہ ٔحرص و ہوس اور مادہ ونفس نہیں بلکہ ہر ہر عمل سے مولا کی بندگی کا اظہار ہو ،نہیں تو لاکھوں اس سفر مبارک پر روانہ ہوتے ہیں لیکن حساس نظر وسنجیدہ فکر اقبال کو حرم ’’خالی ‘‘ہی نظر آتا ہے، کیوں ……… اُ سے تلاش اُن سعی و طواف کرنے والوں کی ایک بار پھر ہے،جو یہاں حاضری کا اعلان کرکے عہد بندگی کی تجدید کرتے ہوئے جا ں سے گزرنے کی قیمت پر بھی بندگی کا عہد نبھاتے رہیںعلامہ نے اپنا ا ندرون یوںبیان کیا ہے ؎
اپنے رزاق کو نہ پہچانے تو محتاج ملوک
اور پہچانے تو ہیں تیرے گد ا دار اوجم
دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامان ِ موت
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
اے مسلمان اپنے دل سے پوچھ مُلا سے نہ پوچھ
ہوگیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم
9419080306
Email: m basharat bashir @ yahoo .com