کنٹرول لائن پر کافی عرصے سے جاری ٹکراو کی تشویشناک صورت حال اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ امریکہ ، چین اور اقوام متحدہ بھی کھلے طور پر اس بات کا اندیشہ ظاہر کرچکے ہیں کہ کسی بھی وقت یہ صورت حال بھارت اور پاکستان کے درمیان بھرپور جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔ چنانچہ تینوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کی پیش کش کی ہے جسے بھارت نے مسترد کردیا ہے ۔بھارت کی موجودہ حکومت نے پچھلی حکومتوں کے برعکس ایک سخت موقف اختیار کیا ہے جس کے نتیجے میں مذاکراتی عمل کی بحالی کا کوئی امکان موجود نہیں رہا ہے حالانکہ کشمیر کی اندرونی صورت حال کا دباؤ اس قدر شدید بلکہ بے قابو کبھی نہیں تھا جتنا آج ہے ۔پاکستان کیلئے یہی ایک بات اطمینان بخش ہے اوروہ بین الاقوامی سطح پر اس کا فایدہ اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے ۔بھارت اس دباؤ کو ختم یا کم کرنے کیلئے جارحانہ اپروچ اختیار کرنے کا راستہ اختیار کرچکا ہے جب کہ پاکستان کو موجودہ صورتحال میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عالمی مداخلت کا بہتر موقع نظر آرہا ہے ۔ ان دو ملکوں کی اس ساری کشاکش کا میدان کشمیر ہے جوانسانی خون سے لالہ زار بن چکا ہے ۔عسکریت پسند بھی مارے جارہے ہیں ، فوجی جوان بھی ، پولیس افسر اوراہلکار بھی ، معصوم بچے بھی ، بوڑھے بھی جوان بھی اورعورتیں بھی ۔ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوچکے ہیں جن میں سے بیشتر عمر بھر کے لئے ناکارہ بھی ہوئے ہیں ۔ پیلٹ کے شکار ہونے والے سینکڑوں لوگ بینائی سے یا تو مکمل طور پر محروم ہوچکے ہیں یا جزوی طور ۔اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ ایک شاندار انسانی تہذیب کا خاتمہ ہورہا ہے اور ایک منفرد سماج کی اعلیٰ قدریں پامال ہورہی ہیں ۔ جن لوگوں کا فوکس کشمیر کی یہ تباہی ہے ان کے ذہنوں میں اکثر یہ سوال ابھرتا ہے کہ اس ساری کشاکش جس کا نام مسئلہ کشمیر ہے، موجودہ وقت میں کیا اس قوم کے مستقبل کا مسئلہ ہے جو کشمیر کی وادی میں آباد ہے یا یہ اس ریاست کے مستقبل کا مسئلہ ہے جو جموں کشمیر گلگت،بلتستان بشمولی شمالی علاقہ جات 1947ء میں مہاراجہ ہری سنگھ کے قلمرو میں تھی یا یہ بھارت اور پاکستان کا مسئلہ ہے جو اس پر کئی سمجھوتے بھی کرچکے ہیں اور مذاکرات بھی کرتے رہے ہیں ۔اس مسئلے میں بھارت اور پاکستان کا کیا رول ہے اور کشمیر کے عوام کا کیا رول ہے ،ان بنیادی باتوں کو سمجھنا اس لئے ضروری ہے کہ قوموں کیلئے اپنے عمل کا حساب ہی کامیابیوں اور ناکامیوں کا پیمانہ ہوتا ہے ۔بے شک یہ ایک بہت ہی اہم اور قدرے الجھی ہوئی بحث ہے تاہم یہ جاننے کے لئے اس بحث کے مد و جزر میں غوطے لگانا ضروری ہے کہ اس مسئلے کے حل کے کتنے امکانات موجود ہیںجس کا تعلق ان قربانیوں سے ہے جو کشمیر میں دی جارہی ہیں اور جس پر ان قربانیوں کے ثمر بار ہونے یا ضائع ہونے کا دار و مدار ہے لیکن اس بحث کی گہرائیوں میں اترنے سے پہلے کشمیر کی اندرونی سیاسی صورتحال کو جاننا اور سمجھنابھی ضروری ہے تاکہ ایک ایسی سوچ پیدا ہوسکے جو زمینی حقیقتوں سے مطابقت رکھتی ہو ۔اس بات سے کون انکار کرسکتاہے کہ اس مسئلے کیلئے کشمیر کے عوام اب تک بے پناہ قربانیاں دیتے آئے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں اور یہ بات بھارت کے سیاست دانوں اورمیڈیا نے بھی تسلیم کی ہے کہ کشمیر میں بھارت کے خلاف جذبات کا پھیلاؤ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتا جارہا ہے جس کی نمایندگی مزاحمتی یا علیحد گی پسند قیادت کررہی ہے ۔ اس بڑھتی ہوئی منافرت کی وجوہات ستر سالہ تاریخ کے ہر ورق میں موجود ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ زمینی حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کشمیر میں ووٹوں کی معمولی شرح کے ساتھ ہی سہی ایک منتخب حکومت بھی موجود ہے اور اپوزیشن بھی جس کا اپنا سیاسی نظریہ ہے ۔قابل غور واقعہ یہ بھی ہے کہ موجودہ مخلوط حکومت دو جماعتوں پر مشتمل ہے ایک پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ہے جس کا اثر و رسوخ کشمیر کی وادی اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میںہے اور دوسری بھارتیہ جنتا پارٹی ہے جو بھارت کی برسر اقتدار قومی جماعت ہے اور جس نے ووٹوں کی بھاری اکثریت کے ساتھ جموں سے اپنی نشستیں حاصل کی ہیں ۔یہ حقیقت اس بنیادی بات کو رد کئے بغیر کہ کشمیر میں بھارت کے خلاف جذبات گہرے اوروسیع الاثر ہیں ،مزاحمتی تحریک کی ہمہ گیریت پر کئی سوال پیدا کرتی ہے ۔اسی بناء پر نئی دہلی کا ایوانِ اقتدار یہ دلیل پیش کرتاہے کہ علیحدگی پسندوں کا دائرہ اثر کچھ علاقوں تک محدو د ہے اور وہ کشمیر میں بے چینی پیدا کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ وجہ جو بھی ہو کشمیر میں بے چینی کا اعتراف برملا کیا جارہا ہے لیکن اس مسئلے کو مسئلہ کشمیر نہیں بلکہ بے چینی کا مسئلہ قرار دیا جارہا ہے۔مزاحمتی قیادت اقوام متحدہ کی قراردادوں یا بصورت دیگر سہ فریقی مذاکرات کے تحت مسئلہ کشمیر حل کرنے کے موقف پر قائم ہے لیکن خود اقوا م متحدہ اب نہ ان قراردادوں کی بات کرتا ہے اورنہ ہی کئی دہائیوں سے ان پرکوئی بحث ہوئی ہے ۔ان قراردادوں کو روبہ عمل لانے کے برعکس اقوام متحدہ بھارت اور پاکستان پر باہمی مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دے رہا ہے جس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ وہ اسے دو ملکوں کا آپسی تنازعہ قرار دے رہا ہے ایک بین الاقوامی مسئلہ نہیں ۔ قرار دادیں آج بھی موجود ہیں، اس لئے ان کے وجود سے انکار بھی نہیں کیا جارہا ہے لیکن ان کی عمل آوری کی بات بھی نہیں کی جارہی ہے ۔نیشنل کانفرنس اس ریاست کی ایک تاریخ ساز جماعت رہی ہے جس کے پرچم تلے ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف تحریک چلی ۔ 1947ء میں شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں اسی جماعت نے ریاست کے اس حصے کی حکومت سنبھالی جو قبائلی حملے کے بعد بھارت کی فوجوں کے تصرف میں آیا لیکن چند ہی سالوں کے بعد منتخب وزیر اعظم کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا اور سازش کیس کے تحت ان پر اور ان کے ساتھیوں پر مقدمہ چلایا گیا ۔بعد میں شیخ محمد عبداللہ نے محاذ رائے شماری کی قیادت کی ۔بائیس سال بعد رائے شماری کو خیر باد کہہ کر اندرا عبداللہ سمجھوتے کے تحت کانگریس کی حمایت سے حکومت سنبھالی گئی ۔آخری وقت تک شیخ محمد عبداللہ کو عوامی حمایت حاصل رہی ۔ ان کے بعد ان کے فرزند فاروق عبداللہ نے حکومت سنبھالی جس کا تختہ چند سال بعد دہلی کے آشیر واد سے ان کے بہنوئی جی ایم شاہ نے پلٹ دیا، بعد میں فاروق عبداللہ نے کانگریس کے ساتھ سمجھوتہ کرکے مشتر کہ طور الیکشن لڑا اور مد مقابل سیاسی قوت مسلم متحدہ محاذ کو ریکارڈ توڑ دھاندلیوں سے ہرا کر حکومت حاصل کی۔اس انتخاب میں امیر اکدل حلقہ انتحاب سے محمد یوسف شاہ جو آج سید صلاح االدین کے نام سے متحدہ جہاد کونسل کی سربراہی کررہے ہیں اور حزب المجاہدین نامی سب سے بڑی مقامی عسکری جماعت کے چیف بھی ہیں، بھی شامل تھے ۔ان کی انتخابی مہم چلانے میں محمد یاسین ملک جو آج لبریشن فرنٹ کے قائد ہیں، پیش پیش تھے۔محمد یوسف شاہ انتخاب جیت چکے تھے لیکن اعلان نیشنل کانفرنس کے امیدوار کے حق میں ہوا ۔جمہوریت کی اس شرمناک آبرو ریزی جس میں نئی دہلی کے ایوان اقتدار کے ساتھ کشمیر یوں کے حقوق کی جدوجہد کی علامت رہی نیشنل کانفرنس بھی شامل تھی، نے سیاسی بے بسی کا وہ احساس پیدا کیا جس نے امن و سکون کی اس وادی میں بندوق کے داخلے کی راہیں ہموار کیں اور بھارت کے خلاف نفرت کا وہ لاوا جس کے بیج 1953ء میں دلوں کی زمین میں ڈالے گئے تھے، کئی نسلوں کی آبیاری کے بعد نئی نسل کے سینوں کو بندوقوں کے سامنے تن جانے کی حد تک پہنچا چکا ہے ۔ نیشنل کانفرنس کا سیاسی موقف آج یوں تو اُس خصوصی پوزیشن کی بحالی ہے جو 1953ء سے پہلے موجود تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ہند پاک مذاکرات کی بھر پور وکالت بھی کی جارہی ہے ۔اس طرح اس مسئلے کے دو متضاد پہلووں کو ایک دوسرے میں خلط ملط کرکے پھر ایک بار اس کنفیوژن کی دیوار ایستادہ رکھی جارہی ہے جو اب تک مسئلے کے حل کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہے ۔خصوصی پوزیشن کامطالبہ اس مسئلے کا وہ پہلو ہے جو بھارت اور جموں و کشمیر کے بھارت کے زیر انتظام حصے تک محدود ہے جب کہ ہند پاک مذاکرات کا مطالبہ اسے بھارت اور ہندوستان کے آپسی مسئلے کے طور پر کھڑا کرتا ہے ۔حال ہی میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے چین اورامریکہ کی ثالثی کی تجویز دے کر اس کے بین الاقوامی پہلو کو بھی اس میں داخل کردیا ۔ یہ بات ناقابل سمجھ ہے کہ مقتدر سیاسی جماعتیں ان سیاسی نزاکتوں کو واقعی نہیں سمجھ پاتی ہیں یا جان بوجھ کر انہیں نظر انداز کررہی ہیں ۔پی ڈی پی جو مقامی جذبات کی علامت کے طور پر نیشنل کانفرنس کے مقابلے میں ناموافق ترین حالات میں کامیابی سے ابھری تھی، بھی مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلوؤں کو ایک دوسرے میں مدغم کرکے موجودہ مزاحمتی تحریک ، عوامی جذبات اور آئین ہند کے ساتھ بیک وقت اپنی شناخت کا دائرہ پھیلانے کی کوشش کررہی ہے ۔بھارتیہ جنتا پارٹی کشمیر کے بارے میں ایک سخت گیر موقف رکھنے والی جماعت ہے جس کے آئین میں دفعہ تین سو ستر کا خاتمہ کلیدی اہمیت رکھتا ہے لیکن حکومت کے قیام کیلئے دو جماعتوں کے اتحاد کا جو سمجھوتہ ایجنڈا آف الائنس کے نام سے ہوا، اُس میں بی جے پی اس اہم قومی نوعیت کے معاملے کو جس پر اس نے ہندو ووٹ ہندوستان بھر میں حاصل کیا، فی الحال بالائے طاق رکھنے پر راضی ہوئی ۔مفتی محمد سعید کو یقین تھا کہ یہ سیاسی کامیابی عوام کو پی ڈی پی اور بی جے پی کا اتحاد ہضم کرانے کا باعث ہوگی ممکن ہے کہ ایسا ہوتا لیکن بی جے پی حلقوں سے اس کے بعد بھی اس دفعہ کے خلاف بیانات اور گاؤ رکشا کے معاملے پر غارت گری کے واقعات نے ایسا ہونے نہیں دیا ۔تجربہ کار سیاست دان ہونے کی حیثیت سے مفتی محمد سعید وہ راہیں بدستور تلاش کررہے تھے جو نئی دہلی اور کشمیری عوام کے جذبات کے درمیان ایک پُل کی بنیاد بن سکتیں لیکن نئی دہلی نے انہیں ایسا کرنے کا کوئی موقع فراہم نہیں کیا جس کی بناء پر وہ مایوسی کا شکار ہوئے اوراسی مایوسی نے ان کی جان بھی لی ۔ان کی دختر محبوبہ مفتی کے پاس سیاست کا بھی اور حکومت کا بھی محدود تجربہ تھا او ر ان کے حصے میں انتشار زدہ حالات کے سوا اور کچھ نہیں آیا ۔مسلٔہ کشمیر ، مزاحمتی تحریک ، عسکر ی تحریک ، نئی دہلی کی سخت گیری اور انتظامیہ کی بدحالی کو بیک وقت سنبھالنا کسی تجربہ کار کے بس کی بات بھی نہیں تھی ،وہ تمام معاملات کو ایڈرس کرنے کی تگ ودو ہی کررہی تھی کہ برہان وانی کے ککر ناگ میں جاں بحق ہونے کا واقعہ رونما ہوا ۔ اس واقعہ کی گھمبیرتا کو ابتداء میں نہیں سمجھا گیا اور احتیاطی تدابیر میں کوتاہی ہوئی جس کے نتیجے میں وہ آگ لگی جس کے شعلوں نے پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لیا ۔ریاستی حکومت حالات کے آگے بے بس ہوئی تونئی دہلی کو حالات سے نمٹنے کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لینے کا موقع مل گیا ۔محبوبہ مفتی نرم روی کی بات کرتی ہے اور نئی دہلی سخت روی کو واحد راستہ سمجھتی ہے ۔ حالات کے متعلق اس متضاد سوچ کے ساتھ محبوبہ مفتی سیلف رول ، ہند پاک مذاکرات ، علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات اور کنٹرول لائن کو نہ بدل کر معا ملات کو حل کرنے کی بات کرکے مسئلہ کشمیر کے متضاد پہلووںکو خلط ملط کرکے اسی بے ضابطگی کاارتکاب کررہی ہیں جو نیشنل کانفرنس کررہی ہے ۔یہ دونوں کی مجبوری ہے کیونکہ دونوں بیک وقت عوام کے جذبات اورنئی دہلی کے ساتھ کھڑا رہنا چاہتے ہیں ۔اس کے بجائے اگر وہ ان دونوں کے درمیان کسی پُل کی تعمیر کے امکانات دریافت کرتے تو شاید ایک نئی سیاسی بساط تیار ہوسکتی ۔حال ہی میں محبوبہ مفتی نے نئی دہلی میں وزیر داخلہ کے ساتھ بات چیت کرکے نہ صرف دفعہ تین سو ستر کے تحفظ پر زور دیا بلکہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی بھی بھرپور وکالت کی۔مختلف اور متضاد کڑیوں کو ملانے کی اس کوشش کے ساتھ سرینگر میں تیراں جولائی کو جب مزار شہداء پر گل باری کا موقع آیا تو تقریب میں حکومت کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی شامل نہیں تھی ۔ یہ اس مسئلے کا ایک اور پہلو ہے جسے مختلف نظریات رکھنے والی قوتیں مسئلہ کشمیر کے نام سے ہی پکارا کرتی ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاستی شاخ جموں کی نمایندگی کرتی ہے اور جموں تیراں جولائی کے شہداء کے ساتھ کوئی واسط نہیں رکھتا۔جس حکمران کے خلاف تیراں جولائی کے شہداء نے قربانی دی ،وہ جموں سے ہی تعلق رکھتا تھا ۔اس لئے جموں والوں کی نگاہ میں وہ بقول ان کے ’’باغی‘‘ تھے ۔یہ بہت اہم واقعہ ہے جو اس مسئلے کو کشمیر کی مسلم آبادی کا مسئلہ بناتا ہے لیکن وہ لوگ اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے جو اسے بین الاقوامی مسئلہ کہتے ہیں اور وہ لوگ بھی اسے کوئی اہمیت نہیں دیتے جو اسے ہند پاک کا تنازعہ قرار دیتے ہیں کیونکہ اس پہلو کی اہمیت دونوں کے نظریات کو رد کردیتی ہے ۔اس ساری صورت حال میں ایک سوال بڑی شدت کے ساتھ ذہنوں میں ابھرتاہے کہ کیا عالمی مداخلت اور اقوام متحدہ یا کسی اورملک کی ثالثی اس پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے جسے وقت کے گردابوں نے تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے اور جس کی کوئی ایک صورت باقی نہیں رہی ہے ؟ سیاسی مکاتب سے پوچھئے کہ مسئلہ کشمیر کیا ہے ؟ تو اس سوال کے جواب میں ہم انہیں شاذونادر بھی متحدالخیال نہیں پائیں گے ، اگر ہوتے تو وہی چیز کشمیر حل کا متفقہ فارمولہ دریافت کرنے کی بنیادبنتی ۔ہندوستان کی تقسیم کن بنیادوں پر ہوئی ؟ اس وقت ریاست جموں و کشمیر کی پوزیشن کیا تھی اور تقسیم کے فارمولے کا اطلاق کیا اس ریاست پر بھی ہوتا تھا ؟ان سوالوں کابھی کوئی ایک جواب نہیں ہے ۔ریاست پر قبائلی حملہ اور مہاراجہ ہری سنگھ کا ہندیونین کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنا بھی کئی تضادات کا معاملہ بن چکا ہے ۔ بھارت کا اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پیش کرنا اور الحاق کو رائے شماری کے تابع قرار دینا اور اقوام متحدہ میں قرارداد پاس ہونے کے باوجود بھی رائے شماری کا روبہ عمل نہ آنا اور پھر اقوام متحدہ کی طرف سے خصوصی مشن روانہ کرکے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوششوں میں ناکام ہونے کے بعد کئی قراردادوں کا ویٹو ہونا، اس مسئلے کی کوکھ سے کئی مسائل کو جنم دینے کا باعث بن جانے کے بعد الجھنوںاور تضادات کا ایسا بکھیڑا تیار ہوا جس نے اس مسئلے کو بہت ساری تہوں کے اندر ڈھک دیا اور وقت گزر جانے کے ساتھ ساتھ یہ تہیں بڑھتی ہی چلی گئیں جن میں مسئلہ کشمیر کی اصل ہیئت اور حقیقت گم ہوکر رہ گئی ۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تین جنگجوں اور مسلسل ٹکراو کی صورت حال کے ساتھ ساتھ کشمیر کے اندر اٹھنے والی سیاسی لہرو ں نے بے شک مسئلہ کشمیر کو عالمی توجہ کا مرکز بنادیا ہے لیکن کیا واقعی عالمی توجہ کا مرکز مسئلہ کشمیر ہے یا پاک بھارت تناؤ ؟ اور اگر پاک بھارت تناؤ کی وجہ مسئلہ کشمیر ہی ہے جو واقعی ہے، تو ا س کو پاک بھارت کے متضاد موقف کس طرح سے حل کرسکتے ہیں؟ اور کوئی ثالث بھی کیسے یہ معجزہ کرسکتا ہے؟ اس پوری صورت حال ، مسئلہ کشمیر کی تاریخ ، اس کے ہر پہلو کا گہرا اور دیانت دارانہ جائزہ ایک ہی نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ اس مسئلے کے حل کی کنجی اگر کسی کے پاس ہے تو وہ صرف اور صرف کشمیر کے عوام ہیں ،جو اگر ایک بار اس مسئلے کی تئیں مستحکم سوچ پیداکرنے اور اس پر متحد ہونے کا معجزہ کردکھائیں گے تو یہ اس قوم کی تقدیر سازی کا مسئلہ بن جائے گا اور ہندوستان و پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے پاس اس مسئلے کو حل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا ۔ اس میں کسی خون خرابے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی ۔بس سیاسی حکمت عملی کی ضرورت ہوگی ۔ہندوستان ، پاکستان اور کشمیر تینوںکی وفاداریوں میں الگ الگ بٹی ہوئی قوم اپنی ہی تباہی کے سامان نہیں کررہی ہے بلکہ برصغیر کو انسانی تاریخ کے سب سے اندوہناک المیے سے دوچار کرنے کی نادانستہ کوشش بھی کررہی ہے لیکن اس کے لئے زبردست سیاسی صلاحیتوں کی مالک قیادت کی ضرورت ہے جو بندھی ٹکی سوچ تک محدود نہ ہو بلکہ سوچ کی وسعت کے ساتھ زمینی حقائق اور اپنے عوام کے حالات کا بھی ادراک رکھتی ہو ۔
نوٹ : مضمون نگار کی آراء سے ادارے کا کلی یا جزوی طور متفق ہونا ضروری نہیں
مضمون نگار روزنامہ ’’عقاب ‘‘ سری نگر کے مدیر اعلیٰ ہیں