سرینگر//حریت (گ)نے جموں کشمیر اور بھارت کی دیگر ریاستوں کی جیلوں میں بڑی تعداد میں کشمیری سیاسی قیدیوں کی مسلسل نظربندی کو سراسر غیر جمہوری، غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیری حریت پسند رہنماو¿ں وکارکنوں کو سیاسی انتقام گیری کی پاداش میں کسی نہ کسی بہانے ان کی اسیری کو طول دیا جاتا ہے۔ حریت ترجمان نے کہا کہ ریاستی انتظامیہ آئے روز مختلف حیلے بہانوں سے گرفتاریاں جاری رکھ کریہاں کی نوجوان پود کو جان بوجھ کر تشدد کی طرف دھکیل رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ کشمیری حریت قیادت کو فرضی کیسوں میں پھنسانے کی جو کوشش کی جارہی ہے اور انہیں نئی دہلی میں مقید کرنا اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ انتظامیہ سیاسی میدان میں مقابلہ ہار چکی ہے اور اب یہ گرفتاریاں ان کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ حریت بیان میں مزید کہا گیا کہ یہاں کی مقامی انتظامیہ نے اپنے آقاو¿ں کے سامنے مکمل طور پر سرینڈر کرلیا ہے اور محض کرسی کی خاطر وہ یہاں کی آزادی کی آواز اُٹھانے والوں کو خاموش رکھنے کے لیے وہ نئے ہتھکنڈے آزما رہے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ کشمیر کی حریت پسند قیادت بھارت کے جبری قبضے کے خلاف چٹان کی طرح ڈی ہوئی ہے اور اپنے بنیادی حق حقِ خودارادیت کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرے گی۔ 2016ءکے عوامی انتفادہ سے سیاسی نظربندوں کی تفصیل جاری کرتے ہوئے حریت ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ درجنوں کی تعداد میں قیدیوں کی عمر 70سال کو بھی پار کرگئی ہے اور وہ پیرانہ سالی کی وجہ سے اکثر بیمار رہتے ہیں۔ حریت بیان کے مطابق آزادی پسند جماعتوں کے ذمہ دار جو جیلوں میں نظربند ہیں ان میں مسرت عالم بٹ، آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی، ڈاکٹر غلام محمد بٹ، امیرِ حمزہ شاہ، محمد یوسف لون، میر حفیظ اللہ، محمد یوسف فلاحی، ماسٹر علی محمد، رئیس احمد میر،محمد شعبان ڈار، عبدالغنی بٹ، محمد رستم بٹ، دانش ملک، مشتاق احمد ہُرہ، عبدالاحد پرہ، محمد رفیق گنائی، عبدالسبحان وانی، شکیل احمد یتو، شوکت احمد حکیم، طارق احمد گنائی، بشیر احمد بویا، عبدالمجید راتھر، محمد یوسف بٹ شیری، شکیل احمد بٹ، فاروق احمد توحیدی، حاجی غلام محمد میر، شیخ محمد رمضان، شوکت احمد، محمد امین آہنگر، عبدالحمید پرے، سرجان برکاتی، محمد شفیع وگے، مشتاق احمد کھانڈے، شوکت احمد، محمد شفیع خان، اسداللہ پرے، منظور احمد بٹ، سلمان یوسف، مفتی عبدالاحد، غلام حسن شاہ، حاکم الرحمان، منظور احمد کلو، غلام محمد تانترے، پرویز احمد کلو، عبدالخالق ریگو، عبدالعزیز گنائی، غلام حسن ملک، جاوید احمد میر، بشیر احمد بٹ، مشتاق احمد میر، محمد اشرف بیگ، محمد رمضان میر، سراج الدین، محمد صدیق، سفیر احمد لون، شوکت احمد ڈار، بشیر احمد صالح، اعجاز احمد ہرہ، جاوید احمد فلے، نذیر احمد مانتو، مفتی ندیم، محمد امین پرے، محمد امین آہنگر، امتیاز احمد، بشیر احمد صوفی اور معراج الدین نندہ سمیت سینکڑوں آزادی پسند احتیاطی نظربندی کے نام پر آج بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حبسِ بے جا میں رکھے گئے ہیں، جبکہ ڈاکٹر محمد قاسم، ڈاکٹر شفیع شریعتی اور غلام قادر بٹ سمیت 50سے زائد کشمیری عمر قید کی سزا کے تحت مختلف جیلوں میں نظربند ہیں۔ 2016ءکی عوامی تحریک کے دوران میں 20ہزار کے لگ بھگ جو آزادی پسند لوگ حراست میں لیے گئے تھے، ان میں سے ابھی بھی 500کے قریب مختلف جیلوں اور انٹروگیشن سینٹروں میں پابندِ سلاسل ہیں۔ بیشتر قیدیوں پر عائد پبلک سیفٹی ایکٹ کو عدالتِ عالیہ نے اگرچہ کالعدم (Quash)کیا ہوا ہے، البتہ انہیں چھوڑا نہیں گیا اور ان پر لگاتار دوسرا اور بعض پر تیسرا پی ایس اے عائد کیا گیا ہے۔بیان میں کہا گیاکہ ایک بڑی تعداد ایسے قیدیوں کی بھی ہے، جن پر کوئی کیس عدالتوں میں زیرِ سماعت نہیں ہے، البتہ انہیں بھی حبس بے جا میں رکھا گیا ہے اور احتیاطی نظربندی کے نام پر ان کی غیر قانونی حراست کو طو¾ل دیا جارہا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ NIAنے حریت پسند راہنماو¿ں الطاف احمد شاہ، پیر سیف اللہ، ایاز اکبر، شاہد الاسلام، راجہ معراج الدین کو بھی بلاجوازگرفتار کرکے دہلی منتقل کیا ہے جہاں ان کو تحقیقات کے نام پر ذہنی طور تارچر کیا جارہا ہے۔ حریت کانفرنس نے ایمنسٹی انٹرنیشنل، عالمی ریڈ کراس کمیٹی اور حقوق بشر کے لیے سرگرم دیگر اداروں سے اپیل کی کہ وہ کشمیری نظربندوں کی حالتِ زار کا نوٹس لیں اور ان کی فوری رہائی کے لیے اپنے اثرورسوخ کو استعمال میں لائیں۔