شفق کی سرخی دلفریب انداز میں سورج کو ودای دے رہی تھی ۔جھیل کنارے واقع رنگ برنگے پھولوں اور شگوفوں سے مزیںممتاز محل باغ ٹمٹماتی روشنیوں میں نہلا کرستارہ سحری کی کرنوں کے ڈھیر کے مانند چمک رہا تھا ۔ میں بے چینی کے عالم میں ریسٹورنٹ کی کھڑکی سے ایک نظرباغ میں موجود لوگوں کی بھیڑ ،جو ہر لمحہ بڑھتی ہی جا رہی تھی، کو دیکھ رہا تھااور ایک نظر سے رضوان کو، جو چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اخبار پڑھ رہا تھا۔
’’آج بڑے خوش نظر آرہے ہو‘‘۔
تنگ آکرمیں نے رضوان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کہا۔
’’خوش۔۔۔۔۔۔ کس بات پر؟‘‘
میری بات پر وہ چونک اٹھا۔
’’ارے یار ۔۔۔۔۔۔اتنی اچھی نوکری ملی ہے اور چھوکری ۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے اب جلد ہی تمہاری شادی بھی ہونے والی ہے‘‘ ۔
میں نے رضوان کو چھیڑنے کے لئے مذاق ہی مذاق میں پھبتی اڑاتے ہوئے کہا۔
’’کیا بات کرتے ہو راشد ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’کیوں! کسی حسینہ کے زلفوں کے اسیر ہوئے ہو کیا؟‘‘
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’تم نہیں سدھرو گے‘‘۔
کہتے ہوئے رضوان کے چہرے پر کئی بل آئے ،وہ ریسٹورنٹ سے باہر نکل کر جھیل کنارے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر گہری سوچوں میں ڈوب گیا۔۔۔۔۔۔ رضوان آج بڑی مشکل سے پکنک جانے کے لئے راضی ہوا تھا اور مجھے یقین تھا کہ آج وہ خوش ہے اور ہم دونوں سیر و تفریح کے ساتھ ساتھ خوب گپ شپ کرینگے۔لیکن ایک عمدہ پر کشش سیاحتی مقام ،جہاں ہر طرف رو نقیں بکھر ی ہوئی تھیں، پر بھی وہ تفریح سے لطف اندوز ہونے کے بجائے حسب عادت اداس ہو کر گہری سوچوں میں ڈوب گیا۔
رضوان میرا ہم جماعت اور بچپن کا لنگوٹیا یار ، حساس طبعیت اوربے ترتیب عادات کا مالک تھا، جس کے چہرے پر شاز و نادر ہی خوشی کی پرچھائیاں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ ہر سال کلاس میں دوسرے طلباء سے زیادہ مارکس حاصل کرکے اول آنے کے باوجود وہ اپنی کامیابی پر کبھی نازاں نہیں ہوتا تھا جب کہ میں اور دوسرے دوست بہت کم مارکس لینے باوجود موج مناتے تھے ۔ کالیج میں زیر تعلیم کئی خوب صورت لڑکیاں اس پر جان چھڑکتی تھیں لیکن کیا مجال کہ اس نے کبھی کسی پر رتی بھر توجہ دی ہو ۔چند سال قبل گریجویشن مکمل کرنے کے بعد جب مجھے کلرک کی نوکری ملی تو میری خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا ۔نوکری ملنے کے کچھ ہی مہینوں بعد میرے والدین نے درجہ چہارم کی ایک ملازم پیشہ لڑکی نفیسہ، جو انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کے بڑی مشکل سے ملی تھی ، سے میری شادی کردی۔ رضوان کو بھی میرے ساتھ ہی یہ نوکری ملی تھی لیکن اس نے ٹھکرائی تھی۔ اس کی عادتیں ،انداز گفتگو،چیزوں کو محسوس کرنے کے طریقے عام انسانوں سے بالکل مختلف تھے۔ اُسے تنہائی پسند تھی اور لوگوں سے بہت کم میل جول رکھتا تھا ۔بہت زیادہ سوچتا تھا ،گھنٹوں مطالعے میں مصروف رہتا تھا اور پابندی سے اپنی ڈائیری لکھتا کرتا تھا۔کبھی بھی یار دوستوں یا کسی کے ساتھ بے مقصد باتوں پر گفتگو میں حصہ نہیں لیتا تھا بلکہ اپنے ہی مزاج اور معیار کے لوگوں کی تلاش میں رہتا تھا۔
رضوان بظاہر کامیاب زندگی گزار رہا تھا۔اس کو کسی چیز کی کمی نہیں تھی، لیکن ہر سہولت میسر ہونے کے باوجود وہ اکثر اوقات اداس اور سوچوں میں گم رہتا تھا ۔کبھی کبھی اچانک اس کا موڈ بدلتا اور وہ سخت رنجیدہ ہوجاتا تھا ،بعض اوقات یہ دورانیہ ہفتوں تک محیط رہتا تھا، جس میں وہ سخت بے چینی اور بے دلی کا شکار ہوتا تھا ۔اپنے ہی وضع کردہ اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے سبب اپنے آپ کو زندگی کی کئی نعمتوں،حتیٰ کہ کبھی کبھی رشتوں کی چاشنی سے بھی محروم کر دیتا تھا ۔ رضوان کا زندگی گزارنے کا یہ طریقہ مجھے بالکل پسند نہیں تھااور کبھی کبھی مجھے اس پر بہت غصہ آتا تھا لیکن دوستی کے ہاتھوں لاچار تھا ۔
کچھ دیر سوچتے سوچتے جھیل کنارے ادھر اُدھر گھومنے کے بعد میں رضوان کے پاس واپس آیا تو وہ سنجیدہ انداز میں اپنی ڈائیری پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا ۔میں اس کے قریب ہی بیٹھ گیا تاکہ اس کے فارغ ہوتے ہی اپنے مقصد کی بات چھیڑدں۔رضوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب ایک اچھے انتظامی عہدے پر فائض ہوچکا تھا ،اب اس کے لئے کئی اچھے رشتے آرہے تھے جن میں سے ایک لڑکی ،جو حسن وجمال میںلا جواب تھی، اس کے والدین کو بہت پسند آئی تھی۔وہ رشتہ طے کرنے کے لئے اتاولے ہو رہے تھے لیکن رضوان کی طرف سے انہیں مثبت جواب نہیں مل رہا تھا ۔ رضوان کی ماں نے اس کو راضی کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی تھی ۔میں رضوان کو اپنی بات کہنے ہی والا تھا کہ دفعتاًاس نے ڈائیری نیچے رکھی ا ور باغ کے ایک کونے میںموجود واش روم کی طرف چلا گیا ۔کچھ لمحوں بعد ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور ڈائیری کو کچھ دور لے گیا ۔میں نے اٹھ کر جونہی ڈائیری اٹھائی تو اچانک میری نظر رضوان کی تازہ تحریر پر پڑی۔
ممی اور ڈیڈی کو میری شادی دوسرے شہر کی ایک لڑکی ،جو پیشے سے ڈاکٹر ہے ،سے کرنے کی جلدی ہے ۔ہمارے شہر کی کتنی دلہنیں، یہاں تک کہ اپنے ہی خاندان میں کئی تعلیم یافتہ بالغ لڑکیاں مجسمے بنی ہوئی ہیں،جن کے ہاتھ محض اس وجہ سے مہندی کے لئے ترس رہے ہیں اور انکی عمر نکل رہی ہے کیوں کہ انہیں کوئی سرکاری نوکری نہیں مل پا ئی ہے ۔
اجس بانڈی پورہ (193502)کشمیر
ای میل۔۔۔۔۔۔ [email protected]
فون نمبر9906526432