مصنف:نور شاہ
صفحات:196 ،قیمت:250
ناشر:میزان پبلشرز سرینگر
یوں تو زندگی کا کسی مقام پر ٹھہرائو نہیں ہے لیکن اس بہائو میں وقت نئے نئے واقعات کو جنم دیتا ہے اور ہر واقعہ انسانی زندگی پر مثبت و منفی اثرات مرتب کررہا ہے اور اکثر وبیشتر یہ رویے انسانی زندگی پر غالب آکر معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن جاتے ہیں ۔اہل دل اس صورت حال پر کڑھتے ہیں اور تخلیق کار اسے موضوع بناتے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب’’آسمان پھول اور لہو‘‘ ریاست کے ایسے ہی تخلیق کار نور شاہ صاحب کے افسانوں کا مجموعہ ہے ۔فکشن، جن میں افسانے، ناول اور ڈرامے شامل ہیں، پر مبنی نور ؔشاہ کی 16کتابیں شائع ہوکر اُردو ادب کا حصہ بن چکی ہیں۔ زیر نظر کتاب 196 صفحات پر مشتمل افسانوی مجموعے کاپہلا عنوان’’ انتساب‘‘ہے جو انھوں نے صبا اور ریحان کے نام لکھا ہے۔ ’اس کے بعد عنوانات کی فہرست دی گئی ہے۔مجموعے میں شامل دو مضامین، ڈاکٹر فرید پربتی (مرحوم) کے ’’نور شاہ کے افسانے ۔۔میری نظر میں‘‘اور پروفیسر شکیل الرحمان ’’ذکر نور شاہ کی نئی کہانیوں کا‘‘، میں نور شاہ صاحب کے ادبی ذوق شوق و مشاہدات کو اختصار کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔نور شاہ صاحب کی نظر میں افسانہ ایک مکمل تجربہ ہے۔یہ سچ ہے کہ دنیا میں موضوعات کی کمی نہیں ہے۔شرط وہ نظر ہے جو ان موضوعات کے مشاہدے کو فنی گرفت میں لے کر فکر وخیال کی آمیزش سے تجربہ بنانے دے۔افسانہ اسی تخلیقی تجربے کا نام ہے جو زندگی کے کسی گوشے پر منحصر ہوتا۔بسا اوقات یہ گوشہ اتنا جامع ہوتا ہے کہ اس میں پوری زندگی اپنے نشیب وفراز کے ساتھ سمٹ آتی ہے۔’’آسمان ،پھول اور لہو‘‘کے مصنف اسی خیال کے زیر اثر اپنے افسانوں کو قاری کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مجموعے میں۲۹افسانے شامل ہیں، جن کے عنوان کچھ اس طرح ہیں۔ایک کڑی ۔چار کہانی،دلہن،ایک لمبی عمر،آگے خاموشی،کھڑی‘روشنی اور ہوا،آگ اوردھواں،جو میرے قریب ہیں،سودگرا،نہ کہی جانے والی بات،تیسرا شوہر،کوئی رونے والا نہیں،ایک زخم اور سہی،آسمان پھول اور لہو،خواب بکتے ہیں،گیلی مٹی،کل کا دکھ،بلیک آوٹاور بند آنکھوں کا سفر وغیرہ۔
بیشتر افسانے متصادم سیاسی فکر و عمل کی آماجگاہ خطہ کشمیر کے سیاسی حالات واقعات پر مشتمل ہیں۔مجموعے میں شامل افسانہ ’’آگے خاموشی ہے‘‘سپاٹ بیانیہ میں سماج کی ان خرابیوں کو پیش کرتاہیں جس سے ہماری نئی نسل کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔یہ افسانہ کورپشن جیسے موضوغ کی عکاسی کرتا ہے۔افسانے کا اقتباس ملاحظہ ہوں: ’’اور اس کے بعد اس نے نوکری کی تلاش میں اپنی رفتار اور تیز کردی لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ رفتار تیز کرنے سے ملازمتیں نہیں ملتیں نوکریاں تو سفارش کے بے اختیار پیسے سے بندھی ہوتی ہیں۔جہاں پہنچنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔(آسمان ،پھول اور لہو۔۔ص۔۔۲۸)
افسانہ ’’سوداگر‘‘ میں تقسیم برصغیر کے بطن سے پھوٹے ناسور لائن آف کنٹرول کے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات کو ایک نئے زوایئے سے دیکھنے کی عمدہ کوشش ہے۔لائن آف کنٹرول کے ارد گردہوئی خون ریزی پر بہت سے جموں و کشمیر کے فن کاروں نے طبع آزمائی کی ہے۔مگر نور شاہ صاحب نے جس طریقے سے افسانہ کو برتا ہے وہ اسے انفرادیت بخشتا ہے۔سرحد کے اِس پار یا اُس جانب دونوں انسانیت کا نقصان ہوتا ہے۔زمینی خدائوں کے قہر سے انسان کو اپنے جان ومال سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔سرحدی تنائو سے اُبھرنے والی بہت سی کریہہ المنظر صورتوں کو افسانہ نگار نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ایک اکائی میں ڈال دیا ہے۔مجموعے میں شامل دو افسانے ’’کوئی رونے والا نہیں‘‘ اور ’’تیسرا شوہر‘‘میں عورتوں کی نفسیات اور ان کے مسائل کو موضوع بنایا گیاہے۔جن میں عورتوں کی نفسیاتی الجھنوں،سماجی حیثیت اورعزت نفس جیسے مسائل پیش کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔افسانہ’’ کوئی رونے والا نہیں‘‘ایک ایسا سنگین موضوع ہے جو سرحدی حد بندیوں سے ماوریٰ دنیا بھر میں نئے سماجی سسٹم کے لئے چیلنج کی صورت میں اُبھررہا ہے۔ یہ افسانہ آبرو ریزی کی عکاس کرتا ہے۔یہ ایک ایسی سسکتی آواز ہے جو بار بار یہ باور کراناچاہتی ہے کہ آخر میرا قصور کیا ہے۔افسانے کا اقتباس ملاحظہ ہوں: ’’میں ابھی آپریشن تھٹیر سے پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد اپنے کمرے میں آگیا ہوں،آپریشن
ٹیبل پر جس لڑکی کی لاش پڑی ہے وہ بھی گینگ ریپ کا شکار ہوئی ہے۔‘‘(آسمان پھول اور لہو۔۔ص۔۔۷۵)
جہا ں تک میں سمجھتا ہوں اس مجموعے کا سب سے اہم افسانہ ’’آسمان پھول اور لہو‘‘ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نور شاہ صاحب نے اس افسانے کے عنوان کو اپنے مجموعے کے لئے نام کے بطور منتخب کیاہے۔ ’’آسمان پھول اور لہو‘‘میں انھوں نے ریاست کے سیاسی مسائل اور اسکے عوامل کو موضوع سخن بنیا ہے۔ ریاست کا سیاسی مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا درد وکرب ہر ذی شعور محسوس کرتا ہے۔یہ افسانہ تملق پسند سیاست دانوں پر کاری ضرب لگاتا ہے، جو ناپاک سیاست کے توے پر اپنی روٹیاں سینکتے ہیں۔اس افسانے میں ناپاک سیاست کے نقشوں کوکھینچا گیا ہیں۔مثا ل کے طور پر افسانے کا ایک اقتباس دیکھیے:’’جب جب لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں نفرت ،انتشار اورتشدد کی آگ بھڑکتی ہے تو خلوص اور محبت کے پھول جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔دوروز بعد میں اپنے لان میں بیٹھی اخبار پڑھ رہی تھی ایک تصویر دیکھ کر میری نظریں جم کررہ گئیں۔یہ تصویر ایک عورت کی تھی، خون میں لت پت لہو کے رنگ میں ڈوبی ہوئی۔اس مردہ جسم کے قریب ہی وہ چیزیں صاف نظر آرہی تھیں۔ گڑیا اور سپید پھولوں کا گلدستہ ،گڑیا جیسے دلہن بننے سے پہلے ہی بیوہ ہوچکی تھی اور سپید سپید پھول لہو کا رنگ اپنا چکے تھے‘‘۔(آسمان پھول اور لہو۔۔ص۔۔۸۷)
مذکورہ بالاافسانوں کے علاوہ جھیل اور کالے سائے،مجروح قافلے کی داستان،ایک کہانی کے تین باب،کھڑکی،دورا ٓتا ہے دبے پائوں، اڑان، دائرے،میرے حصے کے خواب،گھر سے گھر تک اور خوابوں کا سفریہ تمام اس کتاب میں شامل ہیں جو مختلف موضوعات پر مشتمل ہیں۔جن میں سماج کے مختلف مسائل کو نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کرنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی ہے۔ نور شاہ صاحب کے افسانوں سے پتہ چلتا ہے کہ معاشرہ اور ماحول پر ان کی گہری نظر ہے۔ڈاکٹر مشتاق وانی رقمظراز ہیں:’’نور شاہ ۔۔۔۔انھوں نے اپنی آنکھوں سے کشمیر کے جن بد ترین حالات اور ماحول کو دیکھا اسے حقیقت پسندکہانی کار کی طرح اپنی کہانی میں پیش کیا ہے۔گویا ایک تلخ حقیقت سچائی کا ذکر جس فنکارانہ سطح پر کیا گیاہے وہ اپنی نظر آپ ہے۔‘‘(فکر وتحقیق ۔افسانہ نمبر۔۔۲۰۱۳۔۔ص۔۔۳۲۱)۔ افسانوں کی زبان آسان ہے، جس سے قاری اور متن کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔اچھے افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں آخر تک تجسس بر قرار رہے ۔یہ خوبی ’’آسمان پھول اور لہو‘‘میں بدرجہ اتم موجود ہے۔کتاب کی طباعت کا فی اچھی ہے۔قیمت بھی مناسب ہے۔امید قوی ہے کہ یہ کتاب نئے لکھنے والوں کے لئے مفید ثابت ہوگی۔
رعناواری سرینگر،رابطہ:9697330636 ،salimsuhail3@gmail