ڈوڈہ//پوری ریاست کی طرح ڈوڈہ میں بھی پی ڈی پی نے اپنا 18واں یومِ تاسیس منایا۔اس موقع پر ٹائون ہال ڈوڈہ میںپارٹی کے جنرل سیکریٹری شیخ محبوب اقبال کی صدارت میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں ضلع بھر کے سینکڑوں کارکنان نے شرکت کی۔ اس موقع پرپارٹی کے جواں سال لیڈر اور ایم ایل سی فردوس احمد ٹاک بطورِ مہمانِ خصوصی موجود تھے جنہوں نے پارٹی کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے اپنے مسائل اُجاگر کرنے، اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے اور تعمیر و ترقی اور مختلف اسکیموں کے بارے میں بات کرنے کا حق ریاستِ جموں وکشمیر کے لوگوں کو پی ڈی پی کی وجہ سے ملا ہے،ورنہ یہاں کے لوگ جب صبح گھر سے نکلتے تھے تو اُنہیں اس بات کا یقین نہیں ہوتا تھا کہ وہ شام کوصحیح سلامت واپس لوٹیں گے۔اُنہوں نے کہا کہ2002ء تک عام لوگ مختلف سرکاری اسکیموں کے بارے میں کچھ بھی نہیں جاتے تھے اور اُنہیں جان بوجھ کر ان اسکیموں اور عوامی فلاح و بہبود کے پروگراموں سے بے خبر رکھا جاتا تھا۔ سیاسی استحصال کا یہ عالم تھا کہ ایک ہی شخص مسجد کی امامت اور محلے سے لے کر اسمبلی تک کے تمام معاملات اپنی خواہشا ت کے مطابق انجام دیتا تھا اور کسی دوسرے کی مداخلت قطعاً برداشت نہیں کی جاتی تھی۔مرحوم مفتی محمد سعید کی سیاسی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے ٹاک نے کہا کہ مرحوم لیڈر نے ہمیشہ حزبِ اقتدار کی بجائے حزبِ اختلاف میں رہ کر کام کرنے کو ترجیح دی اور سیاست کے میدان میں یہی اُن کی انفرادیت تھی۔اُنہوں نے عام سیاستدان کی طرح اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ اُنہیں اقتدار کی کرسی ملتی ہے یا نہیں۔اُنہوں نے کہا کہ ریاست میں جب شیخ محمد عبداللہ کا دور دورہ تھا اور کوئی اُن کے خلاف بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا،یہ مرحوم مفتی محمد سعید تھے جنہوں نے شیخ محمد عبداللہ کے استحصال کے خلاف آواز اُٹھائی اور اُن کے سیاسی قد کی پرواہ کئے بغیر اُن کے سامنے کھڑے ہوئے۔اُنہوں نے کہا کہ مرحوم لیڈر نے کانگریس میں اُس وقت شمولیت اختیار کی تھی جب یہاں کانگریس کا نام لینا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔اُنہوں نے اپنی محنت اور خداد داد صلاحیتوں سے ریاستی کانگریس کوبلندیوں تک پہنچایا اور جب کانگریس اپنے عروج پر تھی تو اسے بھی خیر باد کہا۔اُنہیں دوبارہ کانگریس میں لایا گیا اور1986ء میں اُنہیں مرکزی وزیر بنایا گیا،مگر 1987ء میں وہ پارٹی کی غلط پالیسیوں اور کورپشن کی وجہ سے مستعفی ہو گئے۔وی پی سنگھ کے دور میں وہ ملک کے پہلے مسلمان وزیرِ داخلہ بنے۔1999ء میں اُنہوں نے ایسے حالات میں پی ڈی پی کی بنیاد رکھی جب کوئی ریاست میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے متبادل کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا،مگر تین سال کے مختصر سے عرصہ میں ہی یہ ثابت ہو گیا کہ اُن کی سوچ بہت اونچی تھی۔اُنہوں نے کہا کہ آج جب این سی اور کانگریس کے66سالہ دورِ حکومت کا موازنہ پی ڈی پی کے پانچ سالہ دور سے کیا جاتا ہے تو66سال والوں کا سر شرم سے جھک جاتا ہے جب کہ پی ڈی پی کارکنان کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کا ریاست اور پورے ہندوستان سے صفایا ہو چکا ہے،کانگریس ملک میں اب واپس آنے والی نہیں جب کہ نیشنل کانفرنس نے اپنا حال ریاست میں بہت پہلے خراب کر دیا ہے۔وہ لوگوں کے پاس کوئی پروگرام لے کر نہیں جاتے بلکہ وہ پی ڈی پی کی تنقید اور مخالفت کر کے اقتدار میں واپس آنا چاہتے ہیں جب کہ پی ڈی پی اپنی پالیسیاں اور اپنا پروگرام لے کر لوگوں کے پاس جاتی ہے۔اُنہوں نے پارٹی کارکنان کو ہدایات کی کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں دن رات محنت کرکے پارٹی کو مضبوط بنائیں کیوں کہ پارٹی مضبوط ہے تو ہم سب مضبوط ہوں گے۔ اگر آپ نے محنت کی تو ریاست میں پی ڈی پی کا کوئی متبادل نہیں رہے گا۔اپنے صدارتی خطاب میں شیخ محبوب اقبال نے کہا کہ مسئلۂ کشمیر کے حل کے سلسلہ میں وقتاً فوقتاً اُٹھائے گئے مختلف اقدامات کو مفتی محمد سعید نے کبھی تسلیم نہیں کیا کیوں کہ اُن کے پاس اپنا یاک رود میپ تھا جس کے مطابق وہ اس مسئلے کا حل چاہتے تھے۔اُن کے اس روڈ میپ کی وجہ سے ہی پی ڈی پی کے قیام کے تین سال بعد ہی لوگوں نے اُنہیں ووٹ دیا اور اسمبلی میں اُنہیں16سیٹیں مل گئیں جس وجہ سے اُنہیں ریاست کا وزیرِ اعلیٰ بننے کا موقع ملا۔ریاست کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اُنہوں نے نہ صرف یہاں امن قائم کیا اور لوگوں کو سکون کی زندگی جینے کا موقع فراہم کیا بلکہ اُنہوں نے تعمیر و ترقی کے ایسے ریکارڈ قائم کئے جن کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔اُنہوں نے کہا کہ مرحوم مفتی محمد سعید کو صرف تین سال حکومت کرنے کا موقع ملا ،اگر وہ چھ سال تک وزیرِ اعلیٰ رہتے تو ریاست کے حالات ہمیشہ کے لئے ٹھیک ہو جاتے۔اُنہوں نے کہا کہ مفتی محمد سعید کا بی جے پی کے ساتھ اتحاد وقت کی ضرورت تھی اور اگر پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت نہ بنائی ہوتی تو نیشنل کانفرنس تیار بیٹھی تھی۔اُنہوں نے کہا کہ ریاست میں جی ایس ٹی کا نفاذ ریاستی حکومت کی مجبوری تھی کیوں کہ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو ریاست کا کاروبار بند ہو جاتا اور ریاست کے بارہ سے کوئی مال نہیں لا سکتا تھا۔اُنہوں نے کہا کہ پی ڈی پی نے دفعہ 370پہ آنچ نہیں آنے دی بلکہ اسے مضبوط کیا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ جو بی جے پی دفعہ 370کو ختم کرنے کی ہمیشہ سے وکالت کرتی رہی ہے پی ڈی پی نے اُس کی حکومت سے یہ تحریر لی کہ دفعہ370کے ساتھ کوئی چھیر چھاڑ نہیں کی جائے گی۔اُنہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد اپنی پارٹی کو مضبوط کرنا ہے اور ہم کسی اور کے لئے کام کرنے والے نہیں ہیں۔اس سے قبل پارٹی کے ضلع صدر شہاب الحق بٹ نے محبوبہ مفتی کی قیادت والی ریاستی مخلوط حکومت کی حصولیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت ضلع ڈوڈہ کی ہمہ گیر تعمیر و ترقی ی وعدہ بند ہے اور اس سلسلہ میں اگرچہ ابھی تک بہت کام ہوا ہے مگر بہت کچھ ابھی باقی ہے۔اُنہوں نے کہ کہ وہ ڈوڈہ میں کلسٹر یونیورسٹی ،خود مختیارJKBOSEڈوڈہ اورجموں وکشمیر ہائی کورٹ بینچ کے قیام اور دیسہ کپرن سڑک کی تعمیر کے لئے جدوجہد کریں گے ۔اس موقع پر متعدد سیاسی کارکنان نے پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کرنے کا اعلان کیا جن جن میںمولوی عبدالطیف،محمد عباس وانی،ارشاد احمد کمل،عامر اندرابی،غلام حسین شیخ،زبیر احمد،فیصل اندرابی،اعجاز احدم ،نوید احمد،جاوید احمد ،ذاکر حسین،فاروق احمد وانی،محمد شفیع سی،ندیم احمد،ریاض احمد نیائک،شاہد سلیم،جاوید جعفر،مشرف حسین،فیض احمد،سید مزمل،محمد رضان پڑے،غلام حیدر،طیب شاہ،ماجد حسین،بشیر احمد،نور محمد،محمد اشرف،اسداللہ پڑے،اسماعیل چوہدری،عابد حیسن،جرنیل سنگھ،غلام حسین شیخ اور عابد مولوی وغیرہ شامل ہیں۔اس موقع پر پارٹی کے زونل صدر ریاض حسین منٹو،ہوشیار سنگھ،غلام رسول چوہدری ،عبدالرحمن کشمیری،محمد اقبال بٹ،ٹھاکر یدھویر،یوتھ صدر ساجد میر،یوتھ سیکریٹری،سجاد احمد کھوکھر،ارشاد حمد ،غلام محمد نیائک،ارشاد احمد،راجہ رشید وغیرہ بھی موجود تھے۔