سرینگر// اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ محکمہ کمرشل ٹیکس8سرکاری محکموں سے زائد از67کروڑ رپے کا سیلز ٹیکس وصول کرنے میں ناکام ہوچکا ہے جبکہ کمپٹولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کی رپورٹ میں متعلقہ محکمہ پر رقومات کے بقایاجات سے متعلق غلط رپورٹ پیش کرنے کا بھی الزام عائد کرتے ہوئے کہا گیا کہ واجب الادا رقومات کے حساب کے جانچ پڑتال کے دوران 147 کروڑ 8لاکھ روپے کا فرق سامنے آیاہے۔ کیگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف سرکاری محکموں کے پاس بھی 67کروڑ52لاکھ روپے واجب الادا ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ8سرکاری محکموں کے پاس20کروڑ 11لاکھ اور7نیم سرکاری محکموں کے پاس47 کروڑ41 لاکھ روپے کی رقم واجب الادا ہے۔رپورٹ میں متعلقہ محکمہ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ واجب الادا رقم کی حصولیابی کیلئے کمرشل ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے کوئی بھی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا،اور نہ ہی ان کیسوں کا تعاقب کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں متعلقہ محکمہ نے2016 میں یہ وضاحت پیش کی کہ رقومات کی وصولیابی کیلئے سرکاری محکموں کو تازہ نوٹسیں ارسال کی گئی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محکمہ کمرشل ٹیکس کے مختلف سرکلوں میں احاطہ کرنے والے افسران نے کلکٹر( ڈپٹی کمشنر ریکواری کشمیر اور جموں) کو آمدنی بقایاجات کے جودستاویزات ،جموں کشمیر لینڈ ریوینو ایکٹ 1996کے تحت اس رقم کی وصولیابی کیلئے پیش کئے ہیں،جبکہ ان دستاویزات میں جو بقاجات کی رقم درج کی گئی ہے،اس کا اندراج محکمہ کی بقایاجات وصولنے والی ونگ نے’’ ریوینو ریکاوری سرٹیفکیٹ‘‘ بھی دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آڈٹ کے دوران جب ڈپٹی کمشنر ریکوراری جموں کے ریکارڑ کا ’’کراس چیک‘‘ کیا گیا،تو147کروڑ8لاکھ روپے کا فرق سامنے آیا،جس کو کمشنر کمرشل ٹیکس کی نوٹس میں بھی لایا گیا۔کیگ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر ریکاوری جموں کے حسابجات کے آڈٹ کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ بقایاجات کے4کیسوں میں وصولیابی کے تقاضے سے متعلق نوٹس اجرا کرنے اور گرفتاری کی وارنٹ کے وقت واجب الادا رقم کو کم کیا گیا ہے،جس سے محکمہ کو3کروڑ16لاکھ روپے کے خسارہ کا سامنا کرنا پڑا۔ رپورٹ میں ڈپٹی کمشنر ریکاوری جموں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ انہوں نے بتایا کہ حساب جات میں فرق اپریل2016میں’’پرفارمنس انڈیکیٹر‘‘ میں ترمیم کی وجہ سے ہوئی ہے۔اس دوران آڈٹ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ محکمہ نے2010سے لیکر2016تک66ڈیلروں سے بقایاجات کی رقم پر سو د یا تو عائد ہی نہیں کیا یا 2فیصد سے کم شرح عائد کیا جس کی وجہ سے خزانہ عامرہ کو25لاکھ18ہزار روپے کے نقصان سے دو چار ہونا پڑا۔