گیلانی کی خانہ نظر بندی ،میرواعظ پر قدغنیں اور یاسین ملک کی اسیری

Kashmir Uzma News Desk
7 Min Read
سرینگر//لبریشن فرنٹ کے زونل صدر نور محمد کلوال نے کہا ہے کہ فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک کی اسیری کو طول دینے کیلئے نت نئے حربے استعمال کئے جارہے ہیں جو قابل مذمت طرز عمل ہے ۔ فرنٹ زونل صدر نے کہا کہ پچھلے کئی برس سے بالعموم لیکن پچھلے ایک برس سے بالخصوص یاسین ملک کو بار بار گرفتار کرنا اور جیل میں ڈالنا حکمرانوں کا عام وطیرہ بن چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک تخمینے کے مطابق پچھلے ۳۶۰؍ ایام کے دوران یاسین ملک کو ۲۰۰ سے زائد ایام کیلئے جیلوں اور پولیس تھانوں میں قید رکھا گیاجبکہ ان یام کے دوران انہیں ۲۵ سے زائدبار گرفتار کیا گیا۔اس کے علاوہ سال بھر میں جتنے بھی دن وہ آزاد تھے پولیس ان کی ٹوہ میں لگی رہی اور کئی بار انہیں پرامن پروگراموں میں شرکت کیلئے روپوش بھی ہونا پڑا۔انہوں نے کہا کہ اس لمبی قید و بند اور بار بار کی گرفتاریوں نے لبریشن فرنٹ چیئرمین کی صحت کو انتہائی حد تک بگاڑ دیا ہے اور حالیہ ایام کے دوران کئے گئے طبی ٹیسٹ نے بھی ان کے دل اور گردوں میں تکالیف بڑھ جانے کو ظاہر کردیا ہے۔نور محمدکلوال نے کہا کہ ابھی چند روز قبل انہیں پولیس حراست میں ہی معروف ماہر امراض قلب اور سرجن ڈاکٹر انل بھان جی اور اس سے قبل ایک اور معروف ماہر امراض قلب ڈاکٹر خورشید اقبال کے پاس لیجایا گیا اور دونوں ڈاکٹر صاحبان نے ان کے مصنوعی ہارٹ والیو میں خرابی کی تصدیق کی ۔ آخری بار کے ٹیسٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان کے دل میں موجود مصنوعی والیو کا بہائو جو کہ ۲۵ سے ۴۰ کے درمیان ہونا چاہیے اب ۳۴؍ ایم ایم ایچ جی لیول کو پہنچ چکا ہے ۔اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحبان نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ اسکی مزید تشخیص کرائیں تاکہ ان کا صحیح اور بروقت علاج ممکن ہوسکے۔نور محمد کلوال نے کہا کہ یاسین ملک کی صحت کو لاحق ان خطرات کے باوجود حکمرانوں اور انکی پولیس نے انہیں مسلسل جیل میں رکھا ہوا ہے اور انہیں مناسب طبی سہولیات سے محروم رکھا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ فرنٹ چیئرمین کو ۲۱؍ جولائی کے روز نائب چیئرمین مشتاق اجمل اور سینئر رکن غلام محمد ڈار کے ہمراہ ڈل گیٹ سے گرفتار کیا گیا تھا ۔ ابتداء میں انہیں ۲۵ جولائی تک کیلئے جوڈیشل ریمانڈ پر سرینگر سینٹرل جیل میں ڈال دیا گیا لیکن اچانک ۲۴؍ جولائی کے روز پولیس ان کیلئے ۵؍ اگست تک کیلئے ایک عدد نیا ریمانڈ لے کر آگئی تاکہ انکی اسیری کو طول دیا جائے۔زونل صدر جے کے ایل ایف نے کہا کہ عجیب معمہ ہے کہ ایک طرف حکمران جمہوریت اور امن و امان کی بڑی بڑی باتیں بناتے پھر رہے ہیں اور اعلیٰ اخلاقیات اور انسانیت کے بلند بانگ دعوے کرنے سے بھی نہیں کتراتے لیکن دوسری جانب ان کی جمہوریت کا یہ حال ہے کہ جموں کشمیر میں انہوں نے بدترین آمریت کو لاگو کررکھا ہے ،جہاں۸۰ سالہ بزرگ علیل قائد سید علی شاہ گیلانی کو سالہاسال سے خانہ نظر بند رکھا ہواہے اور جہاں میرواعظ محمد عمر فاروق جیسے عوامی قائدین کو پریس کانفرنس کرنے تک سے روکا جاتا ہے۔نور محمد کلوال نے کہا کہ ان ہند نوزاوں سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر ان کے جمہوری اور پرامن بقائے باہمی کے دعوے اور فرامین میں کوئی سچائی ہے تو کیا وہ بتاسکتے ہیں کہ علیل محمد یاسین ملک کو جیل میں رکھنے، بزرگ سید علی شاہ گیلانی کو خانہ نظر بند رکھنے اور جوان سال قائد میرواعظ محمد عمر فاروق کو نماز جمعہ کی پیشوائی سے لیکر پریس کانفرنس میں اپنے خلاف ہونے والے بھارتی میڈیا ٹرائل کا جواب دینے سے روکنا کون سی جمہوریت اور کس قسم کا قیام امن ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف مزاحمتی قائدین و اراکین کو انہی حکمرانوں اور انکی پولیس نے پکڑ پکڑ کر این آئی ا ے اور ای ڈی کے حوالے کیا اور دوسری طرف لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے یہی پی ڈی پی حکمران دعوے کرتے پھررہے ہیں کہ حریت قائدین و مزاحمت کاروں کو گرفتار کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دراصل یہ ڈرامہ بازی عوامی حلقوں کو دھوکہ دینے کیلئے کی جارہی ہے حالانکہ ان حکمرانوں کی اصلیت یہ ہے کہ اپنی حکمرانی کو دوام بخشنے کیلئے یہ اپنے دلی و ناگپوری آقائوں کے اشاروں پر کام کرتے رہنے پر ہی مامور و مطمئن رہتے ہیں۔لبریشن فرنٹ قائد نے سوال کیا کہ اگر واقعتاً ان حکمرانوں کے نزدیک گرفتاریاں کوئی حل نہیں تو کیا یہ بتاسکتے ہیں کہ آئے روز جوان و بزرگ کیوں پی ایس اے لگالگا کر جیلوں میں ٹھونسے جارہے ہیں اور قائدین کو کیوں نظر بند اور خانہ نظر بند رکھا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کا یہ سفاک اور منافقانہ رویہ ہی ہے کہ جو کشمیریوں کو پشت بہ دیوار کررہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ رویہ انتہائی غیر جمہوری اور انسانی و اخلاقی اقدار کے منافی ہے لیکن ظلم و جبر کے ان ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیری اس کے خلاف اپنی مزاحمت بھرپور اندازمیں جاری رکھیں گے۔ زونل صدر نے نام نہاد حکمرانوں کو خبردار کیا کہ اگر لبریشن فرنٹ کے علیل چیئرمین سمیت دوسرے قائدین و مزاحمت کاروں کی صحت یا زندگیوں کو کوئی بھی خطرہ لاحق ہوا تو حالات کے بگڑنے کی تمام تر ذمہ داری خود ان حکمرانوں کے ہی سر عائد رہے گی۔
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *