سرینگر//شبیر احمد شاہ کی گرفتاری کو سیاسی انتقام گیری قرار دیتے ہوئے فر یڈم پارٹی کے سیکرٹری جنرل مو لا نا محمد عبداللہ طاری نے کہا ہے کہ ایک گہری سازش کے تحت مزاحمتی قائدین کو جھوٹے کیسیوں میں الجھایا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بھارت الزام تراشیوں کے سہارے ،گرفتاریوں اور تعذیب کا چکر چلاکر ہماری مبنی بر حق جدوجہد کو بزور طاقت دبانا چاہتا ہے ۔ سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے فر یڈم پارٹی کے سیکرٹری جنرل مو لا نا محمد عبداللہ طاری اور ایڈوکیٹ فیاض احمد سوداگرنے کہا کہ جدوجہد آزادی کے معروف رہنماء سینئر حریت لیڈر اور ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے چیرمین شبیر احمد شاہ کو اینفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے گرفتار کرکے دہلی پہنچادیا ہے جہاں انہیں ذہنی اور جسمانی اذیتیں پہنچائی جارہی ہیں ۔ان کا کہناتھا کہ حریت پسند قائدین کے خلاف گرفتاریوں کا چکر چلانے ،بھارتی میڈیا کے ذریعے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات عائد کرکے اور انہیں جسمانی اذیتوں سے دوچار کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ جموں کشمیر کے عوام کو تحریک آزادی سے متنفر کیا جائے اور انہیں لیڈر شپ کے بارے میں بدظنی میں مبتلا کیا جائے ۔طاری نے کہایوں بھارت الزام تراشیوں کے سہارے ،گرفتاریوں اور تعدیب و تعذیب کا چکر چلاکر ہماری مبنی بر حق جدوجہد کو بزور طاقت دبانا چاہتا ہے ۔مزید یہ کہ اب لیڈرشپ پر ٹرر فنڈنگ اور بیرونی ممالک سے فنڈس وصول کرنے کے نام پر ہراسان کیا جارہا ہے اور اس طرح بھارتی فوجیوں کے ہاتھوںڈھائے جارہے ظلم و ستم پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوششیں کی جارہی ہے اور دوسری طرف بیرونی ٖممالک سے فنڈس کے حصول اور حوالہ رقومات کا ہوا کھڑا کرکے یہ باور کرانے کی کوششیں کی جارہی ہے کہ رواں جدوجہد مقامی نوعیت کی نہیں بلکہ بیرونی ممالک کی شہہ پر اور فنڈس کے سہارے یہ قائم ہے۔ان کا کہناتھا ’ہم یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بھارت اور اس کے مقامی حاشیہ بردار جب عوامی جزبے کو دبانے میںناکام رہے تو انھوں نے حریت پسند قائدین کو ہدف تنقید بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں گرفتار کرکے اور کئی ایک کو دہلی میں مقید رکھا۔ہمارا ماننا یہ ہے کہ اس طرح کے الزامات کی کھلی اور شفاف جانچ کے لئے ریاست کے آئین کے اندر کافی گنجائش تھی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ جو لوگ Self Rule,Battle of Ideas خیالات کی جنگ اورگولی کے بدلے بولی کا نقارہ بجارہے تھے ،انھوں نے ہی اس طرح کی کاروائیوں کے لئے اپنی حامی بھرلی اور یوں انتقامی جزبے کے تحت نہ صرف حریت قیادت کو دہلی کے ہاتھوں میں سونپ کر من مانی کرنے کی کھلی ڈھیل دی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ انہی لوگوں کا کیا دھرا ہے‘ ۔فر یڈم پارٹی کے سیکرٹری جنرل مزید بتایا کہ ریاستی انتظامیہ اگر قائدین کے خلاف بے بنیاد کیسسز کی بنیاد پر تحقیقات کرانے پر بضد ہی تھی تو اُنہیں دہلی میں مقدمے درج کرانے کے بجائے جموں کشمیر کے آئین کے تحت اپنی ضد پوری کرنے کے لئے کافی مواقع تھے لیکن اس کے باوجود آزادی پسند قیادت کے خلاف انتقام لینے کے لئے اور انہیںجسمانی اذیتوں سے گزارنے کیلئے مقامی انتظامیہ نے اپنی حامی بھرلی،انہیں دہلی کے حوالے کیا اور یوںاقتدار کے سنگھاسن پر رہنے کے لئے انھوں نے اس سارے ڈرامے کے لئے منتخب مہروں کو حرکت میں لایا۔ شبیر احمد شاہ سال2011میں جیل سے رہا ہونے کے بعد اکثر و بیشتر گرفتار رہے یا ان کو اپنے گھر میں نظر بند رکھا گیا اور اس طرح انہیں نہ کسی سے ملنے دیا گیا اور نہ انہیںپُر امن سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ۔شبیر احمد شاہ اس وقت دہلی میںاینفورس منٹ کی تحویل میں قید تنہائی کی زندگی گزاررہے ہیں ۔انہیں کوئی سہولیت میسر نہیں ۔کپڑے تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ۔شبیر احمد شاہ کوایک ایسے کمرے میں رکھا گیا ہے جس کے ساتھ ہی ایک گندی ندی گزرتی ہے اور گندگی کے ڈھیر اور مچھروں کی بہتات کی وجہ سے وہ اچھی طرح آرام بھی نہیں کرسکتے اور حد یہ ہے کہ انہیں پائوں میں چپل پہننے کی بھی اجازت نہیں اوردہلی کی ان شدید گرمیوں میں پنکھا بھی میسر نہیں ۔مچھروں نے ان کے سارے جسم پر ڈنک مارکر متاثر کیا ہے اور صاف دکھائی دے رہا ہے کہ انہیںمارنے کی سازش کی جارہی ہیں۔اس دوران ان کے اہل خانہ نے ان سے ملاقات کے لئے دہلی کورٹ سے رجوع کیا لیکن وہاں انہیں یہ کہہ کر واپس لوٹا دیا گیا کہ وہ ابھی عدالتی ریمانڈ پر ہیں ۔بعد میں ان کی اہلیہ کو دن بھر کے انتظار کے بعد صرف چند لمحوں تک ملاقات کی اجازت دی گئی ۔ملاقات کے دوران شبیر احمدشاہ کے حوصلے بلند تھے انھوں نے اپنی قوم کے نام پیغام میں کہا کہ جہاں میرے قوم کے بچے اور جوان اپنی عزیزجانیں پیش کررہے ہیں وہی میں اس بات کا عہد دہراتا ہوں کہ اگر حق کی جستجو میں مجھے پھانسی بھی چڑھنا پڑے ،تو یہ میرے لئے سعادت ہوگی ،لیکن نہ سرنڈر کروں گا اور نہ سر خم کروں گا ۔ ان پر عائد فرضی الزامات کے سلسلے میں ہم یہ بات واضح کرنا چاہیں گے کہ سال 2005میں کشمیر آرٹس کی تجارت سے وابستہ جن میں محمد اسلم وانی نام کا ایک تاجر بھی تھا، کو دہلی کی پولیس نے گرفتار کرلیا اور اس سے ہتھیار اور ایک بڑی رقم برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ۔پولیس نے اسے جیش محمد نامی تنظیم کو ہتھیار فراہم کرنے اور حوالہ رقومات حریت قائدین اور جیش محمد میں تقسیم کرنے کے الزامات میں گرفتار کرلیا ۔2oنومبر2005کو FIRدرج کی گئی اور فیصلہ27/11/10کو صادر کیا گیا ۔اس دوران پولیس نے کئی گواہ پیش کئے لیکن الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ۔مقدمہ کے دوران وہ لوگ بھی حاضر ہوئے جن کی رقومات کو محمد اسلم سے برآمد کیا گیا تھا ۔سال 2010 میں ہی ملزم محمد اسلم وانی 25 arms actکے تحت سزا پانے کے بعد بری ہوا۔اس کے بعد ان سبھی لوگوں نے متعلقہ عدالت میں ضبط کئے گئے رقومات کی واگزاری کے لئے عرضی دائر کی اور عدالت نے ان لوگوں کے حق میں وہ رقومات واگزار کئے جسے محمد اسلم وانی سے برامد کئے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا اور یوںیہ کیس داخل دفتر ہوا۔اس سلسلے میں یہ بات واضح ہے کہ ضبط کئے گئے رقومات عدالتی احکامات کے تحت متعلقہ لوگوں کو جب واگزار کئے گئے تو شبیر احمد شاہ کواسی کیس میں وارنٹ جاری کرنے کا مطلب کیا ہے ۔سوال یہ بھی ہے کہ شبیر احمد شاہ کو سمن جاری کئے گئے لیکن اس دوران وہ لگاتار نظر بند رہے یا قید و بند میں زندگی گزارتے رہے اور سمن کی تعمیل ان حالات میں ممکن نہ تھی ۔یہاں یہ سوال بھی ہے کہ کیا اس شخص کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری کئے جاسکتے ہیں جو ان کی تحویل میں جیل کی زندگی گزاررہا ہو یا جو پولیس کے زیر سایہ نظر بند ہو ۔یہ تو سراسر قانون کے منافی ہے اور صریحاََ ایک کھلواڑ ہے ۔