گزشتہ جمعہ کو محبوبہ مفتی نے آئین کی دفعہ35-A، جس کی رو سے ریاستی حکومت کو پشتنی باشندگان کو شناخت کرنے اور انہیں خصوصی حقوق عطا کرنے کا اختیار حاصل ہے، کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کے خلاف ایک سخت بیان دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر اس قانون کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی گئی تو وادی میں اسکے سنگین نتائج برآمد ہونگے اور مین اسٹریم جماعتوں تک کےلئے ترنگے کی حفاظت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ اس دفعہ ؎کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ قابل قبول نہیں ہوگی۔ میں یہ کہنےسے نہیں ہچکچائوں گی کہ اگر یہ دفعہ ہٹائی گئی تو کشمیر میں قومی پرچم کی لاش بھی کوئی نہیں اُٹھائے گا‘‘۔ انہوں نے یہ باتیں بیوروبرائےتحقیقات بر مبادیاتِ صنعت و معیشت نامی ایک سماجی و معشی مشاورتی گروپ کی جانب سے ’’ افہام کشمیر‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک کانفرنس میں کہیں۔ وزیراعلیٰ نے خبردار کیا کہ ریاست کے خصوصی درجے میں مداخلت کرکے مرکز علیحدگی پسندوں ، جنکا ایجنڈاعلیحدگی پسندی ہے، کو ہدف نہیں بنائے گا بلکہ اُن قوتوں کو کمزور کریگا جنہوں نے بھارت کو تسلیم کیا ہے اور انتخابات میں حصہ لیا ہے۔ وزیراعلیٰ کا یہ اظہار حقائق پر مبنی ہے اور موجودہ حالات میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے لیکن حکومت میں انکی حلیف بی جے پی نے اس بیان کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ لیکر برملا یہ کہا ہے ’’ دفعہ35-Aکوئی مقدس گائے نہیں ہےکہ جیسے چھوا نہیں جاسکتا ہے۔‘‘اس صورتحال میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بی جے پی، جو ملک پر بھی حکومت کرتی ہے، دفعہ35-Aکا کوئی دفاع کرنےکا ارداہ نہیں رکھتی ہے۔ بلکہ اسکی یہ خواہش ہوگی کہ اگر عدالت عظمیٰ میں اس کےخلاف کوئی فیصلہ آتا ہے تو یہ دفعہ ختم ہی ہو۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک تنظیم کی جانب سے دفعہ35-Aکے خاتمہ کی غرض سے عرضی دائر کی گئی ہے اور حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے یہ کیس تین ججوں پر مشتمل بنچ کو بھیجا ہے،جو چھ ہفتوں کے بعد اس سماعت کریگا۔ اس معاملے پر وادی کشمیر میں بہت تشویش پائی جارہی ہے۔ اب کی بار اس حوالے سے صرف مزاحمتی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ مین اسٹریم حلقوں میں بھی بے چینی اور تشویش پیدا ہو ئی ہے۔ کیونکہ دفعہ35-Aریاست کے خصوصی درجہ کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل دفعہ ہے اور اگر اس میں کوئی پھیر بدل کیا گیا تو ریاست کی یہ اٹانومی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتا ہے۔کیونکہ اس کے بعد کوئی ایسی خصوصی پوزیشن نہیں رہے گی جس کی حفاظت کرنے کی ضرورت باقی رہے ۔ ایسے حالات میں ریاستی حکومت کی جانب سے کسی قسم کی پہلوتہی کی توقع نہیں کی جاسکتی اور اسے اس قانون کے دفاع کا دفاع کرنے کےلئے تمام تر ذرائع اختیار کرنے چاہیں۔ سپریم کورٹ میں گزشتہ سماعت کے دوران ریاستی حکومت کی جانب سے جس طرح کی کوتاہی کا مظاہرہ ہوا ہے، ریاست اب اسکی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ حکومت کو صرف زبانی بیان بازیوں سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ عملی طور پر میدان میں کود کر عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنی ہوگی اور عوام کی بھی یہ خواہش او ریہی مطالبہ ہے۔