اردو ایک مخلوط زبان ہے۔ اس زبان کو مذہب،قوم،رنگ و نسل، فرقہ اورر خطہ کے لوگوں نے برتا ہے. یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی سرکاری زبان اُردو ہے جس کوریاستی حکومت نے 1947 میں قبل عروج دیا ۔نئی ریاستی سرکارنے اپنی سیاسی ولسانی پالیسیوں کے حوالے 1952ء میں ریاست کا اپنا نیا آئین مر تب کیا، اس کے مطابق ریاست کے ہر خطے کی عوامی ہر دلعزیز زبان اردو کی مقبولیت اور اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے دفعہ 145؍ کے تحت ریاست کی سرکاری زبان کے طور پر اختیار کیا گیا اور قانون ساز اداروں کے بشمول تمام سرکاری محکموں میں خط و کتابت اردو زبان میں لازم قرار دیا گیا۔ اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے دونوں ریاستی اسمبلی اور ریاستی کونسل میں متعارف ہوئی ۔ حکومت نے اردو کو بطور سرکاری زبان متعدد قوانین مرتب کئے ،جو ریاستی آئین میں اردو کی اہمیت کے کئی دفعات کا احاطہ کر تے ہیں۔ مثلاًدفعہ 48 ؍کے تحت اردو کو بین ریاستی زبان قرار دیا گیا ۔دفعہ 35؍ کے تحت اردو زبان میں ریاست کی عدالت عالیہ کی تمام کارروائیاں ہوں گی۔ دفعہ 19؍کے تحت اسمبلی کے پاس کردہ قوانین اردو زبان اور ریاست کی دیگر قومی زبانوں میں ریاست کے آئینی حکمران یعنی صدر ریاست کے دستخط کے ساتھ شائع ہوں گے۔ آزادی سے قبل جب یہاں ریاستی اسمبلی نہیں ہوا کرتی تھی بلکہ ’’پرجا سبھا‘‘ہوا کرتی تھی، تب بھی اردو میں ہی تقاریریںہوا کرتی تھیں۔ریاست جموں و کشمیر میں اردو زبان کے بارے میں تعلیمی صورت حال سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ آج اس زبان کا مقام کم ہے یا زیادہ ۔ ریاست جموں و کشمیر میں پرائمری سے لے کر کالج اور یونیورسٹی تک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اردو زبان کی موجودہ صورتحال کا صحیح اندازہ 2011 ء کی مردم شماری کی بنیاد پرلگایا جا سکتا ہے.۔محکمہ مردم شماری میں ریاست جموں و کشمیر کے 22 ؍اضلاع میں خواندگی کی شرح اور تعلیمی اداروں کی جو تعداد بتائی ہے، اس کی تفصیل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست میں موجودہ دور میں اردو کی تعلیمی تدریسی پوزیشن کیا ہے:خواندگی کی شرح 74. 68 ہے، مردوں کی خواندگی کی شرح 78.28 ، عورتوں کی خواندگی کی شرح 58ہے۔
تعلیمی خاکہ: پر ائمری اسکولوں کی تعداد 14171ہے، مڈل اسکولوں کی تعداد 6665 ہے، ہائی اسکولوں اسکولوں کی تعداد 1194 ہے ، ہا ْئر اسکینڈری اسکولوں کی تعداد 597 ہے، سینک اسکولوں کی تعداد 02 ہے، کالجوں کی تعداد تقریباً 62 ہے، یونیورسٹیوں کی تعداد 8 ہے، یونیورسٹی کیمپس کی تعداد 8 ہے۔جہاں تک تعلیمی نظام کا تعلق ?ے تو بنیادی تعلیمی اداروں کی کل تعداد 22030 ہے جس میں پرائمری ،مڈل اور ہائی اسکول شامل ہیں۔ آج سے چند سال قبل تمام سرکاری اسکولوں میں اوّل سے آٹھویں جماعت تک تمام مضامین اردو میڈیم میں پڑھائے جاتے تھے اور سوشل سائینس کے مضامین کی تدریس دسویں کلاس تک اردو میں ہی تھی لیکن کچھ عرصہ پہلے حکومت نے جماعت اوّل سے تمام مضامین ا نگریزی میں پڑھاے جانے کے حکم جاری کئے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسکول کے نصاب سے اردو کو ہٹایا جارہاہے. اگر چہ اسکولوں میں تمام مضامین انگریزی میں لکھی گئی کتابوں میں شامل نصاب ہیں لیکن درس و تدریس کا کام آج بھی انگریزی اور اردو کے ملے جلے فارم میں ہوتاہے ۔ بچے انگریزی کے بجائے اردو میں گفتگو کرنے کو اہمیت دیتے ہیں۔ بنیادی تعلیمی اداروں میں اردو اساتذہ کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے ،خاص طور پر صوبہ جموں میں خواہش نہ ہونے کے باوجود بچوں کو ہندی اور ڈوگری پڑھنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کیونکہ وہاں اردو تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔اس کے علاوہ دور دراز علاقوں میں اردو نصاب کی کتابیں بھی آسانی سے نہیں مل سکتیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ابتدائی سطح پر طلباء وطالبات کی اردو کی صلاحیت اطمینان بخش نہیں ہو گی تو آگے چل کر کالج اور یونیورسٹی میں اسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جہاں تک اعلیٰ تعلیمی اداروں کا تعلق ہے تو ہماری ریاست میں کل تقریباً 62 کالج،8 یونیورسٹیاں اور 8 یونیورسٹی کیمپس ہیں لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ابھی تک نصف یونیورسٹیوں میں ہی اردو شعبہ قائم کیا گیا ہے، باقی ماندہ یونیورسٹیوں میں ابھی تک شعبہ اردو قائم نہیںہو ا جہاںہزاروں کی تعداد میں طلباء اردو میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اگر ہم بات کریں 1997 ء کی جب ریاستی سرکار نے اردو زبان کی ترویج و ترقی کو مدمنظررکھتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے دور دراز علاقوں کادورہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں سرکار سے مطالبہ کیا تھا کہ ریاست جموں وکشمیر میں مولاناآزاد نیشنل اوپن یونیورسٹی کی طرز پر ایک یونیورسٹی قائم کی جائے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک سرکارکی طرف سے نہ ہی کوئی جواب ملا ہے اور نہ ہی کوئی پیش رفت۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اردو زبان ریاست جموں و کشمیر کی سرکاری زبان ہے لیکن حکومت کی بدلتی پالیسیوں کی وجہ سے یہ زبان دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے جس سے اس کا مستقبل مخدوش لگتاہے۔لیکن متحدہ ریاست جموں وکشمیر کی تشکیل کے دوران اس زبان نے ایک خاص مقام حاصل کر لیا تھا اور ان حکمرانوں نے اُردو کے حوالے سے بہت سے بنیادی قدم اٹھاے تھے۔ مہاراجہ رنبیر سنگھ نے اقتدار میں آتے ہی اس زبان کی اہمیت اور مقبولیت کے اعتراف میں 1873 ء کی رپورٹیں اردو میں مرتب کروائیں، 1877ء میں مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے گورنمنٹ گزٹ اُردو میں جاری کیاجو دسمبر1913ء تک شائع ہوتا رہا۔ 1934ء میں مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں نئے کانسٹی ٹیوشن Constitution ایکٹ کے تحت اُردو کو اسمبلی کی زبان تسلیم کیا گیا،اسمبلی کی تقاریر اْردو میں ہی ہوا کرتی تھیں۔14؍مئی 1992 ء میں عالمی زبانوں کی اہمیت میں اُردو زبان کو دوسری بڑی زبان قرار دیا گیااورجب کہ کنیڈین ورلڈ جائزے کے مطابق اس زبان سے دنیا میں تقریباً 444 ؍ملین سے زیادہ لوگ منسلک ہیں لیکن کتنی افسوس ناک بات ہے کہ ماضی میں جس طرح اس زبان کی قدرومنزلت ہوتی رہی آج شاید نہیں ہو رہی جس کی مثال نائب تحصیلدار اور پٹواریوں کی اسامیاں پُر کرنے کے لئے ارود میں قابلیت کی شق کو ثانوی حیثیت دینا ہے اور اس سلسلے میں حقیقت کی آنا کانی کرنے میںابھی تک جو رویہ اختیار کیا گیا ہے وہ اردو سے خاد واسطے بیر کی زندہ مثال ہے۔