سرینگر//پریس کالونی میں اس وقت ہنگامہ آرائی کا ماحول پیدا ہوا جب پولیس نے ایک سینئر صحا فی اور قومی روزنامہ مشرق کے بیورو چیف برائے جموں وکشمیر منظور ظہور کو حراست میںلے لیا۔اس دوران صحافتی برادری اور انجمنوں نے منظور ظہور کی گرفتاری پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیاہے تاہم بعدمیں گرفتار صحافی کو رہا کیا گیا۔سی این ایس کے مطابق عسکری کمانڈر ابودجانہ کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی لالچوک میں طلباو طالبات کی طرف سے احتجاج اور مابعد سنگبازی کے واقعات کے دوران پولیس کی ایک ٹیم پریس کالونی سرینگر میں پہنچ گئی جہاں اندھا دھند طریقے سے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیاگیا۔اس دوران پریس کالونی میں صحافیوں،نامہ نگاروں اور فوٹو وویڈیو جرنلسٹوں کی ایک بڑی تعداد پیشہ وارانہ سرگرمیاں انجام دے رہی تھیں۔عینی شاہدین کے مطابق کم عمر طلباء کی گرفتاری پر منظور ظہور اور پولیس اہلکاروں کے درمیان گرم گفتاری ہوئی،جس پر پولیس اہلکار برہم ہوئے اور انہوں نے گھسیٹ کرمنظور ظہور کو حراست میں لیا۔عینی شاہدین نے بتایا کہ منظور ظہور نے اپنی شناخت بھی ظاہر کی،تاہم ایس ڈی پی او کوٹھی باغ کی قیادت میں پولیس ٹیم نے منظور ظہور کو گھسیٹ کر گاڑی میں بھر دیا اور کوٹھی باغ تھانہ پہنچایا۔پولیس افسر نے سی این ایس کو بتایا کہ منظور ظہور نے پولیس کے ساتھ نا زیبا الفاظ کا استعمال کیا اور اس نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی۔ادھرجموں کشمیر ایڈیٹرس ایسو سی ایشن نے منظور ظہور کی پولیس کی طرف سے گرفتاری پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے صحافیوں کو اس طرح ہرساں کرنے کی کاروائی کی مذمت کی۔انہوں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کے چوتھے ستون پر باربار ضرب لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ایسو سی ایشن نے ریاستی وزیر اعلیٰ سے مطالبہ کیا کہ واقعے کی تحقیقات کرائی جائے،تاکہ آئندہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ رک جائے۔ منظور ظہور نے پولیس نے الزام عا ئد کیا کہ پولیس لاک اپ میں اسے بری طرح پیٹا گیا،اگر چہ میں نے باربار کہا کہ میں ایک صحا فی ہوںاسکے باوجود بھی مجھ پر تشدد جاری رکھا گیا۔ منظور ظہور نے یہ معاملہ مقامی ا ور مرکزی حکومت کے اعلیٰ ایوانوں میں اٹھانے کا بھی ارادہ جتلایا ہے۔