محکمہ بجلی کی غفلت شعاری

Kashmir Uzma News Desk
4 Min Read
 سرینگر//نمائندہ عظمیٰ//محکمہ بجلی کی غفلت شعاری کی وجہ سے کھاگ کا ایک بجلی ملازم کسمپرسی کی حالت میں اپنی زندگی کے ایام کاٹ رہا ہے۔ عبدالحمید ملک نامی یہ بجلی ملازم سرینگر میں واقع والنٹری میڈیکیئر سوسائٹی کے مردوں والے وارڈ میں زیر علاج ہے ۔مذکورہ ملازم تین جولائی کو ڈیوٹی کے دوران کرنٹ لگ کر بری طرح سے جھلس گیا تھا۔36سالہ اس شخص کی زندگی اب دوسروں کے سہارے پرمنحصر ہو گئی ہے۔ اس شخص کو ہر پل یہ خیال ستاتا ہے کہ کیا وہ پھر کبھی اپنے بل پر قدم اُٹھا پائے گا؟عبدالحمید کا تعلق ضلع بڈگام کے کھاگ علاقے سے ہے ، جو اس وقت اس رضاکارانہ سنٹر میں موجود رضاکار وں اپنے دو بھائیوں سمیت چہل قدمی کرنا سیکھ رہاہے کیونکہ بجلی کرنٹ نے اُس کے جسم کا پیٹ سے نیچے کا حصہ مفلوج کرکے رکھ چھوڑا ہے،جس میں جان آنا اب حمید کو خواب ہی لگ رہا ہے۔وہ بنیادی طور سے سرینگر کے ایک نواحی علاقے میں ایک نانوائی کے بطور اپنی روزی روٹی کما رہا تھا جب ایک شخص نے سال 2005 میں انہیں محکمہ بجلی میں بحیثیت کیجول لیبر کے طور لایا تھا جہاں بعد میں انکی تقرری دو سال قبل یعنی سال 2015میں لگارتار کیجول لیبر یا دوسرے الفاظ میں پی ڈی ایل کے بطورہوئی۔ـبیڈ پر لیٹے حمید اُٹھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بیلٹ پہنے بغیر اور دو آدمیوں کے سہارے کے بغیر ایسا ممکن نہیں ہوپاتا۔لیٹتے ہوئے حمید کہتے ہیں’’ ہم تین جولائی کو بمنہ میں ایک ٹرانسفارمر لگانے گئے تھے ، کام شروع کرنے سے پہلے اُس دن مجھے اپنے جونئر انجینئر نے دو بار یقین دلایا کہ علاقے کی بجلی سپلائی کاٹ دی گئی ہے ، جسکے بعد جونہی میں سب سٹیشن پر چڑھا ،بجلی کرنٹ نے میرے پورے جسم کوبھسم کردیااور میں کئی فٹ دو رجا گرا ، مجھے اپنے ساتھیوں نے جے وی سی ہسپتال پہنچایا جہاں میری ریڈ کی ہڑی کا آپریشن ہوا اور میں اب یہاں پڑا ہوا ہوں‘‘۔بے بسی کے عالم میں گِرا یہ نوجوان کہتا ہے ’’ اس حادثے میں میرا بائیاں کاندھا ٹوٹ گیا ، بازوجھلسنے کے علاوہ ریڈ کی ہڑی کو نقصان پہنچا اور میرے جسم کے نچلے حصے سے جان ہی گئی ہے۔میں اب سہارے کا طلب گار ہوگیا ہوں ، جس محکمے کے لئے ہم جیسے چھوٹے ملازموں کی جانیں جاتی ہیں ، اُس محکمے کے اعلیٰ افسران ہماری خبر گیری تک نہیں کرتے مالی معاونت تو دو کی بات ہے‘‘۔انہوں نے کہا ’’میری ایک اسسٹنٹ انجینئر کے سوا کسی نے میری خبر گیری نہیں کی ‘‘۔انہوں نے مانگ کی کہ سرکار انہیں اگرمستقل ملازموں کی تنخواہیں نہ دے سکتی ہے لیکن اگر وہ ایسے حادثات میں انہیں وہ محکمانہ معاونت کرتی جو مستقل ملازم کو حاصل ہوتی ہے تو انکے گھرمیں بھی امیدیںکا سورج طلوع ہوتا‘‘۔حمید کے بقول اپنے ساتھیوں اور کچھ افسران نے اُن کے آپریشن کا خرچہ ضرور اُٹھایا لیکن محکمہ کا کہیںکوئی اتہ پتہ ہی نہیںہے۔وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں نے اسے جلد ٹھیک ہونے کی امید دی ہے لیکن کتنا جلدی اسکا علم ڈاکٹروں کو بھی نہیں ، جبکہ گھر میں حمید کی بیوی اور تین کمسن بچے اس دن کے انتظار میں ہیں کہ جب انکا کماو پھر سے ایک بار پھر اپنے پیروں پر چل سکیں۔
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *