یکم اگست 2017 کولکھنو میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بے جے پی کے صدرامیت شانے کہا کہ بھارت کی مرکزی حکومت گائیوں کے لیے ایک الگ وزارت قائم کرنے کے حوالے سے ایک منصوبہ رکھتی ہے۔ بے جے پی صدرکاکہناتھاکہ اس بارے میں بہت سی سفارشات آ رہی ہیں،اور اس پر غور و خوض جاری ہے۔ اس موقعے پر ریاست اترپردیش کے وزیرِ اعلی جوگی ادتیاناتھ بھی امیت شا کے ساتھ موجود تھے جوبھارت میں تحفظ گائے ایجنڈاپرشدومدسے کام کررہے ہیں۔دہلی میں اس وزارت کیا کام ہوگایہ واضح نہیں، البتہ یہ ضرورہے کہ بھارت میں اب گائے کو بتدریج قانونی طورپرانسانی درجے پرپہنچایاجائے گا ۔ 2014 ء میںجب بھارت میں مودی حکومت قائم ہوئی تو انہوںنے عہد کیا تھا کہ گائے کا ذبیحہ روکیں گے۔مودی حکومت قائم ہونے کے بعدبڑے پیمانے پر گائے کے تحفظ کا معاملہ سامنے آیا ہے اورگائے کے ذبیحہ کوگائے کی دھارمک بے حرمتی کا جرم قراردے کر کئی ایک مسلمانوں کوہندئووں کے مشتعل ہجوموں نے قتل کیا ہے۔ ایسی ریاستیں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں گئورکھشا کمیشن قائم کیے گئے ہیں جو گائیوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں۔ ریاست ہریانہ اورگجرات میں گائیوں کے تحفظ کے لیے خصوصی پولیس فورس قائم کی گئی ہے۔ا س سے قبل بھارت میں انسان کے مقابلے میں گائے کی اہمیت کوبہت زیادہ ترجیح دیتے ہوئے دلی کی ایک عدالت نے اپنے غیر معمولی فیصلے کے ذریعے تحت گائے کشی کرنے والے شخص کی سزا 5 ؍سے 14 ؍سال مقررکردی ہے۔
عجب سرزمین کی غضب صورت حال یہ ہے کہ بے چاری گائے کا ووٹ بھلے ہی نہ ہو،مگربھارت میں اسے ایک ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔گائے کے تحفظ کے نام پرمسلمانان بھارت پرشکنجہ مزید کساجارہاہے اورانہیں صریحاََ اس امر کا احساس دیاجارہاہے کہ مذہب کی بنیاد پر ہندئووں پر تمام توجہ مرکوز کی جارہی ہے اور مسلمانان بھارت کے مفادات اور ان کے حقوق کو نظرانداز کیا جارہا ہے!بھارت کی آبادی کے ایک بڑے حصے میں عدم انصاف کا احساس کسی بھی طورپرمسلمانان برصغیرکے لئے اچھی خبر نہیں۔بھارت میں گائے کے تحفظ کے نام پر بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات کے پس منظر میں گائے کے نام پرجوباقاعدہ ایک وزارت تشکیل پانے جارہی ہے، اس کاواضح مطلب یہ ہوگاکہ انسانوں کا قتل برداشت ہے مگرگائے کاذبیحہ نہیں۔
تاریخی طور پر بھارت میں گائے کا ذبیحہ ایک متنازع موضوع رہا ہے، چونکہ ہندو مت میں گائے کو ماں جیسا پوتر سمجھا جاتا ہے ،اس لیے اکثر اس موضوع پر تنازعات اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ بھارت کی 29 ؍ریاستوں میں سے تقریبا 24 ریاستوں نے یا تو گائے کو ذبح کرنے یا گائے کا گوشت بیچنے پر پابندی عائد کی ہے۔تاہم کیرلا،ناگالینڈ،مغربی بنگال، اروناچل پردیش،میزورام اور سکم جیسی ریاستوں میں گائے کی ذبح پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر میں بھی ریاستی انتظامیہ کی جانب سے گائے کی ذبح پر پابندی لگائی گئی تھی مگر ریاست کی اکثریت مسلمانوں نے اس پابندی کے خلاف مظاہرے کئے جس کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے عارضی طور پر ریاستی ہائی کورٹ کا حکم معطل کیا اور گائے کے ذبح سے پابندی ہٹائی اوریہاں گائے، بیل یا بھینس کا گوشت جسے عرف عام میں ’’بڈماز ‘‘کہا جاتا ہے، عام تھا۔37 ؍برس پہلے بھی جب ’’بڈماز ‘‘پر پابندی کی بات ہوئی تو کشمیر کے جنوبی کشمیرکے میرواعظ قاضی نثارمرحوم نے چوراہے پر ایک گائے کو سر عام ذبح کیا جس کے بعد کشمیر میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی،جب کہ 2016ء میں عیدقربان کے موقع پربڑے پیمانے پرگائے کی قربانی ہوئی اوردختران ملت کی چیرپرسن سیدہ آسیہ اندرابی نے بدست ِخودگائے ذبح کرکے ثابت کردیاکہ متنازعہ خطہ میں گائے کے ذبیحے پرکسی قدغن کااطلاق نہیں ہوتا۔
گرچہ بھارت کی اکثر ریاستوں میں گائے کو ایک ریاست سے دوسری ریاست منتقل کرنا غیرقانونی عمل ہے لیکن پھر بھی ایک بہت بڑی تعداد میں ان ریاستوں میں ذبح خانے موجود ہیں جن میں اکثریت غیر قانونی مذبحوں کی ہے۔ 2004 ء کے ایک سروے کے مطابق بھارت میں 3,600 قانونی اور 30,000 غیر قانونی قصاب خانے موجود ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان غیر قانونی قصاب خانوں کو بند کرانے کی کوشش کی ہے لیکن اکثر ناکام رہے ہیں۔ آندھرا پردیش کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ 3,100 غیر قانونی اور صرف 6 قانونی قصاب خانے ہیں۔2012 میں بھارت نے 3.643 ملین میٹرک ٹن بیف ( بڑاگوشت) فراہم کیا جس میں سے 1.963 میٹرک ٹن گوشت خود بھارت میں استعمال ہوا اور 1.680 میٹرک ٹن دیگر ممالک کو برآمد کیا گیا۔ بڑا گوشت فراہم کرنے کے لحاظ سے مجموعی طور پر بھارت دنیا کا پانچواں ملک ہے جو سب سے زیادہ گوشت فراہم کرتا ہے، برآمد کرنے میں پہلا بڑا ملک ہے اور مقامی سطح پر گوشت استعمال کرنے والا ساتواں بڑا ملک ہے۔ تاہم جو گوشت بھارت فراہم کرتا ہے اس میں زیادہ تر بھینس کا گوشت ہوتا ہے جوکہ ہندومت میں مقدس نہیں مانا جاتا۔
بی جے پی کی حکومت میں مجوزہ گائے وزارت قائم ہوکر مبینہ طورپورے بھارت میں اب گائے کوانسانوں سے بھی برترسمجھ کراسے حقوق دیئے جائیں گے۔گائے کی شناخت کے لیے اس کی عمر، جنس، نسل، قد، رنگ، سینگ کی قسم، دم کی تفصیل اور جسم پر کسی ایسے نشان کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جائے گا۔اب بھارت کے پڑوسی مسلمان ملک بنگلہ دیش جسے بھارت کے شہریوں کوبھارت آنے جانے اورتجارت کرنے میں کسی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی ،سے کوئی گائے غیر قانونی طور پر انڈیا میں داخل نہ ہوسکے گی اور نہ انڈیا کی کسی گائے کو ڈرا دھمکا کر، بہلا پھسلا کر یا چوری چھپے بنگلہ دیش لے جایا جاسکے گا جہاں اس کی جان کو خطرہ ہویعنی جہاں کے لوگوں پراس کاگوشت ان کے رب نے حلال بنادیاہے ۔مرکز مین برسراقتدار بی جے پی حکومت میںگائے وزارت قائم ہوکربھارت کی سڑکوں پر گائے اب سر اٹھا کر چل سکیں گی کیونکہ ان کی گمنامی کے دن ختم ہونے والے ہیں، ہر گائے کی ایک شناخت ہوگی، اس کا نام پتا سرکاری ریکارڈ میں درج ہوگا اور اگر کسی گائے کی قانونی طور پر خرید و فروخت ہوگی تو اس کی ملکیت کے دستاویزات اس کے ساتھ جائیں گے۔گائے وزارت قائم ہونے کے منصوبے کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے بی جے پی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ گائیوں کی بین الریاستی اور بین الاقوامی سمگلنگ روکنا چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ گائیوں کے لیے بھی’’آدھار کارڈ‘‘شناختی کارڈکی طرز پر ایک سکیم شروع کرنے کی تیاری میں ہے۔واضح رہے کہ ’’آدھار کارڈ‘‘ کے تحت بھارت بھرمیں ہر مرد عورت اور بچے کی ’’بائیومیٹرکس‘‘یا آنکھوں کا سکین اور انگلیوں کے نشان لیے جاتے ہیں اور ہر شخص کو ایک مستقل نمبر دیا جاتا ہے جس سے اس کی شناخت کی جاسکتی ہے۔بھارتی گائے کے لئے ’’آدھار کارڈ‘‘شناختی کارڈکی یہ تجویزرواں سال کے ماہ اپریل میں ایک سرکاری کمیٹی نے دی ہے جس کے تحت بھارت کی ہر گائے کا ایک مخصوص نمبر ہوگا اور اس کی شناخت کے لیے اس کی عمر، جنس، نسل، قد، رنگ، سینگ کی قسم، دم کی تفصیل اور جسم پر کسی ایسے نشان کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جائے گا جس سے اس کی شناخت کی جاسکے۔بظاہر یہ نمبر گائے کی نسل کے تمام ایسے گائیوںکے لیے لازمی ہوگا جو کسی کی ملکیت ہیں۔ ان گائیوں کو ایک ٹیگ یا بلا جاری کیا جائے گا جس پر ان کا نمبر درج ہو گا۔منصوبہ یہ ہے کہ صرف انہی گائیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کی اجازت ہوگی جن کے پاس یہ نمبر ہوگا، اور وہی سفر کے لائق گردانے جائیں گے۔کمیٹی کی یہ سفارش بھی ہے کہ بنگلہ دیش کے ساتھ ملنے والی سرحد سے بیس کلومیٹر کے اندراندر بھارتی علاقوں میں مویشیوں کی منڈیوں پر پابندی عائد کی جائے گی اور ایسے مویشیوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ریاستی حکومتیں کریں گی جنہیں ان کے مالکوں نے بوجوہ بے سہارا چھوڑ دیا ہو۔
اگر یہ سکیم عمل میں آجاتی ہے تو یہ بھارتی گائیوں کے لیے اچھی خبر ہوگی، کیونکہ ان کی دیکھ بھال کا مستقل انتظام ہو جائے گا، اور خود ساختہ گئو رکشکھوں(گائے کے محافظین)کے لیے بری کیونکہ ان کے پاس زیادہ کام باقی نہیں رہ جائے گا،بھارت میں گائے کی سیاست بظاہر اپنے عروج کو پہنچ رہی ہے اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان بے چارے جانوروں کا ووٹ بھلے ہی نہ ہو، انہیں ایک ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔اس طرزکی سوچ پرطنزکرتے ہوئے ٹوئٹر پر حکومت کے ناقدین پوچھتے ہیں کہ کیا اب گائیوں کے بینک اکانٹ بھی کھولے جائیں گے تاکہ فلاحی سکیموں کے تحت ان کے لیے مختص کی جانے والی رقم براہ راست ان کے کھاتوں میں جمع کرائی جاسکے؟
2014ء سے آج تک بالخصوص بھارت میں گائے کے ذبیحے پرمسلمانوں کوہی ذبح ہوناپڑایہ گذشتہ ماہ28 ؍جون 2017ء کوبھارتی ریاست جھارکھنڈ میں ہندئووں کے ایک مجمعے نے ایک مسلمان نوجوان علم الدین کو قتل کر دیا۔رانچی سے ملحق رام گڑھ میں علیم دین نامی لڑکاگوشت خرید رہا تھا جب مجمعے نے اس پر حملہ کر کے ہلاک کر دیا۔مجمعے نے علیم دین کی گاڑی کو بھی آگ لگا دی اور علیم دین کوان کی گاڑی میںزندہ جلادیاگیا۔اسی طرح جارکھنڈکے ہی ایک اورعلاقے بیریا گاں کا رہائشی عثمان انصاری ڈیری چلانے کا کام کرتے ہیں، ان کی ایک گائے کی بیمار ہو گئی تو عثمان نے گائے کو ذبح کر دیا۔ عثمان انصاری فوارً موردالزام ٹھہرے۔ اس کے بعد ہجوم نے عثمان کے گھر پر حملہ کر دیااور ان کے مکان کو آگ لگائی تو اسے ان کی والدہ، بیوی سمیت کنبے کے تمام اراکین مکان کے اندر ہی تھے سب زندہ جلادیئے گئے۔گذشتہ ماہ نئی دہلی کے قریب ایک ٹرین میں ایک 16 سال کے حافظ جنید نامی ایک لڑکے کے ہجومی ہلاکت کے محرکات بھی یہی تھے کہ کسی نے ٹرین میں افواہ اڑادی کہ اس لڑکے کے منہ سے گائے کے گوشت کی بوآرہی ہے اورچلتی ٹرین سے16 سالہ جنید کو باہرپھینک دیاگیااوراس کی موقع پر ہی موت واقع ہوئی۔صورت حال یہ ہے کہ بھارت میںکسی بھی جگہ گائے کے ذبیحہ کامعاملہ سامنے آنے پربھارت کے ہندو انتہا پسند فسادبرپاکرتے ہیںاورمسلمان کے مکانات کو آگ لگا دی جاتی ہے جب کہ گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں مسلمانوں کوموت کے گھاٹ اتاراجاتاہے۔
نریندر مودی کو جب بیرون ملک گائے کے معاملے پرمسلمانوں پرہندئووں کی طرف سے تشدد کے واقعات پرسوالات کاسامناہوتاہے تووہ تشددکی تو مذمت فورا کرتے ہیں لیکن ملک کے اندر ہونے والے ان حملوں پر نہ صرف خاموش رہتے ہیںبلکہ ان گو رکھشکوں کا بال بھی بیکا نہیں کیا جاتا جو مسلمانوں کے خلاف تشدد اور قتل وغارت گری پر اُتر آتے ہیںاورا ب باقاعدہ گائے وزارت قائم کرنے کے منصوبے سے ممکنہ طور مسلمانوں پرہورہے تشدداورقتل وغارت کو گویاقانونی شکل ملنے والی ہے ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے ک نریندررمودی کے اقتدارسنبھالنے کے بعدکبھی گھرواپسی ، کبھی گائے کے تحفظ تو کبھی لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتارہاہے ۔یہ11؍اپریل 2017ء کی بات ہے کہ بھارت کی وسطی ریاست تلنگانہ میں بی جے پی کے رکن اسمبلی ٹی راجا سنگھ نے اعلان کیاکہ وہ گائے کو بچانے اور رام مندر بنانے کے لیے جان دے بھی سکتے ہیں اور جان لے بھی سکتے ہیں۔اس کاکہناتھاکہ اس کے نزدیک انسانی جان کی قیمت گائے سے زیادہ نہیں ہے۔اس کاکہناتھاکہ گائے کے تحفظ کے معاملے پر واضح موقف رکھتے ہیںاور1999 ء میں اس نے ’’شری رام یوا سینا گئو رکھشا دل‘‘نامی تنظیم بنائی اور گائے کے ذبیحے کے خلاف تحریک شروع کی۔سوال یہ ہے کہ گائے کو بچانے کے لیے کسی انسان کی جان لینا درست ہے؟اس سوال پرسنگھ پریوار کے شدت پسند لوگ برملا کہتے پھرتے ہیں کہ گائے ماتا سے بڑھ کر ان کے لیے کچھ نہیں ہے۔بی جے پی کے یہ گرم مزاج ترشولی کاری کرتا کہتے ہیں کہ ان کے لیے گائے سے بڑھ کر انسان بھی نہیں ہے۔گائے کے حوالے سے اگرچہ گانگریس سمیت سب ہندوجماعتوں کاموقف ایک ہی جیساہے کیوںکہ تمام ہندوگائے کواپنی ماں کادرجہ دیتے ہیں، البتہ بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کے بعدیہ خنجربرسرعام نمودارہوگیا اور مسلم اقلیت کے لئے زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہورہی ہے ۔