فیشن بظاہر ایک بے ضرر سا لفظ… نوجوانوں اور خواتین میں خاصا مقبول… میڈیا کا پسندیدہ موضوع اور سرمایہ دار، ساہوکار کا مؤثر ہتھیار… دراصل یہ لفظ ایک ہمہ گیر فتنہ اور تہذیب وشرافت کے لیے زہرِ ہلاہل ہے، جنون اور دیوانگی ہے۔ یہ درحقیقت ایک روش حیات ہے جس کی اپنی بے اصولیاں ہیں اور اپنے ضوابطہ برہنگی ہیں یہ چیزیں اسلام کے اصول و ضوابط سے براہِ راست ٹکراتی ہیں۔ یہ بات ہم یونہی نہیں کہہ رہے بلکہ ہماری دیکھی بھالیں حقیقتیں ہیں ۔فیشن کا ماخذ مغربیت اور فلم انڈسٹری ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ فیشن انساں کا رخ خیالی دنیاؤں اور قصہ کہانیوں کی جانب موڑ کر اس کو بے راہ رو کردیتا ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ معاشرے میں یہ فیشن کی وبائیں کہاں سے ٹپک کر چھوت کی بیماری کی طرح معاشرے کے تمام طبقات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں؟ کبھی اچانک کوئی ہیراسٹائل مقبولیت حاصل کرلیتا ہے ، کبھی کپڑوں کی کوئی خاص تراش خراش… اونچی قمیص نیچی قمیص… بڑے پائنچے چھوٹے پائنچے… اور اب تو نوبت ہاں قمیص اور ناں قمیص تک آپہنچی ہے۔ جب چار گرہ کپڑے سے کام چل سکتا ہے تو پھر سات گز کپڑے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے ۔ ہاں! آپ میری بات کو چیلنج نہیں کرسکتے ہیں کہ فیشن تو بجائے خود ایک انڈسٹری ہے اور فیشن ڈیزائننگ اداکاری سے الگ شعبہ… اور یہ دراصل فلم انڈسٹری اور مادر پدر آزاد میڈیا کی ایک طفیلی صنعت ہے… اور بس…وضع داری ہمارے معاشرے کا ایک بڑا پیارا اصول تھا۔ اس وضع داری کی وجہ سے کتنے ہی سفید پوشوں کا بھرم رہ جاتا تھا۔ فیشن کے بڑھتے ہوئے طوفان کے ہاتھوں اس کا بھی قلع قمع ہوا، اور ایسا ہوا کہ آج بچے لفظ وضع داری کے معنی بھی نہیں جانتے۔کچھ عرصہ پہلے جب ہمارے معاشرے کو فیشن کا نیا نیا بخار چڑھا تھا تو نانیاں، دادیاں اور بڑے بوڑھے ہی ذرا دقیانوسی لگا کرتے تھے۔ اب تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ آپ صبح سوکر اٹھتے ہیں تو آئوٹ ڈیٹ ہوچکے ہوتے ہیں کیونکہ فیشن نے راتوں رات یوٹرن لے لیا ہوتا ہے۔
اس بلا کی اصلیت جاننے کے لئے سب سے پہلے غور طلب بات یہ ہے کہ فیشن کا ماخذ کیا ہے؟ مسلم روایات کا منبع کیا ہے؟ اور ہمیں دونوں میں سے کس سے وفاداری نبھانی ہے۔ یاد رکھیں اسلام کا مطالبہ صبغۃ اللہ ہے، جب کہ جسمانی ننگے پن فیشن کے اپنے شیطانی رنگ ہیں اور اپنے ابلیسی ڈھنگ ہیں… اور یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہر چیز اپنی تکمیل چاہتی ہے۔ جس وقت ہم ایک بے ضرر سا کام فیشن سمجھ کر اختیار کرتے ہیں ،اسی لمحے ایک نئے فتنے کا دروازہ خود پر اور خاندان پر کھول بیٹھتے ہیں۔اسلام یا فیشن ایبل زندگی جسے آئندہ سطور میں ہم جاہلیت ِجدیدہ کہیں گے، دراصل دو مکمل متوازی پیکج ہیں اور ندی کے دو نہ ملنے والے کنارے ہیں۔ ان میں سے آپ ایک ہی کو اختیار کرسکتے ہیں۔
اس کے لیے ہم ایک چھوٹی سی مثال لے سکتے ہیں حجاب کی… جب تک ہم نے حجاب کو دین کا ایک اصول سمجھا… ہمارا روایتی برقع یا ایک بڑی سی چادر اس ضرورت کو پورا کرتی رہی اور جب اس حجاب میں ہم نے فیشن کو داخل کرلیا تو کیا وہ اسلام کا مطلوبہ حجاب رہ گیا؟ آج حجاب کے کتنے رنگ روپ‘ کتنے انداز اور فیشن ہیں، لیکن غور کیجیے کہیں حجاب بھی ہے…! چلئے بات کو ذرا وضاحت سے بیان کرتے ہیں۔ پہلے یہ غور کرلیں کہ ہم پردہ کیوں کرتے ہیں؟ زینت کو چھپانے کے لیے… لیکن جب حجاب خود زینت بن جائے… یہ کڑھے بنے برقعے… یہ قسم قسم کے اسکارف کیا بجائے خود سامانِ زینت نہیں…! پھر اسراف ِبے جا کا ایک طوفان ہے جو اس حجاب کے ساتھ ہماری زندگیوں میں داخل ہوگیا۔تو پہلی بات تو یہ ہوئی کہ فیشن کا ماخذ ہمارے ماخذ سے بالکل مختلف ہے۔ اب آگے بڑھتے ہیں۔ جب ہم غور کرتے ہیں تو ایک اور بات جو بہت اہم ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ کہ اس روز روز کے بدلتے فیشن نے ہماری بہت سی ایسی معاشرتی اقدار اور روایات کا صفایا کردیا ہے جو ہمارے معاشرے کا ستون تھیںاور نتیجے کے طور پر آج ہر فرد فکر معاش کے ایک ایسے بھنور میں پھنسا نظر آتا ہے کہ اس کے پاس کچھ اور سوچنے ‘ کچھ اور نباہنے‘ کچھ اورکرنے، یہاں تک کہ اپنی ذات کے لیے بھی وقت نہیں بچا ہے۔
ہمارے معاشرے کا ایک بہت قیمتی جوہر… بہت قیمتی قدر ہے ’’قناعت‘‘… ہے ۔اس کا تو فیشنی وباکے ہاتھوں یہ حال ہوا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے اس صدی میں یہ لفظ متروک قرار دے کر لغت سے خارج کردیا جائے گا۔ آیئے ذرا غور کریں کہ قناعت کیا چیز تھی اور اس فیشن کے ہاتھوں کس طرح اپنے انجام تک پہنچی۔ سب سے پہلے ہم اپنے وارڈ روب کی طرف چلتے ہیں، پھر اس کا تقابل اپنے والدین یا ان کے والدین کے وارڈ روب سے کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ان دونوں میں کتنا بعد المشرقین ہے۔ ہمارے بزرگ چند جوڑے بناکر سال بھر ہنسی خوشی اسی میں گزارا کرتے تھے۔ اچھے قیمتی جوڑے تو شاید زندگی میں چند بنتے تھے جو تمام تقریبات اور تہوار نکال جایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کے ایک ایسے کرتے کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے جو ہر دلہن کے لیے مانگ کر جایا کرتا تھا… وہ تو سابقون الاولون میں سے تھیں… لیکن ابھی کچھ عرصہ پہلے تک بھی ہمارے بڑوں کی زندگیوں میں اس حدیث کی جھلک ملتی تھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو چاہو کھائو اور پہنو مگر دو چیزیں نہ ہوں: اسراف اور تبذیر۔
ایک طرف ہمارے بزرگ تھے، دوسری طرف ہم ہیں کہ ہمارے جوڑے سال میں چار بار آئوٹ ڈیٹ قرار پاتے ہیں۔ کبھی نیا پرنٹ آگیا اور کبھی نئی تراش خراش۔ فیشن کے اس تلون نے خواتین کو تو کچھ اور سوچنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا ہے۔کپڑے خریدنا، سلوانا، سنبھالنا، اور پھر نئے سرے سے نئے اسٹائل، نئے پرنٹ کے کپڑے کے لیے اسی چکر میں اُلجھ جانا… ہماری بہنوں سہیلیوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔نتیجہ… بجٹ پر ناقابلِ برداشت بوجھ، الماریوں میں گنجائش سے زیادہ سامان اور وقت کی شدید کمی۔ عمریں رائیگاں جارہی ہیں۔ وہی وقت جو بچوں کی تعلیم و تربیت،رشتہ داروں کی خبر گیری، مصیبت زدہ کی مدد یا کسی اور تعمیری کام پر خرچ ہونا تھا، وہ سارا اس شیطانی چکر کی نذر ہوگیااور پھر فیشن کا دائرہ صرف کپڑوں تک محدود نہ رہا۔ آپ کا مکمل طرزِحیات اس کی زد میں آگیا۔ اس کی زد آپ کے گھر پر بھی پڑی… گھر جو معاشرے کی بنیادی اکائی، پہلی اینٹ ہے یہ ہی ٹیڑھی ہوگئی۔
ایک چھوٹی سی مثال بیت الخلاء کی لے لیں۔ ہمارے طرزِ حیات میں یہ رہائشی گھر سے ہٹ کر صحن کے کونے پر ہوا کرتے تھے۔ اب بیڈ روم میں آگیا۔ یوں پاکی اور ناپاکی کا احساس ختم ہوا، اور نصف ایمان جاتا رہا… حدیث ہے: ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘۔ گھروں میں صفائیاں ہوتی رہیں اور طہارت یعنی پاکی کا خیال ہی دل سے ہٹ گیا۔ پھر اس فیشن کی زد آپ کے کچن پر پڑی۔ کچن کی تعمیر میں تبدیلیاں آئیں۔ آج امریکن کچن کا فیشن ہے تو اگلے سال اٹالین کچن کا مارکیٹ میں چلن ہے۔ وسائل کا ایک بڑا حصہ اس کی نذر ہوا۔ شوہر بے چارہ مقروض ہوا یا کریڈٹ کارڈ کے چکر میں پھنسا، آپ کا گھر تو مشرف بہ فیشن ہوگیا۔ کھڑے ہوکر کھانا پکانے کی عادت نے صحت کے مسائل پیدا کیے وہ الگ۔کھانوں کے روز نت نئے بدلتے انداز… سونے جاگنے کے اوقات… غرض یہ کہ آپ کی زندگی کا کون سا شعبہ ہے جس کو اس فیشن کی دیمک نے چاٹ نہیں لیا ہے!
فیشن… میں سچ بتائوں تو یہ طاغوت کی غلامی کی ایک ایسی قسم ہے جو قبر تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ لہٰذا آیئے آج سے اس جاہلیت ِجدیدہ سے توبہ کریں اور دوبارہ سے مسلمان بن جائیں …سیدھے، سچے، قانع مسلمان۔خدارا اپنی اولا د کو بھی چھوت کی اس بیماری سے بچایئے۔ میں نے بہت ساری دیندار خواتین کو بھی اپنی اولاد کے معاملے میں بے بس دیکھا ہے۔ جب بچہ چھوٹا سا ہی ہو اُس وقت اُس کے دل میں اسلامی اقدار و روایات کی محبت ڈالیے، فیشن کے جنجال اور وبال کی نہیں۔ خدارا فیشن کو بچپن میں بے ضرر نہ سمجھیں۔ جو فیشن آپ کو بے ضرر نظر آرہا ہے یہ دراصل ایک ننھا سا بیج ہے جو آج آپ اپنی اولاد کے دل میں بودیں گی جو جھاڑ جھنکاڑ بن کر آپ کی تربیت کی سرسبز کیاری کو نگل جائے گا۔
آیئے! آج سے عہد کریں کہ ہم فیشن کے پیچھے بھاگ کر پگلے ہونے کا ثبوت نہیں دیں گی بلکہ باعمل مسلمان بیٹیاں بن کر اپنی نسلوں کے لیے نمونۂ عمل بن جائیں گی۔