Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

مغربی خاندان عبرت کا سامان!

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: August 10, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
15 Min Read
SHARE
 ایک بات تو اب طے ہو چکی ہے کہ صہیونی زہریلے جانور کی گود میں پل رہے امریکہ نے اپنی تہذیب کے مٹنے کے خدشات اب خود ہی بھانپلئے ہیں۔ امریکہ سے شائع ہونے والے عالمی شہرت یافتہ میگزین فلاڈلفیادِی ٹریمپٹ (Philadelphia the Trumpet) کے رواں مہینے کی کور اسٹوری(cover story) ہی یہ ہے کہ ہمارا خاندانی و معاشرتی نظام اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے، اس سے اگر انہی ناگفتہ بہ حالات کے حوالے کیا جائے تو ہماری تہذیب جلد ہی مٹ جائے گی۔ جولائی کے اس مہینے کے ایڈیشن کا موضوع ہی تصویری انداز میں یہ رکھا گیا ہے کہ" خاندان، تہذیب، اخلاقیات، تعلیم، مذہب، سماج ، قانون، کیوں اخلاقی گرائو ٹ باعث تشویش ہے" (Family, Culture, Morality, Education, Religion,Society, Law: Why Moral Decline Matters)  ۔میگزین کے اندر ایک ایک مضمون نگار لکھتے ہیں کہ تاریخ دان تہذیبوں کے صفحہ ہستی سے مٹنے کو بیماری، موسمی بلائو، ڈیموگرافکس، سیاسی کشمکش، انسانی خروج، اقتصادی جمود ، ٹیکنالوجی کا نہ ہونا یا خارجی حملے کو بطورِ سبب مانتے ہیں۔ لیکن کیا ہتھیار ، سائینس و ٹیکنا لوجی اور کثرت سے لوگوں کوذرائع ِمعاش فراہم کرنا اس بات کی ضمانت ہے کہ تہذیب زندہ رہے گی؟ کیا امریکہ پسپا ہونے جارہا ہے ، کیا برطانیہ کا نام مٹنے والا ہے؟ یا کیا ہم اپنے اقتصادی و سائینسی ترقی کو لے کر اتنے مضبوط ہیں کہ ہمیں کوئی فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے؟ انہی سوالات کی کھوج میں مضمون نگار آخر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مغرب کی تباہی و بربادی کا کارن بنیادی طور پر گرے ہوئے اخلاقیات ہی ہوںگے۔ مضمون نگار اپنے ملک کی ترقی پر ویل کرتے ہوئے اعداد و شمار بھی پیش کرتے ہیں، جس کے مطابق امریکہ میں ۱۹۶۰ ء کے مقابلے میں ۲۰۱۵ ء میں ایسے بچوں کی تعداد میں ۶۶۰ % (۲۲۴۳۰۰ سے ۱۶۰۳۳۳۴) کا اضافہ ہوا ہے جو بنا کسی شادی بیاہ کے جنے گئے ہیں، اسی طرح سے طلاق کی تعداد میں ۴۰ % (۳۹۳۰۰۰ سے ۸۱۳۸۶۲)کا اضافہ ہوا ہے، ۴۰% کا اضافہ (۷۱۲۶۰۰۰ سے ۱۹۹۰۵۰۰۰)  ایسے بچوں میں ہوا ہے جنہیں اپنے باپ کا پتہ ہی نہیں ہے۔ واضح رہے یہ میگزین کلیسائی دنیا میں ایک تھنک ٹینک(think tank) کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی اسرکولیشن دنیا کے ۱۲۰ ملکوں میں ۱۰ میلین یعنیٰ ایک کرور سے زیادہ ہے۔ یہاں یہ بات تعجب سے خالی نہیں ہے کہ رواں مہینے کی ۶ تاریخ کو امریکی صدر ڈو نالڈ ٹریمپ نے اپنے پو لینڈ کے دورے پر اسی خطرے کا بر ملا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دورِ حاضر کا بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا مغرب کے پاس آنے والے وقت میں زندہ رہنے کی طاقت ہے،کیا ہمیں اپنے اقدار پر اعتماد ہے کہ ہم ان کا بچائو کریں، کیا ہمیں اپنی تہذیب کو بچانے کی خواہش اور طاقت ہے؟صیہونی پروٹو کالز میں ایک اہم پروٹوکال دنیا کی بنی بنائی نظامِ معاشرت کو تہہ و بالا کرانا ہے۔ نظامِ معاشرت اس لئے کہ اسی سے قوموں کا  عروج و زوال منسوب ہوتاہے۔ دنیا کے کم و بیش تمام اقوام کو سیکولرزم کا تحفہ اور سودی معیشیت میں جکڑنے کے بعد اب یہ ان کا اہم اور تقریباََ آخری ہدف ہے کہ دنیا میں جہاں کہی خاندنی نظام مضبوط ہے اس کو برباد کیا جائے۔ اندھی مادی ترقی میں مسحور مغرب میں آج کل اس بات کے چرچے زور و شور سے ہو رہے ہیں اور وہاں کے دانشور آج اس نتیجہ پر پہنچے ہے کہ اُن کے اخلاقیات، خاندانی قربت اورساجی اقدار میں گراوٹ ہی اُن کے تہذیبی زوال کا سبب بننے جارہا ہے۔ 
 نظامِ معاشرت میں خاندان کا اہم رول ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ خاندان ہی سے معاشرت کی داغ بیل پڑ جاتی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ چنانچہ اسلام نے خاندان پر اسی لئے زور دیا ہے کہ یہی سے ملکوں اور قوموں کی تقدیر سنور یا بگڑ سکتی ہے۔اگر ہم خاندان کی تعریف کریں تو  کہا جاسکتا ہے کہ دو متضاد جنسوں کے اشخاص سماجی حیثیت سے ثابت شدہ ایک مربوط اور باضابطہ رشتہ کے بندن میں جڑ جانے کا نام خاندان ہے۔ خاندان کا مطلب اس کے رسمی مطلب سے ہی پورا نہیں ہوتا بلکہ جس طرح کسی مشینری کے کل پرزوں کو جوڑ کر اس سے کوئی کام لینا اُ س کی حقیقی غرض و غایت کو واضح کر کے ایک حیثیت بخشتا ہے ، ا سی طرح خاندان کا وجود میں آنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا اگر وہ اپنی غرض و غایت میں پورا نہ اترتا ہو۔اس غر ض و غایت میں بچوں کا پالنا پوسنا اور انہیں صحیح تربیت کرنا، خاندان اور بین الخاندانی معاملات میں باہمی اخوت و پیار کا قائم ہو نا، خاندان میں بس رہے افراد کی طبی و نفسانی ضروریات کو پورا کرنا اور سماج میں ایک مربوط معاشرتی نظام کو جلا بخشنا کچھ فطری اور حقیقی مقاصد ہیں۔ جتنے بہتر انداز میں معاشرتی نظام کے اندر خاندان سے یہ مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں اتنی ہی زیادہ ملک و جہاں کی زندگی اپنی پٹری پر صحیح ڈھنگ کے ساتھ چلے گی۔ اس کے برعکس اگر خاندان کے وجود کو چٹی یاپریشانی سمجھ کر انسان اپنے سماجی حیوانیت کے پہلو کو نظر انداز کرکے محض خود کی ذات کے لئے جینا بہتر سمجھے تو قوموں کے زوال ہونے میں کوئی وجہ نہیں ہے ۔ اصل میں انسان کو اپنی انفرادی اور سماجی شخصیت کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنی ہوتی ہے۔ پنڈلم کو اس کے سیدھے مدار یعنیٰ وسط میں قائم رکھنا ہے نہ کہ ہلا ہلا کر اس سے دو متضاد جوانب میں ہمہ تن گردش کروانا کہ اُس کی ساخت و شکل ہی نظروں سے اوجھل ہو جائے ۔ 
اللہ تبارک وتعا لیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اکیلا نہیں بھیجا ہے بلکہ اس کے ساتھ اُسی کے جیسے انسان بھی بھیجے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اِس دنیا میں ا س سے اپنی زندگی جینے کے لئے ضروریاتِ زندگی بھی مہیا کر رکھیں۔ انسان محض مادی جانور نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے اندر اور بھی بے شمار خواہشات ودیعت کر کے رکھی گئی ہیں۔ ان تمام خواہشات و نفسیات کو لے کر اگر انسان اپنے اندر توازن قائم نہ کر سکے تو یہ اس کی تباہی و بربادی کے لئے کافی ہے۔ اب چونکہ انسان ایک سماجی حیثیت کا فردِ واحد ہے، اُس کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی تباہی کا خاصا اثرآس پاس کے سماج پر بھی پڑتا ہے۔ 
دورِ جدید کے" متمدن ترین" اقوام کا انسان اپنی اس فطری ساخت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ صرف میں ہی ہوں ، مجھے جو کام اپنے من کو سوجھے گا، قطع نظر اس کے کہ اُ س کام کا کیا اثر آس پاس کے ماحول پر پڑے گا وہ میں کرنے کا مختار ہوں، مجھے اپنی شخصی زندگی جینے میں بیوی بچوں کے جھنجٹ سے کیاسرو کارہے، اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لئے میرے پاس توشادی بیاہ کی پریشانی سے آسان تر طریقے میسر ہیں، ماں باپ سے مجھے کیا لینا دینا ہے، ایسے رشتے تو مجھے اپنی آزادانہ زندگی جینے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، باقی رہا مادہ وہ تو میں کسی بھی ذریعے سے کما لوں گا، غبن، دوسروں کا استحصال ، رشوت، چوری، ناجائز منافع خوری، لوٹ ، کھسوٹ، جسم فروشی، قحبہ گری وغیرہ، میرے پاس تو لاتعداد زرائع ہیں جس سے کہ میں اپنے نفس کو بے لگام چھوڑ سکتا ہوں۔یہ کسی خیالی افسانے کا خلاصہ نہیں ہے ، بلکہ اس کا عملی نمونہ اس وقت مغربی ممالک کی سوسائٹی میں عین الیقین کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، بلکہ اس کا برملا اظہار ۲۰۰۰ ء میں ہی اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنگٹن نے اپنے ملک کے حوالے سے کیا تھا کہ عنقریب امریکہ کی بیشتر آبادی حرام زادوں پر مشتمل ہو گی ۔چنانچہ اِ س وقت امریکہ میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے بچے ہیں جنہیں اپنے باپ کا پتہ ہی نہیں ہے، والدین کو اولڈ ایج سنٹرز میں رکھا جاتاہے، جنسی خواہشات کو پورا کرنے کی ذمہ داری قحبہ خانوں کو دی گئی ہے، انسان اپنی خواہشات کے مطابق اپنی جنسی شناخت (sexual identity) بھی بدل سکتا ہے، لڑکا لڑکی کا روپ دھار سکتا ہے اور لڑکی لڑکے کا۔ کسی نفسانی لذت کو پورا کرنے کے لئے اپنے حسن و جمال کو بھی داؤ پر لگایا جا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں ہر انتالیس منٹوں میں ایک فحش فلم بنائی جاتی ہے اورچالیس میلین سے زیادہ لوگ متواتر طور پر فحش مواد دیکھنے کے عادی ہیں۔ ایک اور سروے کے مطابق امریکہ ہی میں اس ساری قحبہ گری، جسم فروشی  اور جنسی آوارہ گردی سے ہر سال تقریبََا چالیس میلین ڈالر ز بطورِ ٹیکس ملکی خزانے میں جمع کیا جاتا ہے۔انہی کچھ حقائق سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی سماج کا اِس وقت کیا حال ہے۔مغرب اس وقت اگر کسی چیز کے بل پر کھڑا ہے تو وہ بس ان کی مشینری ہے۔ اگر یہ مشینری کسی وجہ سے ان کے ہا تھ سے چلی گئی تو ان کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا صرف اسکنڈوں کا م ہے۔ مغرب سے چلی آرہی اس پُر خطر اندھی نے مشرق میں بھی اپنے اثرات دکھانے شروع کئے ہیں۔صنعتی اور شہری ترقی( industralization and urbanisation) کی وجہ سے انسان کا انسان سے رابطہ سکڑتا دکھائی دیتا ہے۔ خاندنی اخوت و محبت کا بندھن پھیکا پڑتا چلا جا رہا ہے۔ ہمسائیوں اور رشتہ داروں کے حقوق کا باب ہی ختم دکھائی دیتا ہے۔ انسان اپنی ذاتی شخصیت کو لے کر اتنا گم ہو چکا ہے کہ جہاں نہ کوئی ہمسایہ ہے ،نہ کوئی رشتہ دار، نہ ہی کوئی دوست۔ 
اس صورت حال میں صیہونی پروٹوکالز کا فلسفہ اچھی طرح سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ انسان کو اپنی ہی شخصیت میںگم کیا جائے، اس سے دنیا کے اُن حالات و واقعات سے بے خبر رکھا جائے جن کا اس کی اصل زندگی سے واسطہ ہے، اس سے ایسی سہولیات بہم پہنچائی جائیں کہ وہ لاغر ہو جائے، اس سے خاندان اور سماج سے اتنا ناشناس کیا جائے کہ وہ کوئی سماجی اچھائی (social good) کا کام کرنا ہی نہ سوچھے۔ ان ہی اہداف کی پایہ تکمیلی سے وہی دوسری طرف یہود اور ان کے اشاروں پر ناچنے والے اس دنیا کی بربادی پر تلے ہو ئے ہیں۔ 
یہ بات اب اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ مغربی تہذیب اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ انسانوں کے اُس گروئہ جو مغرب کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگنا چاہتے ہیں،’’ روشن خیال‘‘ دانش وروں کے اُس طبقے جو مغرب کی نظامِ زندگی کے عاشق نامراد ہیں، سیاسیا ت کے اُس مکتبہ  ٔ فکر جو مغربی سیاست کے دلدادے ہیں، جدید نظریے کے حامل اُس نام نہاد اعلیٰ فکری طبقہ جو مغرب کی طرزِ زندگی کے متوالا ہے ، مسلم دنیا کے وہ قائدین جنہوں نے اپنا قبلہ مغرب کو بنایا ہے، او ر وہ مسلم ممالک جو مغرب کی ترقی کے دیونے ہو چکے ہیں۔۔۔۔ سب کے لئے یہ ایک حیات بخش پیغام یہ ہے کہ وہ اسلام کے بتلائے ہوئے حسین وجمیل نظامِ زندگی کی طرف واپس لوٹ آئیں، بصورتِ دیگر اللہ کے اُس قانونِ عذاب وعتاب کے نفاذ میں دیر نہیں جوکو قانونِ مکافاتِ عمل کہلاتا ہے، اس قانون کی رُوسے ملکوں اور اقوام کو مجموعی طور پر وقت مقررہ کے لئے سدھرنے سنورنے کی ڈھیل دی جاتی ہے کہ شائد یہ واپس لوٹ آئیں مگر ڈھیل ختم ہوتے ہی اگر انہوں نے اصلاح کا نشتر قبول نہ کیا تو ان پر بے تحاشہ عذاب کا کوڑا بر سایا جاتا ہی کہ یہ ناسیاًمنسیا ہوجاتی ہیں ، البتہ کاروبار ِ جہاں چلانے کے لئے اللہ ساتھ ہی کسی اور قوم کو میرٹ کی بنیاد پر یا دوسرئے لفظوں میں صالحیت وصلاحیت کی اساس پر اپنے دین کی خدمت لینے اور دنیا کو سدھار کا شرف عطا فرماتا ہے۔ دنیا کی تاریخ کی طرف نظر دوڑاتے ہوئے اس بات میں کوئی رتی بھر شک نہیں کہ اگر موجودہ ودر میں امت مسلمہ کی دینی ناکارگیاں ایسے ہی چلیں تو آنے والے وقت میں اللہ اُن لوگوں کو منصبِ اصلاح وخدمت پر بٹھائے گا جن کا کسی کے حاشیہ ٔخیال میں بھی کوئی تصور نہ ہو۔
رابطہ 9622939998
ای میل [email protected]:
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پی ڈی پی رہنما پرہ کے خلاف ”ایم سی سی“ کی خلاف ورزی کا مقدمہ مسترد
تازہ ترین
اے ای ای جل شکتی پرویز احمد وانی لاپتہ، گاڑی دریائے چناب کے قریب برآمد
تازہ ترین
گاندھی نگر جموں سب ڈویژن میں متعدد چوری کے معاملات حل ،نقب زنی میں ملوث 13افراد گرفتار ، تقریباً 27 لاکھ روپے کی مسروقہ املاک برآمد / ایس پی جموں
تازہ ترین
نیٹ یوجی 2025کے نتائج کو چیلنج کرنے والی درخواست پر غور کرنے سے عدالت عظمیٰ کا انکار
برصغیر

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?